April 5, 2018

"ماں بولی"



میں بس اسٹاپ پر پہنچ کر ابھی دم نہ لینے پایا تھا کہ کسی نے دونوں ہاتھوں سے میرا داہنا بازو تھام لیا۔ 

میں نے خود کو پر سکون رکھتے ہوئے اپنی داہنی طرف دیکھا۔ ایک بوڑھی روسی سفید فارم خاتون تھی جن کو روسی زبان میں ببوشکا اور ہمارے ہاں اماں پکارا جاتا ہے۔ اس کا چہرہ دیگر بوڑھی روسی خواتین کی طرح کی طرح عمر بھر کی تنہائی کا غماز تھا۔ خواہشات کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے اس کے چہرے پر جھریاں لٹک آئی تھیں۔ اس کی عمر کم از کم اسی سال رہی ہو گی۔ اس کا جسم تھوڑا چوڑا تھا لیکن ابھی تک وہ اس قابل تھی کہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی تھی- اس روسی اماں نے سرخ رنگ کا اوور کوٹ پہنا تھا جس کی اجڑی ہوئی روئیں کوٹ کے پرانے ہونے کی چغلی کھا رہا تھا۔ کوٹ کا نچلے چند بٹن ٹوٹے ہوا تھا یا اماں بند کرنا بھول گئی تھی۔ اماں کا چہرہ جھریوں سے بھرا تھا۔ وہ کب کی اس عمر میں پہنچ چکی تھی جہاں خواتین کسی بھی قسم کی دِکھنے کی پریشانی سے آزاد ہو چکی ہوتی ہیں۔ اس خاتون کے ہونٹوں پر ہلکے سرخ رنگ کے بال تھے جو اگر غور سے دیکھے جاتے تو اچھی خاصی مونچھیں بن چکے تھے۔ مجھے اس کو دیکھ کر اپنے گاؤں کی بوڑھی خواتین یاد آ گئیں۔ اماں ثرو، اماں سکھی، اماں روزی، جو ہمارے گھر میں کام کیا کرتی تھیں- جب تک میں طبقاتی فرق نہ جانا تھا تب تک ان کے جھریوں بھرے چہرے سے بڑی محبت جھلکا کرتی تھی۔ 
مزید پڑھیے Résuméabuiyad