November 17, 2014

ادلی کی بدلی -چوکا

Adli ki badli- choka

زندگی میں پہلی بار سمجھ آیا مولوی صاحب کیوں کہا کرتے تھے دنیا دھوکے کا گھر ہے۔ اب تو کسی پر اعتبار نہ تھا پتہ نہیں یہ جو ماں تھی اصل میں کون تھی یا تھا یا یہ میرا ابا اصل میں کوئی بادشاہ تھا یا کوئی تخریب کار خود کش دھماکہ کرنے والا تھا۔ سب کچھ ایسا گڈمڈ تھا کہ گویا میری زندگی نہ ہوئی حکومت پاکستان ہو گئی۔ کوئی نہیں آج بھی بارہ بج جائیں گے بندے ہمت کر۔ مجھے اپنے کل کے عزم کہ آج باہر نکلنا ہے گریبوں کی مدد کینی ہے وغیرہ وغیرہ اپنے جسم کی طرح بدلتے محسوس ہوئے اور غریبوں کی کیا مدد کرتا کہ مجھے خود مدد کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ ماں کی آواز آئی فرح آ گئی۔ اب یہ فرح کس مصیبت کا نام تھا۔ اتنی دیر میں ایک اور لڑکی آئی اور بولی ابھی تک تو ایسے ہی بیٹھی تیار نہیں ہوئی؟

میں نے سوچا کہ چلیں کیا پتہ کسی موڑ پر وہ دس منٹی منحوس مل جائے اور کوئی اس مصیبت سے چھوٹنے کا چارہ ہو۔ بس اسی لالچ میں میں نے منہ پر چھینٹے مارے اور باہر جانے کو تیار ہو گیا۔ بیگ نہیں اٹھائے گی؟ کونسا بیگ؟ میں نے دل میں سوچا ۔ کالج کا بہانہ نہ کیا تو کہاں جانے دیں گی آنٹی۔ اچھا یہ کام ہیں ان بیبیوں کے۔ ایک بیگ سامنے پڑا تھا میں نے سوچا یہی ہوگا میں نے اٹھا لیا- فرح بولی آج دماغ کہاں ہیں جناب کے حضور؟ واٹ دی ہیک  What the heck  میرے منہ سے نکلا۔ واہ اللہ میاں دیسی گالیوں سے انگریزی والی پر پہنچا دیا۔ اس نے ایک پردے کے پیچھے سے میرا یعنی کرن کا بستہ اٹھا کر میرے کندھے پر لٹکایا اور ہم باہر نکل آئے۔

باہر ایک تنگ سی گلی تھی جو تقریباً ویران پڑی تھی ۔ میں نے سوچا ذرا رہن سہن دیکھو اور نخرے اور گفتگو دیکھو یہ لڑکیاں نہیں سدھرنے والیں۔ ابھی میں سوچ رہا تھا کہ گلی میں ایکدم بہت سارے لوگ آنے جانے لگ گئے۔ یہ کیا کسی نے چڑیا گھر کے سارے پنجرے کھول دیے میں سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے احساس ہوا کہ آتا جاتا مجھے گھور رہا ہے اور ایسے گھورتا ہے کہ گلی کے سرے سے گھورنا شروع کرتا ہے اور نزدیک پہنچ کر تقریباً کندھا مار کر یا ٹکرا کر جان چھوڑتا ہے اب پیچھے کا اللہ کو پتہ کہ پیچھے جا کر مڑ مڑ کر میری طرف دیکھتا جاتا ہے یا انسانوں کی طرح آگے دیکھتا ہے۔ یہ کیا مسئلہ ہے؟ میں نے منہ پر ہاتھ پھیرا، ناک ، کان ، آنکھیں دیکھیں کہ عام انسانوں جتنی ہی ہیں۔ کیا میں نے کپڑے پہنے ہیں یہ دیکھنے کے لیے جب نیچے نظر جھکائی تو لڑکی کے کپڑے دیکھ کر سمجھ آگئی۔ لعنتی مرد کبھی نہیں سدھرے گا لڑکی دیکھی نہیں کہ زبان باہر آئی نہیں۔ کتنے ذلیل ہوتے ہیں یہ مرد۔ مجھے یاد آیا کل تک میں بھی اس ذلیل اور لعنتی فہرست میں شامل تھا۔ چلو آج کچھ گناہ دھل جائیں گے میں بے بسی سے مسکرایا ۔ سامنے آتا لڑکا مجھے مسکراتا دیکھ کر باچھیں پھاڑ کر مجھے تکنے لگا۔ مجھے لڑکوں کے قومی نشان سی کہاوت یاد آئی 'ہنسی تو پھنسی'۔ میرا دنیا سے باقی ماندہ ایمان بھی اٹھ گیا۔ مجھے گھبراہٹ سی ہونی لگی۔ادھر فرح ایسے سکون سے چلی جا رہی تھی جیسے وہ لڑکی ہو ہی ناں اب میں یہ پوچھتا یا پوچھتی جو بھی سمجھیں عجیب لگتا تھا کہ تمھیں لڑکوں کے دیکھنے سے گھبراہٹ نہیں ہو رہی۔

میرے خیال میں جتنے لڑکوں نے اس دن گھور لیا اتنا تو میں نے اپنی کل زندگی میں لڑکیوں کو نہیں گھورا ہوگا۔ مجھے ایک لطیفہ یاد آیا کہ مولوی صاحب اپنے خطاب میں کہتے ہیں جس نے کسی کو گالی نکالی قیامت کے دن وہ اس کے کندھے پر سوار ہوگا۔ ایک شخص پہلے رونے لگتا ہے پھر ہنس پڑتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کیا ہویا تو وہ کہتا ہے کوئی نہیں میرے کندھے پر لوگ ہوں گے تو میں بھی کسی کے کندھے پر ہوں گا۔ میں نے بھی ہنس کر خود کو تسلی دی کہ چلو کوئی نہیں ہم بھی کسی کے کندھے پر ہوں گے۔

آخر گھوم گھام کر ، چٹخور پنا کر کے گھر واپس آگئے ۔ کالج تو ایک بہانہ تھا۔ میں سوچنے لگا کہ مائیں کیسے اپنے بچوں کو گول گپے اور چورن کھانے سے روکتی ہوں گی پھر سوچا کہ جیسے راشی اور حرام خور باپ اپنے بچوں کو دین سکھاتے ہیں ویسے۔ پر ایک بات ہے اگر انسانوں کا ذائقہ ہوتا تو مرچی اور کھٹے ذائقے والوں کی عیاشی ہوتی۔ ویسے دیکھا جائے تو یہ جو لڑکیاں ہمیشہ اوباشوں اور کمینوں سے پھنستی ہیں اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ ان کا ذائقہ نہ سہی عادات و اطوار چٹخارے دار ہوتی ہیں جبکہ ہم جیسے پرھیزی کھانے نما شریف لڑکوں کو کون گھاس ڈالے۔

ادھر جگہ جگہ حقیقی معنوں میں منہ مار کر لوٹے تو مام (کالی انگریزنی اماں کو مام بلکہ موم بلاتی تھی) نے کہا بیٹا تیار ہو جا لڑکے والے تیرا رشتہ دیکھنے آ رہے ہیں۔ واٹ نان سینس موم۔ میں نے کتنی بار کہا نہیں کرنی مجھے یہ میرج ویرج۔ ویرج نہ کر میرج تو کرنی پڑے گی ۔ بکواس نہ کر اور تیار ہو جا۔ میں نے سوچا تتلی جگنو چاند ستارے ایک سے ہیں یعنی سب اماؤں کے مارے ایک سے ہیں- اصولا تو مجھے کرن سے ہمدردی ہونی چاہیے ایک کرن کیا تمام کرنوں سے ہونی چاہیے کہ جیسے وہ اس بکرا منڈی پریڈ سے گزرتی ہیں لیکن مجھے غصہ آرہا تھا کہ میں لڑکا ہو کر کبھی کسی کا رشتہ دیکھنے نہ جا سکا ادھر لڑکی کے گھر رشتے والے آرہے تھے۔ اللہ سب کزنوں (کرن نہیں کزن)کو غارت کرے منحوس ماریاں، میرے نصف دلہا بننے کے اور مہمان خصوصی ہونے کےکتنے ہی مواقع ضایع کرا دیے۔

ادھر فرح بھی تیار ہو کر آگئی اور اس کو دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ کمینی مجھے دیکھنے آرہے ہیں یا اسکو۔ ایسے بن ٹھن کر آ گئی ہے لیکن میں لڑکیوں کی طرح اندر کی جلن کو چھپا کر اس کی تعریف کرنے لگا یو آر لکنگ گورجیس۔ (you are looking gorgeous)- چڑیل کہیں کی دل ہی دل میں نے تصیح کرنا مناسب سمجھا۔ میں کرن کی ماں کی سادگی پر بھی حیران ہو رہا تھا اور مجھے لگا میری ساری مشکلات کی جڑ وہی ہیں۔ اب اگر وہ خیال کرتیں تو جب کرن کو دیکھنے آرہے ہیں اس کی میک اپ تھوپی سہیلیوں کو تو روانہ کریں۔ اسی لیے کرن کی شادی نہیں ہوسکی اور آج مجھے یہ مصیبت بھگتنی پڑ رہی ہے۔ اس کی شادی ہو گئی ہوتی تو کہیں چولہے پھونک رہی ہوتی اور میں کسی اور بدن میں چلا جاتا۔ اس خاتون خانہ خرابہ سے تو جان بچتی۔ لیکن نہیں۔ یا اللہ بندہ اب اتنا بھی بھولا نہ ہو۔

مہمان آگئے اور میری شامت بھی۔ مام کا لیکچر جاری ہو گیا کہ یوں نہ کرنا یوں نہ کرنا ایسے اٹھنا ایسے بیٹھنا اتنی نصحیتیں تو تمام عمر میں کرن بی بی نے نہ سنی ہوں گی جتنی میں نے اسکے بدلے اس روز سن لیں۔ مام کے نصائح کے انبار تلے دب کر مجھے تو اپنی اماں معصوم لگنے لگی۔ بہرحال وہ منحوس گھڑی آ ہی گئی جس سے ہر لڑکی نفرت کرتی ہے جب تک وہ ایک لڑکے کی ماں نہ بن جائے۔ چائے بمع لوازمات لے کر میں کانپتے ہاتھوں اور کوستی قسمت سے دلہا میاں کے سامنے پہنچ گیا اور دلہے کو دیکھ کر میری ہنسی نکلتی رہ گئی۔ اتنا پتلا کہ میں سوچنے لگا ہوا چلتی ہو گی تو اس کے موبائل کے جیب میں ہونے سے اڑنے سے بچ جائے تو بچ جائے وگرنہ میں اڈی اڈی جاواں ہوواں دے نال۔۔۔

کس ذلالت میں پھنس گیا ہوں یار۔ لڑکا ہو کر لڑکیوں سے نخرے کرنے پڑ رہے ہیں۔ بیٹا تو کبھی مل سہی مجھے باہر نہ تیری طبعیت سیٹ کی تو میرا نام کرن نہیں۔ مجھے رونا آ گیا کہ بندہ کسی کو تڑی لگانے کے قابل نہیں رہا، میرا نام کرن نہیں اب بندہ کیا کسی کے سامنے رعب جھاڑے۔ میرے خیالات کا تانتا تب ٹوٹا جب مجھے آواز آئی کیوں نہیں کیوں نہیں۔ اور فرح مجھے لیکر اندر چل پڑی اور وہ تنکے بھائی بھی پیچھے اپنی بہن کے ساتھ آگئے۔ اچھا نواب صاحب اکیلے میں ملنا چاہتے ہیں۔ لسٹ Lust کے مارے لوگ۔

جب ہم دونوں کمرے میں اکیلے رہ گئے تو اس تنکے نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میرا دماغ اور ہاتھ دونوں گھوم گئے- یو تھرسٹی ڈاگ (غصے کی وجہ سے تھرسٹی کرو Thirsty crow اور گریڈی ڈاگ greedy dog گڈ مڈ ہو گئے وگرنہ کرن کی انگریزی میرا والی انگریزی قطعاً نہ تھی)۔ وہ تنکا تھپڑ کھا کر ہاتھ اور گال ملنے لگا۔ آپ وہ نہیں ہو۔ کون سی سسٹر کی بات کر رہا ہے۔ غصے میں بھی انگریزی نہ بھولی تھی میں نے دل ہی دل میں داد دی کرن کو۔ پھر مجھے خیال آیا کہ کیا پتہ کوئی چکر وکر ہو اور بیچارہ اصل کرن سے پھول سوری فلاور لیتا ہو اور میرے سے چانٹا لے بیٹھا ہو۔ مجھے کچھ پشیمانی ہوئی لیکن میں کیا کرتا بطور لڑکا میں لڑکوں کے کرتوتوں سے بخوبی واقف تھا۔

ادلی بدلی کے چکر والا۔ یو سن آف۔۔۔ میں آگے لے الفاظ پی گیا۔ سوری یار مجھے کیا پتہ تھا تم وہ دس منٹی ہو میں سمجھا کوئی رال ٹپکانے والا مرد ہے۔
میں سمجھا؟؟ اوہ تم  اصل میں لڑکے ہو۔ وہ پاگلوں کی طرح ہنسنے لگا اور مجھے اس کو تھپڑ مارنے کی ساری پشیمانی ختم ہوگئی۔
ابھی تو لڑکی بنا ہوں پتہ لگے کسی دن مینڈک ہی بن جاؤں۔
وہ ہسنتے ہنستے کہنے لگا نہیں انسان ہی رہو گے بلکہ انسان تو بنو گے یا نہیں لیکن انسان کے جسم میں رہو گے۔
اچھا فلسفی قلیل جبران۔
وہ ہنسنے لگا۔ یار اصل میں پہلی بار ادلی کی بدلی کے چکر میں جنس بدلی دیکھی ہے۔
 جب وہ اچھی طرح ہنس چکا تو گھڑی دیکھ کر بولا اب میں چلتا ہوں- باسٹرڈ دانت نکالتا رہا دس منٹ ضایع کر دیے اب میں کل کا انتظار کروں جوابات کے لیے۔ وہ کچھ کہے بغیر اٹھنے لگا، میں نے کہا یار سوری یہ اس کمینی کو انگریزی گالیاں بکنے کی عادت ہے مجھے تو ان کے معنی بھی نہیں آتے۔ یہ تو بتا دواس سے چھٹکارا کب ملے گا؟
کام جاری ہے؟
کام جاری ہے کیا مطلب کوئی روڈ کنسٹرکٹ Construct ہو رہا ہے کہ کام جاری ہے مجھے پھر غصہ آ گیا۔ کچھ تو بتا دو یہ دس منٹ کا کیا چکر ہے یار؟ دس منٹ میں کوئی دھماکہ ہو جائے گا؟ ہم دونوں پھٹ جائیں گے؟ دنیا تباہ ہو جائے گی؟ ہم کاکروچ بن جائیں گے کچھ تو بتا دے مائی سیوئر My savior۔ 
کہتے ہیں دس منٹ سے ذیادہ ادلی بدلی والے اکٹھے رہے تو جو طاقت یہ سب کر رہی ہے وہ مزید طاقتور ہو جائے گی لہذا اس منحوس چکر کو ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دوسرے سے دور رہیں اور انتظار کریں کب یہ شیطانی چرخہ ختم ہو اور اس کے ساتھ ہی وہ دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔

ہائے اللہ جی کدھر پھنسا دیا مجھ بیچارے کو۔ شکر ہے یہ چوبیس گھنٹے کا چکر ہے دو تین دن کا ہوتا تو میں نے یہ رشتہ مارچ کر کر کے مر جانا تھا۔ ہائے بیچاری لڑکیاں کتنی مظلوم ہوتی ہیں۔ مجھے سب لڑکیوں پر پیار آنے لگا اور اگر اسلام اجازت دیتا اور ممکن ہوتا تو میں ان سب لڑکیوں کو دیکھے بغیر بیاہ لاتا جو اس رشتہ شو سے نفرت کرتی تھیں لیکن ابھی تو میں خود لجا لجا کر اپنی کمر کا بل نکلوا چکا تھا۔

مجھے حیرت ہوئی یہی لڑکیاں جب مائیں بنتی ہیں کیسے اپنے بیٹے کو لیکر رشتہ دیکھنے پہنچ جاتی ہیں۔ سچ ہے عورت ہی عورت کی بڑی دشمن ہے پہلے رشتہ دکھاتے وقت نفرت کرتی ہے پھر ماں بن کر خود اپنے بیٹے کا رشتہ دیکھنے پہنچ جاتی ہے، عورت ہی پہلی بیوی کے ہوتے دوسری بیوی بننا قبول کرتی ہے اب اگر عورت نہ مانے تو دوسری شادی اب مرد کسی مرد سے تو کرنے سے رہا، اور شاید اسی لیے سہیلیوں میں بھی دل ہی دل میں کمینگی برقرار رہتی ہے۔

باقی وقت کچھ پشیمانی میں گزرا کچھ پریشانی میں گزرا ۔ کچھ نیند میں گزرا اور کچھ جاگتے میں گزرا۔ بہرحال جب آنکھ اچھی طرح کھلی تو نیا دن تھا نیا گھر تھا نیا میں تھا۔ میں نے اوپر دیکھا درمیانی طبقے کے لگنے والے گھر کی چھت تھی- پنکھے پر مٹی لگی تھی میں نے خود کلامی کے انداز میں کہا 'پھر کہتے ہیں آندھیاں بہت آتی ہیں بھائی پنکھے تو صاف کر لیا کرو'۔ بے اختیار میں نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ ایک بات تو طے تھی آج یا میں اسٹیج ایکٹر تھا یا فیصل آباد میں تھا۔
(کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی جنابو)