ہم اس زمانے میں پیدا ہوئے جب کوکا کولا ، پیپسی و دیگر ہلکے مشروبات (سافٹ ڈرنکس) تعیشات میں شمار ہوتے تھے اور
خال خال مہمان کی ہی اس مشروب سے تواضح کی جاتی تھی لیکن اس زمانے میں پیدا ہونے کے باوجود میں کوکا کولا اور پیسپی کا آج کے بچوں کی طرح ہی شوقین تھا بلکہ میرے خیال میں اکثر بچے تب بھی اور اب بھی اس کے شوقین رہے ہیں - میری خواہش ہوتی تھی کہ اللہ کرے قابل تواضع پیپسی /کوک مہمان روز روز آئیں اس لیے نہیں کہ میں بچپن سے ہی مہمان نواز واقع ہوا ہوں یا مہمانوں کی بوتل کے ساتھ ہم بچوں کی بھی بوتل آتی تھی بلکہ اس لیے کہ اس زمانے میں اکثر لوگ بوتل میں ایک آخری گھونٹ چھوڑ دیا کرتے تھے جو کہ ہماری اشتہا کا پیٹ بھرنے کا کام دیا کرتی تھی اور مہمان اللہ کی رحمت کیوں ہیں سمجھنے کا موقع فراہم کرتی تھی۔ لیکن اللہ کی رحمت کا دورانیہ جب طویل ہو جاتا تو ہمیں بے چینی ہوجاتی اور اندر جا کر بار بار مہمانوں کو میزبانی کی پیشکش کرتے ہوئے برتن اٹھانے کی پیشکش کرتے جس کا بنیادی مقصد شیشے کی وہ بوتل ہوتی جس میں ہماری زبان کے چٹخارے کی جان بسی تھی۔ لیکن یہ پیشکش صرف والدہ کے مہمانوں کے لیے ہوا کرتی تھی کہ والد صاحب کی تنبیہ محض گھورنے تک یا کھنگارنے تک محدود نہ ہوا کری تھی بلکہ وہ شرع میں کیسی شرم کے قائل تھے اور مہمانوں کے سامنے ہی ہمیں مہمان کی عظمت کا سبق پڑھا دیا کرتے تھے۔ اگر مہمان بھی ہم جیسے ہی ترسے ہوئے ثابت ہوتے جو ایک آخری قطرہ تک نچوڑ کر بوتل کی جان چھوڑا کرتے تھے اور نام اس کو فضول خرچی سے اجتناب کا دیا کرتے تھے تو ہم بھی اپنے لیمبوں نچوڑ اور اسحاق ڈاری طبعیت کو ضرورت ایجاد کی ماں کا نام دے کر خالی بوتل میں ٹھنڈا پانی بھر کر پی لیا کرتے تھے جس میں سے خوشبو کوک کی اور ذائقہ ایسا آتا جیسے کہ اس شخص کو آیا ہو گا جس نے بھاگتے چور کی لنگوٹی ہتھیا لی ہو گی۔ تاہم کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ کوئی مہمان ہمارے چہرے پر برستی معصومیت اور پیاس جو کہ سیلاب زدگان اور زلزلہ زدگان کو بھی پیچھے چھوڑتی تھی پر رحم کھا کر ہمیں آدھی بوتل تھما دیا کرتا تھا اور جوتے جو وہی جو ہر حال میں پڑنے تھے تو کیوں نہ بوتل پی کر پڑتے۔