July 21, 2015

کوکا پیپسی سیون اپ- لوازمات گپ شپ



ہم اس زمانے میں پیدا ہوئے جب کوکا کولا ، پیپسی و دیگر ہلکے مشروبات (سافٹ ڈرنکس) تعیشات میں شمار ہوتے تھے اور
خال خال مہمان کی ہی اس مشروب سے تواضح کی جاتی تھی لیکن اس زمانے میں پیدا ہونے کے باوجود میں کوکا کولا اور پیسپی کا آج کے بچوں کی طرح ہی شوقین تھا بلکہ میرے خیال میں اکثر بچے تب بھی اور اب بھی اس کے شوقین رہے ہیں - میری خواہش ہوتی تھی کہ اللہ کرے قابل تواضع پیپسی /کوک مہمان روز روز آئیں اس لیے نہیں کہ میں بچپن سے ہی مہمان نواز واقع ہوا ہوں یا مہمانوں کی بوتل کے ساتھ ہم بچوں کی بھی بوتل آتی تھی بلکہ اس لیے کہ اس زمانے میں اکثر لوگ بوتل میں ایک آخری گھونٹ چھوڑ دیا کرتے تھے جو کہ ہماری اشتہا کا پیٹ بھرنے کا کام دیا کرتی تھی اور مہمان اللہ کی رحمت کیوں ہیں سمجھنے کا موقع فراہم کرتی تھی۔ لیکن اللہ کی رحمت کا دورانیہ جب طویل ہو جاتا تو ہمیں بے چینی ہوجاتی اور اندر جا کر بار بار مہمانوں کو میزبانی کی پیشکش کرتے ہوئے برتن اٹھانے کی پیشکش کرتے جس کا بنیادی مقصد شیشے کی وہ بوتل ہوتی جس میں ہماری زبان کے چٹخارے کی جان بسی تھی۔ لیکن یہ پیشکش صرف والدہ کے مہمانوں کے لیے ہوا کرتی تھی کہ والد صاحب کی تنبیہ محض گھورنے تک یا کھنگارنے تک محدود نہ ہوا کری تھی بلکہ وہ شرع میں کیسی شرم کے قائل تھے اور مہمانوں کے سامنے ہی ہمیں مہمان کی عظمت کا سبق پڑھا دیا کرتے تھے۔ اگر مہمان بھی ہم جیسے ہی ترسے ہوئے ثابت ہوتے جو ایک آخری قطرہ تک نچوڑ کر بوتل کی جان چھوڑا کرتے تھے اور نام اس کو فضول خرچی سے اجتناب کا دیا کرتے تھے تو ہم بھی اپنے لیمبوں نچوڑ اور اسحاق ڈاری طبعیت کو ضرورت ایجاد کی ماں کا نام دے کر خالی بوتل میں ٹھنڈا پانی بھر کر پی لیا کرتے تھے جس میں سے خوشبو کوک کی اور ذائقہ ایسا آتا جیسے کہ اس شخص کو آیا ہو گا جس نے بھاگتے چور کی لنگوٹی ہتھیا لی ہو گی۔ تاہم کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ کوئی مہمان ہمارے چہرے پر برستی معصومیت اور پیاس جو کہ سیلاب زدگان اور زلزلہ زدگان کو بھی پیچھے چھوڑتی تھی پر رحم کھا کر ہمیں آدھی بوتل تھما دیا کرتا تھا اور جوتے جو وہی جو ہر حال میں پڑنے تھے تو کیوں نہ بوتل پی کر پڑتے۔

مزید پڑھیے Résuméabuiyad

July 11, 2015

یادوں کا گاؤں



پیش تحریر: سنجیدگی ، بے ربطگی اور طوالت کے لیے پیشگی معذرت

نو نمبر چونگی چوک ایک طرح کا ملتان شہر کا داخلی دروازہ ہے۔ اندرون شہر کے پانچ دروازے جو کبھی قدیمی دروازے ہوا کرتے تھے اب اندرون شہر سے بھی زیادہ سمٹ گئے ہیں اور اندرون شہر ان دروازوں سے باہر نکلا لگتا ہے۔ 9 نمبر چونگی نئے ملتان کا دروازہ ہے جیسے عزیز ہوٹل چوک ، چوک کمہاراں والا اور چوک بی سی جنہوں نے دولت گیٹ، دہلی گیٹ، پاک گیٹ، حرم گیٹ، بوہڑ گیٹ اور لاہوری (لوہاری) گیٹ کی جگہ لے لی ہے۔

مزید پڑھیے Résuméabuiyad

July 1, 2015

مجسمے اور جملے- آخیر


مجسموں اور جملوں کی آخری قسط ملاحظہ کریں۔ اگر کوئی مجسمہ یا کوئی ملک  رہ گیا ہو تو بھول چوک لین دین ۔ ویسے اگر بھول چوک لین دین میں درست طور زیر زبر نہ لگائی جائے تو جملہ بذات خود ہی زیر و زبر ہو کر رہ جاتا ہے اور بات کے کئی نئے در کھلتے ہیں اور اسی بنیاد پر میں جب بھی کہیں دیکھتا ہوں کہ فلاں زبان دنیا کی مشکل ترین زبان ہے تو میں ان کی لاف زنی پر ہنس کر رہ جاتا ہوں کہ میرے خیال میں اردو بولنا اور درست لہجہ میں بولنا اور پڑھنا کوئی آسان کام نہیں بس جیسے مسلمان پیدا ہوگئے ہیں ویسے ہی پیدائشی اردو آ گئی ہے وگرنہ ہم بھی مانگٹا، وانگٹا کی گردان دوہرا رہے ہوتے اور اردو کی ایسی کی تیسی اب سے بھی زیادہ کر رہے ہوتے۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad