ماشااللہ سے ایسی طبعیت پائی ہے کہ روز اول سے بہت کم جگہیں اور عمارتیں ہیں جنہوں نے متاثر کیا ہو۔ 2010 میں جب پہلی بار بارسلونا گئے تھے تو جانتے تھے کہ ایک عام یورپی کی دس سرفہرست خواہشوں میں سے ایک یہ بھی ہوتی ہے کہ پرتگال یا بارسلونا کی سیاحت کی جائے۔ لیکن ہم وہاں چار دن رہے اور کسی بھی شے سے متاثر نہ ہوپائے - بس وہ دن اور
آج کا دن پیسا مینار سے لیکر برج خلیفہ تک ہم اچھاااا کہہ کر گزر گئے۔
تعصب کہیے، حب الوطنی کہیے یا پھر واقعی کسی زمانے میں یہاں کچھ اچھا ہوتا رہا ہے کہ پاکستان میں کئی جگہیں ایسی لگیں جو ہماری تمام تر مٹانے کی کوششوں کے بھی اچھے لگے اور ہم سوچنے لگے کہ جب یہ اپنے عروج پر ہوں گے تو کیا غضب ڈھاتے ہوں گے۔
چند روز قبل ہمارے محترم و بزرگ بلاگ ریاض شاھد صاحب نے بہاول پور مدعو کیا اور واپسی پر دربار محل دکھانے لے گئے۔ چونکہ ہمارا بچپن خود ریاست بہاولپور کے شہروں میں گزرا ہے اور ہمارا بچپن خاصا عرصہ قبل تھا تو ہم نے آرٹ کے یہ نمونے دیکھ رکھے تھے ، نہ صرف دیکھ رکھے تھے بلکہ دماغ کے کونوں کھدروں میں محفوظ کر رکھے تھے تو جب پہلی عمارت پر نظر پڑی تو بس نہ پوچھیے کیا حال ہوا۔ یوں تو کیفیات کو الفاظ میں ڈھالنا ناممکن ہے لیکن مختصراً یوں سمجھ لیجیے کہ آپ نے اپنا چوتھا بچہ جس کے پیمپر سے ناقابل بیان بو اٹھ رہی ہو کو گود میں اٹھا رکھا ہو اور آپ کے سامنے آپ کی یونیورسٹی کی محبت اسی جوبن اور جون سے آجائے۔ تو اگر آپ نے بھی درختوں، عمارتوں، جگہوں سے محبت کی ہے تو پرانے عشق کا لطف اٹھائیے
|
فصیل دربار محل |
|
جھروکہ، چھت پر بنی پینٹنگز دیکھیں۔اگر آپ میں ذرا بھی تخیل پایا جاتا ہے تو محل میں جانے کے پیسے یہیں حلال ہو جاتے ہیں |
|
اینکسی |
|
برآمدہ، ایسے ستون تو اطالوی عمارتوں کے کان کاٹتے ہیں |
|
فوارہ، جب پانی یہاں اڑتا ہوگا تو کیا کیا خواب نہ جاگتے ہوں گے |
|
دربار محل کی اصل عمارت |
|
جھروکے سے محل دیکھیے |
|
قسم سے بنانے والے کے ہاتھ چومنے کا دل کرتا ہے |
|
وہ خواب بنانے والے کیا ہوئے |
|
آؤ بیٹھیں ، باتیں کریں، خواب پھوڑیں |
|
کھڑکی میں کٹی ہیں سب راتیں |
|
بقول ریاض صاحب کے کہ اب تو روائیتی طرز تعمیر کی مساجد بھی کم کم ملتی ہیں |
|
سبز رنگ پر سرخی مائل بھوری عمارت |
دربار محل ریاست بہاول پور کے اس وقت کے حکمران نواب بہاول خان پنجم کی ہدایت پر تعمیر ہونا شروع ہوا اور ریاست کے ان گنت کھنڈر شدہ تاریخی عمارتوں کے برعکس اس وجہ سے اصل حالت میں برقرار ہے کہ اس کو پاکستان آرمی نے اس وقت نوابوں سے خرید لیا تھا جبکہ آزادی سے قبل یہ بہاولپور کی علاقائی عدالت کا مقام بھی تھا۔ شاید اسی وجہ سے اس کی حالت کچھ قابل قبول حالت میں وگرنہ ریاست کے دیگر مقامات تو افسوس کا مقام ہیں جس کی سب سے بڑی مثال قلعہ ڈیروار ہے۔
پہلے میرا ارادہ تھا کہ یہ تصاویر فیس بک پر شئیر کی جائیں لیکن فیس بک کا بھی پاکستانی تاریخی عمارتوں کا سا حال ہے کہ آج ہیں کل نہیں تو بلاگ میں پوسٹ کر رہا ہوں کہ سند رہیں اور بوقت ضرورت ہمیں ہماری ماضی کی تصویر دیکھ کر شرم دلا تی رہیں-
تصاویر کبھی اصل کا متبادل نہیں ہوتیں بس گزارے والی بات ہے تو اگر آپ کو ان تصاویر میں میری فضول سی فوٹوگرافی کے باوجود کچھ خوبصورتی نظر آ گئی ہے تو آج ہی اپنے کسی دوست یار کو جو فوج میں ہو پکڑیں اور یہاں کی سیر کریں وگرنہ ریاض شاھد صاحب کی ہی منت ترلا کرلیں امید ہے اللہ ان کے دل میں رحم ڈالے گا۔
Darbar Mahal (Tasveeri), Bahawalpur