November 3, 2014

ادلی کی بدلی - دو نمبری

Adli ki badli - 2 numbri



مجھے یاد آیا ایک بار جب میں نے محلے کی لڑکیوں کا چھیڑا تھا اور ابا کے سامنے شکایت لگی تھی تب بھی میرا یہی حال
ہوا تھا کہ سانس آتا تھا تو جاتا نہ تھا اور جاتا تھا تو آتا نہ تھا۔ کیا کسی نے مجھے بھنگ پلا دی ہے؟ پہلا خیال یہی آیا جس سے مجھے احساس ہوا کہ میری تھوڑی بہت سوچ نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ میں امریکہ میں ہوتا تو سوچتا شاید کوئی انگریزی فلم کا سین چل رہا ہے لیکن پاکستان میں تو صرف جن بھوت۔۔۔ کیا کوئی روح کا چکر تو نہیں؟ کسی جن نے میرے جسم پر تو قبضہ نہیں کرلیا؟مجھے جنوں کے ٹیسٹ پر انتہائی افسوس ہوا کہ کالا کلوٹا، گنجا، فربہہ مائل، چھوٹے قد کا جسم لے کر کیا کریں گے اور اب میں ہیرو ہیرا لال بنا کھڑا تھا۔ چل استاد اب گلے پڑا ڈھول بجانا پڑے گا دیکھیں کیا ماجرا ہے ویسے کیا پتہ کوئی چڑیل عاشق ہو گئی۔ میں تو ڈروانی کہانیاں پڑھ کر اکثر سوچا کرتا تھا کہ کاش کوئی چڑیل ہی عاشق ہو جائے ، کوئی بکری عاشق ہو جائے ، کوئی تو آخر مخالف جنس ہماری قسمت میں لکھی جائے۔ چڑیل کا سوچ کر ڈر لگا لیکن پھر سوچا کہ اگر کوئی مجھے ایسا شہزادہ بنا سکتی ہے تو خود پری کیوں نہیں بن سکتی۔

میں نے ہرجائی ابا کو بھلا کر عاشق چڑیل کے خواب دیکھنے شروع کر دیے اور کمرے سے باہر نکل آیا کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا اگلیاں تو قبرستان میں اٹھا لاتی ہیں یہ تو پھر بھی محل ہے۔

گھر کیا تھا کوئی زمینی جنت تھی مجھے یقین آ گیا کہ ڈراموں اور فلموں والے گھر اصل میں ہوتے ہیں ورنہ میں تو کہتا تھا کہ بھائی یہ صرف سیٹ ہوتے ہیں کون پاگل لاکھوں خرچ کر کے ایسے صوفے خریدے گا جن پر بیٹھنا بذات خود ایک مہارت کا کام ہے لیکن آج میں خود ایک ویسے ہی پاگل کے گھر میں تھا۔ پاگل نہیں پاگلی کہ چڑیل کا گھر تھا۔ پھر میں نے سوچا یہ نظر کا دھوکا بھی ہو سکتا ہے یاد آیا کہ آپ کی طرح میرے کسی سات آٹھ پرانی نسل کے دادا جان کو ایک بار جنوں نے سونا دیا تھا لیکن وہ لالچ سے باز نہ آسکے جس پر وہ کوئلے بن گئے اور ہم آج تک منہ کالا کرائے پھرتے ہیں تو ہوسکتا ہے یہ سب نظر کا دھوکا ہو۔

ایک بندہ سامنے نظر آیا میں نے سوچا اس سے راستہ پوچھ لوں اب اتنا بڑا گھر تھا کہ اس میں ہمارا پورا محلہ سما جاتا ۔ میں نے انتہائی مہذب ہونے کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوچھا بھائی یہ ناشتا کہاں ملے گا۔ وہ تھوڑا سا ہنسا اور بولا صاحب نیچے۔ اس کی ہنسی کے بعد نیچے کا پوچھنے کی جرات نہ ہوئی کہ ایک تو بندہ کیا نوکروں کو منہ لگائے دوسرا یہ میں تھوڑی تھا کہ بے عزتی پروف ہوتا میں نے اس جسم کے احترام میں اس نوکر کو حقیرانہ نظر سے دیکھا جیسے اسے کہہ رہا ہوں گریب لوگو میں تمھارا امتحان لے رہا تھا۔ مجھے سمجھ آئی کیوں پیسہ پا کر لوگوں کے دماغ، گردن اور کپڑے اکڑ جاتے ہیں۔ مجھے دیکھیں پرائے کھوکھے پر دس منٹ کے لیے گلہ سنبھالنے پر وہاں کے مالک کی اداکاری شروع کرد ی کجا اصلی ملکیت۔ چوڑا ہونا تو بنتا ہے استاد۔

بہرحال کوئی دس ایک منٹ خجل ہونے کے بعد آخر کار میں ناشتے کی میز پر پہنچ گیا۔ جس طرح میں نے اپنی چیخ روکی مجھ سے پوچھیں۔ اس لیے نہیں کہ سامنے کوئی میرے انتظار میں چڑیل بیٹھی تھی یا ابا اپنا نکاح نامہ بمعہ وصیت موجود تھے بلکہ چیخ سامنے موجود کھانے کا انبار دیکھ کر نکلتی تھی۔ اتنا کھانا تو میں نے آج تک اپنی زندگی میں نہ کھایا ہوگا جتنا اس ایک وقت اس میز پر موجود تھا۔

قسمے اگر اس وقت موت کا فرشتہ آجاتا تو میں خوشی خوشی اپنی جان کو فرشتے کے حوالے کر دیتا جان یعنی اس چڑیل کو جو مجھ پر عاشق تھی ۔ جب منہ کھولے کھولے میرے جبڑے دکھنے لگے تو میں اپنے ہواس اور پرائے جسم میں واپس آ گیا اور میز کا جائزہ لیا جہاں وہی لڑکی بیٹھی تھی جو صبح آئی تھی۔ دھت تیرے کی چڑیل نے بھی بھائی بنا لیا۔ مجھے تھوڑی بدمزگی محسوس ہوئی لیکن نظر ایک بار پھر میز پر لگے ابنار پر پڑی اور کوفت دور ہو گئی۔

اصل میں قصور میرا بھی نہیں بچپن سے ہی بھوک دیکھی تھی اور یہ حال تھا کہ جب کسی کا بڑا مالی گھپلہ سنتا تھا تو اس کی ہمت کی داد دیتا تھا کہ مجھے موقع ملے میں تو کوکا کولا کی ایک بوتل کی خاطر دو نمبری کرنے سے نہ چوکوں کون اتنی دیر ایمان کو ڈگمگانے سے روکے رکھے جتنی دیر سودے بازی میں لگے۔

لڑکی نے موبائل اٹھایا ہوا تھا اور وہ اس پر ٹک ٹک کی جارہی تھی۔ پاپا آفس چلے گئے آپ کو وہاں بلایا ہے۔ اب ایسی باتوں کا اب کوئی کیا جواب دیتا۔ میں نے سوچا یہ پاپا تو کھا لوں جو سامنے پڑا ہے۔ جب دو تین ایسی چیزیں جن کے نام کیا میں نے کبھی دیکھیں نہیں تھیں کھا لیں تو سوچنے لگا کہ یہ تو نہ چڑیل کی کہانی لگ رہی ہے نہ ابا کی دوسری شادی ہے پھر کیا چکر ہے۔ لیکن سوچنے کو ساری عمر پڑی تھی اور کھانا پتہ نہیں دوبارہ ملتا کہ ناں۔ اماں ہمیشہ شادیوں پر کہتی تھی تھوڑا کھاؤ اپنا پیٹ ہے اور میں اس کو کہتا اسی لیے تو ایسے کھا رہا ہوں کہ اپنا ہی پیٹ ہے پرایا ہوتا تو بھوکا مارتا اس پاپی کو۔ لیکن آج پرایا ہونے کے باوجود میں ایسے کھا رہا تھا جیسے کسی سوٹے باز کو دو دنوں سے کار کا دھواں بھی نصیب نہ ہوا ہو۔

جب میرے پیٹ نے بھی چیخیں مارنا شروع کردیں تو میں نے بس کی۔ وہ چڑیل ابھی تک موبائل کو چمٹی تھی۔ میں نے بمشکل پوچھا کیسے جاؤں؟ بمشکل ایسے کہ منہ کھولتا تو ایسے لگتا کھانا ابھی باہر ہی نکل آئے گا اور میں نے کہیں سچ مچ میں نکل نہ آئے منہ سختی سے بھینچا ہوا تھا۔

 گاڑی پر۔ جواب ملا۔ مجال ہے یہ امیر لوگ کسی کے کام آجائیں ۔ بی بی موبائل کہیں بھاگا جا رہا ہے تو مجھے تفصیل سے بتا دے پر نہیں۔ جی میں تو آیا کہ سناؤں جیسے اپنی اصلی بہنوں کو کھینچ کر رکھا تھا لیکن مجھے خیال آیا کہ مار پڑی تو آنسو کی بجائے کھانا نکلے گا لہذا مجھے سوجھی کہ امیروں کے بچے نافرمان اور بدتمیز ہوتے ہیں۔ میں نے کہا نہیں جاتا اور اپنے کمرے کی طرف چل پڑا۔ اس نے ایسے کندھے اچکائے جیسے کہتی ہو میری بلا سے بھاڑ میں جاؤ۔

اصل میں اب کھا تو لیا تھا لیکن معدہ بیچارہ حیران پریشان تھا۔ اگر اس جسم میں معدہ میرا ہی تھا تو اس کا حیران ہونا بنتا ہی ہے کہ زندگی بھر اتنا نہیں کھایا جتنا اب کھا لیا اور اب اس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس کو سنبھالنا ہے یا ہضم کرنا ہے اور اگر اس جسم کا معدہ تھا تو بھی بیچارہ حیرانی میں حق بجانب تھا کہ جسم سے تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے ہوا پر ہی پلتا رہا ہو۔ بس اب اس بے وفا کا غسل خانہ تھا اور ہم تھے دوستو۔ جتنا کھایا تھا اتنا پچھتایا اور مجھے لگا کہ گیسٹرو ہو گیا ہے لیکن پھر خیال آیا یہ گریبوں والی بیماریاں دماغ سے نکالو اس کو فوڈ پوائزننگ کہتے ہیں۔ اب کونسی اماں تھی جو او آر ایس ہی گھول کر پلاتی بس ادھر شام ہوئی ادھر میں نے پلنگ والی چادر غسل خانے کے ساتھ والے کپڑے بدلنے والے کمرے میں بچھا دی کہ غسل خانے کے پھرے مستقل جاری تھی۔ کوئی پتہ نہیں کب غشی طاری ہوئی کب آنکھ لگی۔

آنکھ کھلی تو یوں لگا جیسے دو بندوں نے ٹانگوں سے اور دو نے ہاتھوں سے اٹھایا ہوا ہے۔ مجھے خیال آیا شاید کل کے کھانے سے اتنی کمزوری ہوئی کہ اللہ میاں کے پاس پہنچ گیا ہوں اور فرشتے ڈنڈا ڈولی بنا کر عذاب دینے کو تیار کررہے ہیں۔ میں نے ایک چیخ ماری اور پھنس گیا۔ پھنس ایسے گیا کہ آنکھ کھلی تو جھٹکا مار کر اٹھنے کی کوشش کی تو پتہ چلا میری کمر چارپائی جسکے عین بیچوں بیچ سوراخ تھا میں پھنس گئی تھی اور ڈنڈاڈولی فرشتوں نے نہیں بلکہ چارپائی کی سطح مرتفع نا ہموار ہونے کی وجہ سے تھا۔ ناہموار تو میری قسمت تھی ۔ اب یہ کیا تماشہ ہے کہاں وہ ارب پتی کھرب پتی چڑیل کا پتی کہاں یہ ٹوٹی چارپائی، اردگرد لٹکتے کپڑوں کے ٹکڑے۔ اتنی دیر میں ایک شخص جس کو دیکھ کر ہی دل کرتا تھا اس کو پانچ روپے پکڑا دوں کہ بھائی نہا لے تیری مہربانی آیا اور میرے کان کھنیچ کر مجھے چارپائی سے کھڑا کر دیا۔ حرام کا جنا کام پر نہیں جانا ؟؟ کل کے واقعے کے بعد میں قسمت پر راضی ہو چکا تھا۔ میں نے سوچا دیکھیں اب کیا تماشہ ہو۔ وہ جو کہ میرے خیال میں آج میرا ابا تھا (کیا قسمت کی گھمن گھیری تھی پاپا سے ابا پر لا کھڑا کیا) بولا ٹھیک سے پریٹکس کر لیو۔ اس نے ہاتھ پھیلایا اور بولا اے بابو اللہ کے نام پے۔ اس نے ایسے منہ بگاڑ کر کہا کہ میں بے اختیار جیبوں میں ہاتھ مارنے لگا کہ کچھ ہو تو دے کر جان چھڑاؤں۔

ایک دم مجھے خیال آیا کہ جب میں سوتا ہوں تو منظر بدل جاتا ہے کیوں نہ آنکھ لگا کر دیکھوں۔ ابا باہر گیا تو میں چارپائی پر دوبارہ لیٹ گیا۔ آپ تو جانتے ہیں کہ ہم نوجوان نسل اٹھ کر سونے میں کتنی مہارت رکھتی ہے اور دو منٹ میں نندیا پور کے آس پاس پہنچ چکا تھا۔

اب کہ آنکھ کسی کے منہ پر طمانچہ مارنے سے کھلی اور وہی ابا نما شخص میرے گال لال کیا لال گلال کر چکا تھا۔ ساتھ ہی ایک موٹی سے کالی عورت پان چبانے میں مصروف تھی۔ میں نے سوچا یہ اماں ہو گی میں نے شکایتی نظروں سے اس کی طرف دیکھا لیکن وہ ایسے کھڑی تھی جیسے ابے نے میری بجائے چارپائی کو طمانچے رسید کیے ہوں۔ ماں کی عظیم رشتے ست میرا اعتبار ہی اٹھ گیا۔

میری اچھی طرح آنکھیں کھولنے کے بعد میں ابا کے پیچھے چل پڑا۔ ابا بولا بول کر دیکھا چل شاباش۔ میرا دل کیا زمین پھٹے اور میں اس میں گڑ جاؤں۔ اتنی بےعزتی تو جب یونیورسٹی میں سب کے سامنے ثمینہ نے کہا تھا گھر میں بہنیں نہیں ہیں ان کو جا کر چھیڑو تب نہیں ہوئی تھی، میٹرک میں چار بار فیل ہو کر نہیں ہوئی تھی، پروین کو جس سے میں نے اظہار محبت کیا تھا نے کالے کلوٹے کہہ کرمحلے میں سب کے سامنے میرا پول کھولا تھا تب نہیں ہوئی تھی۔ جب مجھے یونیورسٹی کنٹین پر بچی بوتلیں پیتے دیکھ کر لڑکیاں ہنس پڑی تھیں تب نہیں ہوئی تھی۔ پر ڈنڈا سب کا پیر ہے تو میں نے آنکھیں بند کیں اور رندھے لہجے میں ہاتھ پھیلا کر بولا اللہ کے نام پر۔۔۔۔(جاری و ساری ہے)