March 1, 2011

Katie,کیٹی

Katie 


 نوٹ:اس کہانی کے سب کردار فرضی ہیں ۔اگر کسی قسم کی مطابقت پائی گئی تو اللہ کی مرضی ،بندہ کیا کر سکتا ہے۔

یوں تو کیٹی سے میں پہلی بار تب ملا تھا جب میرے کچھ چھوٹے کزنوں نے مجھ سے پوچھا تھا علی بھائی آپ کیٹی سے ملے ہیں؟تب تک میں یورپ نہ گیا تھا لہذا کیٹی نام میرے لیے یکسر نیا تھا میں سوچنے لگا یا خدا یہ کیٹی کیا بلا ہے؟بعد میں پتہ چلا کہ انہوں نے اپنی بلی کو cat سے کیٹی کر دیا ہے۔لیکن یہ کہانی اس کیٹی کے متعلق نہیں بلکہ اس کیٹی کے بارے میں ہے جو میرے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتی ہے لیکن جب بھی کوئی اس یونیورسٹی میں ساتھ پڑھنے والی کیٹی کی بات کرتا ہے میرا ذہن اس کیٹی کی طرف چلا جاتا ہے جو میرے کزنوں نے مجھ سے ملائی تھی۔

یوں تو ہماری یونیورسٹی کا حال پرانے محلوں کا سا اور اس میں پڑھنے والوں کا واحد مشغلہ ماسی خیبر میل بننایعنی کی ادھر کی ادھر لگاناہے،یہاں خبریں راکٹ کی رفتار سے بھی تیز گردش کرتی ہیں اور بعض اوقات خود مجھے اپنے بارے میں دوسروں سے پتہ چلاکہ اچھا یہ کام بھی میں نے کیا تھالیکن کب اس کا نہ بتانے والے کو پتہ ہوتا ہے نہ کرنے والے کویعنی مجھے۔لیکن ایک بات تو ہے ناں کہ دھواں وہاں سے اٹھتا ہے جہاں آگ ہوتی ہے۔


اِس والی کیٹی یعنی میری ہم یونیورسٹی کیٹی کو پہلی بار میں نے مارکیٹ میں دیکھا تھاجہاں میرے ساتھ میرے دوست نے مجھے بتایا کہ ڈینش ہے یعنی ڈنمارک کی رہنے والی ہے اور اس کے ساتھ جو عربی ہے یہ اس کی سہیلی ہے۔ڈنمارک سے آپ جانتے ہی ہیں ویسے کوئی ایسے قابل رشک تعلقات نہیں رہے اوپر سے پوری سوری شکل اور پھر عربی کی گرل فرینڈ ہم مر گئے تھے کیا؟پہلی ہی نظر میں الحمدللہ وہ فاصلہ قائم ہو گیا جو آج تک پار نہیں ہو سکا۔دوست نے کہا یار غور سے دیکھ بھلا یہ بھینگی نہیں ہے۔پتہ نہیں غصہ تھا یاکچھ اور اس کی بات سچ ہی لگی،دوست نے انکشافات کی پنڈاری کھلی رکھی اور بتایا کہ کچھ روز قبل شراب کے نشے میں دھت ہو کر کلب میں دیواروں سے سر ٹکراتی پھر رہی تھی ۔اس غل غپاڑے کا سن کر عربی پر غصہ افسوس میں بدل گیا اور اس سے ہمدردی ہونے لگی کہ مجبوری میں انسان کو کیا کیا کام کرنے پڑجاتے ہیں۔سچ ہے بندہ بڑا مجبور ہے۔

ایک روز کسی کی زبانی پتہ چلا کہ کیٹی میڈم کو کینسر ہے اور وہ عنقریب مرنے والی ہے یعنی اس کی آخری سٹیج ہے لیکن اس کی چبلیوں کی یہ آخری سٹیج نہ تھی۔ بات یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھی لیکن جب مزید راز کھلے تو مزید بات کھلی۔کیٹی کو جھوٹا لکھنا یا خاص طور پر شوقیہ جھوٹا لکھنا جس کو ہمارے ایک دوست صاحب شوقیہ فنکاری کا نام دیا کرتے تھے خلاف تہذیب ہو گا لہذا میں کہتا ہوں کہ کیٹی بڑی مزاقیہ ہے۔مثلاً ایک روز اس نے اس نے کسی کو بتایا وہ دو کمپنیوں کی سی ای او C.E.O ہے اور پولینڈ میں وہ بوجہ بزنس مقیم ہے اور اسی بہانے وہ پڑھ رہی ہے۔کسی اور کو اس نے بتایا دراصل جب وہ چھوٹی تھی تو اس کو ڈنمارک سے اپنے خاندان سمیت جلا وطن کر دیا گیا تھااور اب وہ واپس اپنے ملک نہیں جا سکتی ،اسکے پاس صرف ڈینیش پاسپورٹ ہی اپنے ملک کی نشانی رہ گیا ہے۔ ایک اور بندے کو کیٹی نے بتایا کہ اس کے والد قریب المرگ ہیں اور ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ ان کے پاس اتنا وقت ہے جب تک کیٹی بی بی اے مکمل نہ کرلے ۔اس روز مجھے کیٹی کی پڑھائی میں دلچسپی نہ لینے کی وجہ سمجھ آئی۔ظاہر ہے نہ پڑھے گی نہ پاس ہو گی،نہ پاس ہو گی نہ بی بی اے مکمل ہو گا،نہ بی بی اے مکمل ہو گا نہ والد صاحب فوت ہوں گے۔اب جس بندے کو کیٹی نے یہ داستان سنائی وہ کچھ میری طرح ہی بیوقوف واقع ہو ا ہے۔وہ کیٹی کے غم میں ایسا کھویا کہ پوچھ بیٹھا والد صاحب کو کیا مسئلہ ہے تو کیٹی نے بتایا کہ ڈائیلیسزہوتے ہیں اب ہمارے دوست نے مزید پھرتی جھاڑتے ہوئے کوئی تکنیکی اصطلاح پوچھ لی ۔اب کیٹی کوئی ڈاکٹر تو نہیں محبت اپنی جگہ ڈاکٹری اپنی جگہ لیکن ہمارا دوست مصر ہے کہ کیٹی میڈم نے ایک اور شوقیہ فنکاری کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اس اللہ کے بندے کو کون سمجھائے کہ بھائی ایسی معصوم لڑکیوں سے ایسے سوالات نہیں پوچھے جاتے۔

 میرے اسی دوست نے جس نے کیٹی کو کلب میں پی کر غل غپاڑہ کرتے دیکھا تھا اس سے ایک روز کیٹی کہنے لگی کہ کیا تم شراب پیتے ہو وہ بولا آج تک میں نے نہیں پی۔کہنے لگی بہت اچھا کیا میں بھی نہیں پیتی سو برائیوں کی ایک برائی ہے۔ایسے ہی ایک دوست سے ایک روز بولی کہ میں تم سے دوستی کرنا چاہتی ہوں اس نے انکساری کامظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو دوست ہیں۔وہ بولی ارے مجھے تو پتہ ہی نہ تھا ۔میں اپنے سب دوستوں سے جب بھی ملتی ہوں ان کو گلے لگا کر ملتی ہوں۔بس آج کے بعد جہاں ملیں گے جپھی ڈال کر ملیں گے۔وہ دن اور آج کا دن وہ بیچارہ یونیورسٹی میں چھپتا پھر رہا ہوتا ہے کہ کہیں کیٹی میڈم کی جپھی کا سامنا نہ ہو جائے۔

ایک استاد کے بارے میں ایک روز کیٹی لب کشا ہوئی کہ یہ ہم جنس پرست ہے۔اب یورپ ہے ہم جنس پرست ہونا نہ کوئی بری بات ہے نہ کوئی انہونی، ہم نے بھی یقین کر لیااور اس استاد کا عرف ہم جنس پرست ہی رکھ دیا۔لیکن ایک روز ایک ہم جماعت سے گفتگو کرتے ہوئے کیٹی بولی کہ وہی استاد صاحب ان پر لٹو ہیں اور اس بری نظر سے ان کو گھورتے ہیں کہ وہ شرم سے پانی پانی ہوجاتی ہے،استاد صاحب کے تاڑنے سے شرم کے مارے پانی پانی ہونے والی بات کے علاوہ ہم نے اس بات پر بھی یقین کر لیا لیکن تھوڑا افسوس ضرور ہوا کہ استاد موصوف نے ہم جنس پرستی ترک بھی تو کہاں۔لیکن سب سے مزے کی بات تب ہوئی جب ایک اور ہم جماعت نے کیٹی کو چھیڑنے کی غرض سے کہا کہ کیٹی میں نے محسوس کیا ہے تم اس استاد کو گھورتی رہتی ہو خیر تو ہے کہیں دل تو نہیں آگیا؟کیٹی بولی میں تو اس وجہ سے گھورتی ہوں کی مجھے اس میں اپنے مردہ بھائی کی شبیہ نظر آتی ہے۔ دعا کریں کہ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔آمین