آپ نے کئی بار پڑھا ہو گا کہ مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ- اس میں مضمون نگار یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ تو معصوم، عیبوں سے پاک، دودھ سے دھلا کوئی فرشتہ نما انسان ہے لیکن کسی خرکار گروہ یعنی اپنے دوستوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے اور جو خطا کے پتلے کیا خطا کی مشینیں ہیں اور جن کی کوئی دماغی کل پرزہ ٹھیک کام نہیں کرتا اور جن کا واحد مقصد اس کی زندگی تباہ کرنا ہے-
January 1, 2017
October 21, 2015
جب پہلا بلاگ لکھا تھا تو یہ ارادہ تو تھا کہ اب یہ لکھنا لکھانا جاری رہے گا لیکن یہ پتہ نہ تھا کہ چھ سال تک لکھتا چلا جاؤں گا، دو سو پوسٹ لکھ ڈالوں گا کہ چھ سال قبل ہم نے سوچا نہ تھا کہ مزید چھ سال زندہ بھی رہ پائیں گے۔ تو اب چونکہ یہاں تک پہنچے ہیں تو سوچا کیوں نہ اس ڈبل سینچری کی خوشی میں آپ کو اپنے بارے آگاہ کیا جائے۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
June 19, 2013
Ustad ji hamrah side program mian naik dil
میاں نیک دل کا فون آیا کہ استاد جی کے ہمراہ میں جمعہ کو آپ کے پاس آؤں گا۔ کچھ اپنی قسمت خراب تھی اور کچھ بلاگروں کی تعریفوں کے انبار، استاد جی سے ملاقات کا خاصا اشتیاق تھا۔ نیک دل صاحب سے پہلے ملاقات ہو چکی تھی اور جتنے وہ دیکھنے میں نرم لگتے ہیں دل کے بھی اتنے ہی نرم ہیں اور ان لوگوں سے ہیں جن سے مل کر اگر آپ کے اندر حیا لحاظ باقی ہے تو یہ ہر بار آپ کو اپنا احسان مند کر کے جاتے ہیں اور آپ ہر بار سوچتے ہیں کہ ایسوں سے نہیں ملنا نہیں چاہیے ۔
میاں نیک دل صاحب کار سے اترے اور مجھے گلے ملے۔ جب میں میاں نیک دل سے مل چکا تو ایک لڑکا سا آ کر ملا، "کیا حال ہیں پائین۔۔" ۔ دل کو صدمہ سا لگا کہ یہ ہیں استاد جی؟ لیکن کن اکھیوں سے کار میں تاکا جھانکی کرتا رہا کہ شاید یہ استاد جی نہ ہوں استاد جی اندر بیٹھے ہوں اور یہ فقط استاد جی کا چھوٹا ہوں لیکن وہی استاد جی تھے ۔ اور میں نے جو زبان سے ان کی تعریفوں کے ڈونگے برسائے تھے گاڑی میں بیٹھ کر دل کو منانے لگا کہ شکل کا بخت اور عقل سے کوئی تعلق نہیں اور مزید وزن پیدا کرنے کو شیشے میں اپنی شکل دیکھنا شروع کر دی۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
April 1, 2011
Nizam
نوٹ : اس مضمون کے سب واقعات بد قسمتی سے سچے ہیں یا انکو میں ایسی ہی حالت میں جانتا ہوں۔کوئی جھوٹ محض اتفاقیہ ہو گا۔مصنف کو ذمہ دار نہ سمجھا جاوے۔
نہ تو یہ خدانخواستہ پاکستان کے نظام کی بات ہو رہی ہے جو وجود ہی نہیں رکھتا نہ ہی نظام دین سقہ ایک دن کے بادشاہ کی کہانی ہے بلکہ یہ نظام الدین ملتان پبلک اسکول والے کا تذکرہ ہے جنکو فیس بک پر لوگ صاحبزادہ نظام کے نام جانتے ہیں۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
March 1, 2011
Katie
نوٹ:اس کہانی کے سب کردار فرضی ہیں ۔اگر کسی قسم کی مطابقت پائی گئی تو اللہ کی مرضی ،بندہ کیا کر سکتا ہے۔
یوں تو کیٹی سے میں پہلی بار تب ملا تھا جب میرے کچھ چھوٹے کزنوں نے مجھ سے پوچھا تھا علی بھائی آپ کیٹی سے ملے ہیں؟تب تک میں یورپ نہ گیا تھا لہذا کیٹی نام میرے لیے یکسر نیا تھا میں سوچنے لگا یا خدا یہ کیٹی کیا بلا ہے؟بعد میں پتہ چلا کہ انہوں نے اپنی بلی کو cat سے کیٹی کر دیا ہے۔لیکن یہ کہانی اس کیٹی کے متعلق نہیں بلکہ اس کیٹی کے بارے میں ہے جو میرے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتی ہے لیکن جب بھی کوئی اس یونیورسٹی میں ساتھ پڑھنے والی کیٹی کی بات کرتا ہے میرا ذہن اس کیٹی کی طرف چلا جاتا ہے جو میرے کزنوں نے مجھ سے ملائی تھی۔
یوں تو ہماری یونیورسٹی کا حال پرانے محلوں کا سا اور اس میں پڑھنے والوں کا واحد مشغلہ ماسی خیبر میل بننایعنی کی ادھر کی ادھر لگاناہے،یہاں خبریں راکٹ کی رفتار سے بھی تیز گردش کرتی ہیں اور بعض اوقات خود مجھے اپنے بارے میں دوسروں سے پتہ چلاکہ اچھا یہ کام بھی میں نے کیا تھالیکن کب اس کا نہ بتانے والے کو پتہ ہوتا ہے نہ کرنے والے کویعنی مجھے۔لیکن ایک بات تو ہے ناں کہ دھواں وہاں سے اٹھتا ہے جہاں آگ ہوتی ہے۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
May 1, 2010
mera dost- Salman Omer
یوں تو ملتان پبلک اسکول کی تاریخ میں ایک سے بڑھ کر ایک طالب علم گزرا ہے لیکن ان میں سے کچھ ایسے تھے جو اپنے وقت میں صرف کلاس میں میں ہی نہیں بلکہ تمام اسکول میں یکساں طور پر مشہور تھے۔عمرسعید جب میں نہم جماعت میں تھا تو ہیڈ بوائے تھے اور ان پر پر یہ عہدہ خوب جچتا تھا اور تمام اسکول ان کو اچھی طرح جانتا تھا اس وقت اسکول ہیڈ بوائے کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی۔اوپر سے ان کی پر جوش تقریریں۔ذیشان قادر سے آگاہی ہوئی تو پتہ چلا کہ آگ جوش کے علاوہ پیار سے بھی لگائی جاسکتی بشرط یہ کہ مقرر ذیشان قادر ہو۔اویس امین صاحب جنہوں نے بورڈ میں پوزیشن لی اور تمام اسکول میں مشہور ہو گئے کیونکہ اس کے بعد تمام اسکول کو اس روز چھٹی تک کھیلنے کی اجازت دے دی گئی تھی اور ہم دعا مانگتے کہ اللہ کرے اس بار بھی کوئی بورڈ میں پوزیشن لے لے۔کچھ لوگ اور وجوہات کی بنا پر مشہور ہوئے۔محمد علی ملک صاحب پرنسپل کی اختتامی تقریب میں سیٹیاں بجانے کے
باعث مشہور ہوگئے ۔
مہر منیر خیر رہنے دیں ان کی وجہ شہرت تو بہت سے لوگ جانتے ہیں۔نظام الدین جنہوں نے ایف ایس سی میں لافانی شہرت حاصل کی تھی۔فہیم چغتائی کو عارف صاحب،لیاقت صاحب اور ہارون صاحب کے علاوہ اس وقت کے پریپ اسکول کے تمام طلبہ بھی بھولے نہ ہوں گے۔نعمان خان جنکو آج بھی لوگ دادا کے نام سے جانتے ہیں۔لیکن آج میں جس نابغہ روزگار ہستی کا ذکر کرنے لگا ہوں وہ اپنے وقتوں میں ہر خاص و عام میں یکساں مقبول میٹرک کے بیچ ۹۹ اور ایف ایس سی کے بیچ ۲۰۰۱ کے اپنی نوعیت کے واحد سلیمان عمر کے بارے میں ہے۔
اس تحریر کو شیئر کریں;