جس دور میں ہم پیدا ہوئے تب نیا سال منانے کا رواج نہ تھا- اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں کسی کو روٹھے رشتہ داروں کو منانے سے فرصت ملے تو کچھ اور منائے- جب نیا سال آنے لگتا تو ہم صرف اس لیے پرجوش ہوجاتے کہ کاپیوں پر سال کے ہندسے بھی تبدیل ہوں گے اور ہم جو سارا سال محض دن اور ماہ لکھ کر کام چلایا کرتے تھے دسمبر میں سال بھی لکھنا شروع کردیتے۔ لیکن ہائے ری ہماری سادگی کہ جس بے تابی سے انتظار کیا کرتے اسی شدت سے فراموش بھی کر دیتے اور نئے سال کے پہلے پندرہ دن بدستور پچھلا سال ہی لکھے جاتے اور آخر تنگ آ کر دوبارہ دن اور ماہ پر لوٹ آتے۔
January 1, 2016
May 26, 2014
Aaghaz e safar
سفر وسیلہ ظفر ہے ۔ بہت عرصہ پہلے یہ بات سنی تھی لیکن سمجھ تب آئی جب ایسوں کو دیکھا جن کو یہاں کھانے کو مشکل سے میسر تھا اور باہر جا کر ان کے دن پھر گئے۔
لیکن ہماری قوم میں ایک اور عجیب چیز ہے۔ ہم ابھی شادی نہیں کرتے اور بچوں کے مستقبل کی فکر میں جمع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ شادی کے بعد تو گویا ہمیں دورہ پڑ جاتا ہے۔ اچھا گھر ہو، اچھا سکول ہو، اچھی تعلیم ہو، اچھا جہیز ہو، اچھا فکنشن ہو وغیرہ وغیرہ۔ ہم دوسروں کے سامنے ایسے ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہم ہمارے پاس قارون کے خزانوں سے بڑھ کر خزانے ہیں چاہے اس کے لیے رات کو ہمیں بھوکا ہی کیوں نہ سونا پڑے۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
May 19, 2014
Almadad, Alaman, Alhafeez
جو لوگ پاکستان میں رہتے ہیں ان کو تو احساس نہیں ہوتا کہ وہ روز ہی اسی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں لیکن جب میرے جیسے خود ساختہ تہذیب دار بندے پاکستان آتے ہیں اور بات بے بات شکریہ ، مہربانی ، برا نہ مانیں کی رٹ لگا کر عزت افزائی کراتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ عملی تو دور کی بات ہم زبانی اخلاق کو بھی تین حرف تین بار بھیج کر طلاق دے چکے ہیں۔
چلو ٹیکنالوجی تو انگریزوں نے بنائی حالانکہ ان سب کی بنیادیں ہمارے مسلمان ہی دے گئے لیکن ایمان، اخلاق اور انسانیت تو ہمارے مذہب نے سکھایا تھا اور کس خوشی میں ہم نے بھلا دیا اور کس سپرپاور کی مخالفت میں ہم نے اپنے بچوں کو یہ ویکسین پلانا چھوڑ دی۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
April 21, 2014
Bairon e mulk muqeem Pakistanio ke Pakistan main rehny waly rishty daro ka jawab e Shikwa
پاکستانیوں کا وطیرہ ہے کہ تھوڑی تھوڑی باتوں پر ہائے وائے کا ورد کرتے رہتے ہیں اور تازہ ترین وقوعہ جس پر ہر بیرون ملک رہنے والے پاکستانی کو شدت سے تکلیف کا احساس ہے وہ یہ ہے کہ ملک میں رہنے والے ان کے رشتہ دار و لواحقین ان کی بجائے ان کے پیسے سے محبت کرتے ہیں اور ان کےلاکھ منتوں ترلوں کے باوجود ان کے وطن واپسی پر رضامند نہیں ہوتے اور وہ پردیس میں خوار ہو رہے ہیں جب کہ پاکستان میں بسنے والے ان کے بال بچے عیاشیاں کر رہے ہیں۔
حالانکہ ہمیں باہر رہنے والوں سے پوری ہمدردی ہے کہ ہم خود ملک فرنگ میں دھکے کھاتے پھر رہے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہمیں پاکستان میں بسنے والے ان پاکستانیوں سے جن کے رشتہ دار باہر کمانے گئے ہیں سے کوئی ہمدردی نہیں لہذا بے ادبِ بلاگریہ میں ہم ان کی آواز شامل کرتے ہوئے آج کا بلاگ ان ملک میں بسنے والے پاکستانیوں کے نام کرتے ہیں جو اپنے بیرون ملک مقیم اقارب کی امداد کے محتاج ہیں اور جن کی ترجمانی کرنے والا کوئی نہیں۔
بیرون ملک مقیم ہمارے والد، چاچا، ماما، رشتے دار کہتے ہیں کہ ہم سے محبت نہیں کرتے۔ اب کوئی بتائے ان کو کہ بھائی ہم تو کسی سے محبت نہیں کرتے ۔ کیا کبھی کسی پاکستانی کو لڑکیوں کے علاوہ کسی سے محبت کرتے دیکھا ہے؟ اب ہم آپ کے لیے دوہرا معیار کہاں سے لائیں۔ اب ان کو پاکستان چھوڑے سالوں بیت گئے ان کو کیا پتہ پاکستان میں اب معاشرہ کیسا ہے۔ یہاں تو قیامت مچی ہے اور ان کو اپنی محبت کی پڑی ہے۔ یہاں تو والدین بچوں کے نہیں، میاں بیوی کا نہیں، محبوب محب کا نہیں اور لڑکیوں سے محبت بھی کوئی مفت نہیں ایزی لوڈ لگتا ہے بھائی۔لیکن اس میں ان کا اتنا قصور بھی نہیں کہ وہ باہر رہ رہ کر تھوڑی جذباتی ہو جاتے ہیں اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کو وی آئی پی VIP کا درجہ ملے ان کے آنسو بہیں تو ہم دھاڑیں مار کر رونے لگ جائیں وہ مسکرائیں تو ہم ہنس ہنس کر پاگل ہوجائیں لیکن ایسا کہاں ممکن ہے دنیا بدل گئی پاکستان بدل گیا آج کا نوجوان منافقت کا عادی نہیں اور ویسے بھی ہمارا نعرہ ہے کہ زبان پر کچھ بھی ہو عزت دل میں ہونی چاہیے لہذا ہمارے پردیسی بڑوں کو ایک بار ہمارے دل میں ضرور جھانک لینا چاہیے کہ خواہ ہم منہ پر گالیاں بک رہے ہوں دل سے ہم ان کی عزت ہی کرتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ ہم تو واپس آنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پچھلے واپس آنے نہیں دیتے۔ اب آپ ہی بتائیں کیا جب وہ گئے تھے تو ہم سے پوچھ کر گئے تھے؟ اب جو وہ ہم سے پوچھیں تو ہم کیسے کہیں کہ واپس آ جائیں کہ ہم تو عقل کی بات کریں گے کہ اگر واپس آگئے تو گھر کیسے چلے گا؟ اتنی مہنگائی ہوگئی ہے پاکستان میں ۔ پہلے مہینے کا بجلی کا بل ہی ان کی طبعیت درست کر دے گا پھر کہیں گے کاش نہ آیا ہوتا۔ ہم ان کی آسانی کا سوچتے ہیں اور پھر بھی ہم مورد الزام۔ ویسے تو ہمارے دوست گئے ہیں امریکہ، برطانیہ، دبئی وغیرہ وہ بتاتے ہیں کہ وہاں پر اچھی خاصی عیاشی ہوتی ہے لیکن ہمیں یہ یقین نہیں آتا کہ اصل میں یہ خود ہی نہیں آنا چاہتے کہ باہر جا کر اب یہ پاکستان کے قابل ہی نہیں رہے اور نام ہمارا بدنام کر رہے ہیں کہ بدگمانی بری بات ہے کیا پتہ واقعی آنا ہی چاہتے ہوں واپس پاکستان۔
یہ بات لکھ لیں یہ واپس بھی گئے تو ہوائی اڈے پر اترتے ہی ان کی بس ہو جانی ہے آگے کی منزل تو آگے رہ گئی۔ ہوائی اڈے پر جو سلوک ان کے ہم وطنوں نے ان کے ساتھ کرنا ہے ان کا دل کرے گا پہلی پرواز لیکر واپس چلے جائیں۔ پھر آگے ہر آتا جاتا ان کو باہر کی جنت چھوڑ کر ملکی دوزخ میں آنے پر سرزنش کرے گا۔ پھر جب گرمیاں آئیں پھر ان کو احساس ہوگا۔ ہم تو یہاں پر پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہیں نہ بجلی نہ پانی نہ گیس نہ پیٹرول کجا زیرزمین ٹرانسپورٹ کے جھولے کجا لو اور مٹی کے جھونکے۔ اور جب مال ختم ہو گا تو رشتے دار، دوست، یار بھی منہ لگانا چھوڑ دیں گے اور تو اور گلی کی نکڑ والا چاچا بھی ادھار ایک پاؤ دال نہیں دے گا تو ان کو پتہ چلے گا۔ ۔ ویسے بھی پاکستان میں تو کتے کو عزت مل جاتی ہے غریب کو نہیں۔
اور کہتے ہیں عیاشی کر رہے ہیں، زیور خرید رہے ہیں، گاڑیاں چلا رہے ہیں، دعوتیں اڑا رہے ہیں اب کوئی جا کر ان کو بتائے کہ نام تو انہی کا ہے۔ کہ فلاں کا بیٹا ہے، فلاں کی بیوی ہے، فلاں کے بچے ہیں، دبئی کا گھر ہے، سعودیہ کا جہیز ہے، امریکہ کا خاندان ہے ہمارا کیا ہے اگر اپنا نام ڈبونا ہے تو بسم اللہ آ جائیں۔ کبھی ہم نے یہ دعوی کیا ہو کہ یہ ہمارا خود کا کمایا مال ہے پھر تو غصہ جائز ہے جب ان کا ہے انہوں نے ہمیں بھیجا ہے تو غصہ کیوںکر
کہتے ہیں وہاں کی زندگی بڑی سخت ہے تو بھائی محنت تو کرنی پڑتی ہے نوکری کرنی کونسی آسان ہے اور پیسہ کمانے کے لیے جان تو لگانی پڑتی ہے درختوں پر تو پیسے نہیں اگتے۔ اور پھر کون سا کام آسان ہے اور یہاں کون سی پھولوں کی سیج ہے زندگی۔ قسم سے ایک چوک سے دوسرے چوک تک جانا کسی خواری سے کم ہے۔ زندگی یہاں بھی کوئی آسان نہیں۔ یقین مانیں اینٹیں ڈھونا اتنا مشکل نہیں جتنا لڑکی پھنسانا مشکل ہے اور وہ اس کو عیاشی کہتے ہیں جبکہ آپ تو جانتے ہیں کہ یہ اب سوشل اسٹیٹس ہے اور جب ہماری باری آئی گی تو ہم کیا محنت نہ کریں گے اور اگر ہمیں وہ کوئی بزنس مزنس چالو کر کے دیں گے تو ہم وعدہ کرتے ہیں دل و جان سے محنت کریں گے اور نہ چل سکتا اللہ کی مرضی سے تو دوسرا کاروبار ہم اس سے بھی زیادہ دلجمعی سے کریں گے اور تیسرے میں اس سے زیادہ۔ والدین ویسے ہی کماتے اولاد کے لیے ہیں ہاں اگر وہ چاہتے ہیں ان کے بچے تنگ ہوں، زندگی غربت میں گزاریں، در در کے دھکے کھائیں تو ایسے سہی ہم تنگ ہو لیں گے وہ خوش ہو لیں کہ وہ تو نئے بچے تلاش کرسکتے ہیں ہم تو نئے والدین تلاش کرنے سے رہے اب۔
وہ کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے شکرگزار نہیں ہوئےتو پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ بھی پاکستانی قوم میں شامل ہیں ہم نے کبھی کسی کو بھولے سے بھی شکریہ ، مہربانی جیسے الفاظ بولے ہیں کیا اور دوسری بات یہ کہ کون بے وقوف اپنے والدین کا شکر گزار ہو اب بندہ بات بات پر ابا تیری مہربانی ڈیڈ تھینک ہو ویری مچ کہتا اچھا لگتا ہے کیا؟ اچھا اللہ کرے ہمارے بچے بھی ہمارے شکر گزار نہ ہوں بس اب خوش؟ اب تو اس مہینے موٹر بائیک کے پیسے بھیجیں گے ناں؟
اس تحریر کو شیئر کریں;
April 7, 2014
Cricket team main mutakhib hona or Xe Khasiat (X-factor) ka paya jana
چھوٹے ہوتے ایک ٹی وی پروگرام میں انور مقصود نے معین اختر مرحوم سے جو سلیکشن کمیٹی کے ممبر بنے ہوئے تھے پوچھا "شعیب محمد" کو کیوں نہیں ٹیم میں چنا گیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس میں چند خامیاں ہیں
ایک تو وہ بلے بازی عمدہ کرتا ہے
دوسرا وہ گیند بازی بھی اچھی خاصی کر لیتا ہے
تیسرا اس کی فیلڈنگ تو لاجواب ہے۔
اور تو اور کیپر ان فٹ ہو جائےتو وہ وکٹ کیپنگ بھی کر لیتاہے۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
March 24, 2014
Dosri Shadi
![]() |
دو بیویوں میں میاں حرام |
پوچھا کہ دوسری شادی کرنے کی کیا تک ہے تو بولے بندہ خود کشی کی ایک کوشش میں ناکام ہوجائے تو دوبارہ تو کرتا ہے ناں۔یاد آیا کہ بہت پہلے کسی قابل بندے نے بتایا تھا کہ خود کشی وہ جرم ہے جس میں صرف ناکام ہونے والے کو قانونی سزا ملتی ہے دوسری شادی میں شاید یہی مسئلہ کارفرما ہو البتہ سزا قانونی کی بجائے عائلی ہو۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
January 4, 2014
Chothi saal girah aur 2013 ka behtreen Urdu blog
4 جنوری 2010 کو میں نے پہلا بلاگ شایع کیا تھا تو اس لحاظ سے آج اس طرف سے لکھتے ہوئے چار سال مکمل ہوگئے۔ چوتھی سالگرہ کا سب سے اچھا تحفہ یہ رہا کہ "اس طرف سے" کو سال 2013 کا بہترین بلاگ قرار دیا گیا۔
اللہ جانے کن 72 لوگوں نے ووٹ ڈالا اور 72 لوگوں نے ہی ووٹ ڈالے یا ایک ہی بندہ 72 ڈال کر چلتا بنا لیکن جمہوریت کا سب سے بڑا مزہ ہی یہی ہے کہ جو جیت گیا سو جیت گیا اور ایسے ہی میرا بلاگ بھی بہترین بلاگ کا انتخاب جیت گیا۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
September 11, 2013
Main professor kiyo banna chahta hoon
یوں تو پاکستان میں ہر سرکاری عہدے کے سرکاری مزے ہیں ۔کلرک ہو، ڈاکیا ہو، افسر ہو یا کوئی اور سرکاری عہدہ۔الگ ہی موجیں ہیں۔لوگ دن رات ایک کر کے سی ایس ایس اور پی سی ایس کرتے ہیں کہ سرکاری افسر لگ جائیں۔ڈاکٹر ،انجنیئر کے بعد سرکاری افسر ایک تمام نسل کا خواب رہا ہے۔
کسی بھی سرکاری ملازمت کو حاصل کرنے کے لیے تین میں سے ایک شے کا ہونا لازمی ہے۔یا تو تگڑی سفارش ہو۔سفارش میں اپنا یہ حال ہے تگڑی چھوڑ کانگڑی نہیں ملتی۔ہمیں تو لیزنگ والوں سے کار آج تک نہیں مل سکی کہ ہمارے ہمسائے بھی لیزنگ والوں سے سفارش کرتے ہیں کہ اس بندے کو کار نہ دینا ہم نہیں جانتے۔
ویسے آج کل سفارش سے زیادہ پیسہ چلتا ہے۔اب بندہ کہاں سے دس پندرہ لاکھ بھر کر پٹواری، تھانیدار یا واڈرن لگے کہ یہاں تو دس پندرہ ہزار کے لالے اور ملالے پڑے رہتے ہیں۔
تیسرا راستہ ہے سرکاری امتحانات کا۔بدقسمتی سے جنرل نالج میں ہم صفر ہیں کہ اپنے علاقے کے علاوہ ہمیں کسی سے کوئی علاقہ نہیں اور انگریزی میں ہم منفی دس ہیں کہ انگریزی کے ہجے کرنا تک ہمارے بس کا کام نہیں اور مضمون نگاری تو دور کی بات ہے۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
November 1, 2012
Blog per traffic berhany ke tareqy
ہمیں بلاگ کالاکرتے تین سال ہونے کو آئے ہیں۔ ہمارے بڑے بڑے اور سینئر حضرات اکثر اس بات پر غور کرتے رہتے ہیں
کہ بلاگ پر ٹریفک کیسے بڑھائی جائے۔کوئی تکنیکی مسائل سمجھاتا ہے تو کوئی معیار کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے، کوئی موضوع اور مقدار کی بات کرتا ہے تو کوئی انداز تحریر کامیابی کا فارمولا بتا تا ہے۔کچھ وہ بتاتے ہیں کچھ خالہ بلی کی طرح چھپا کر رکھ لیتے ہیں کہ سارے ہی درخت پر نہ چڑھ جائیں۔تو آج ہم اپنے تین سالہ تجربہ کا نچوڑ ہر خاص و عام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں کہ ہم علم کی تقسیم کے قائل ہیں اور جمہوریت کے بعد علم کو ہی بہترین انتقام سمجھتے ہیں)یقین نہ آئےتو کبھی لوگوں کو کسی شاعر یا ادیب کے بٹتے علم سے بھاگتے دیکھیں) لہذا ہمارا بیچارہ سا علم آپکی نظر ہے۔
سچ پوچھیں توالمختصر یہ ہے کہ اردو بلاگ صرف دو قسم کے ذوق و شوق سے پڑھے جاتے ہیں ایک وہ جو خواتین لکھتی ہیں دوسرا وہ جو لکھتے تو مرد حضرات ہیں لیکن لکھتے زنانہ ناموں سے ہیں۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
October 1, 2012
(Inthai Muazrat ke sath (Muazrat nama
پچھلے دنوں پاکستان کے ایک پھیرے میں موبائل پر موصول ہونے والے پیغاماتSMS کے سیلاب میں ایک عجیب سا پیغام موصول ہوا کہ "اب پہلے سے ہی بتا رہا ہوں کہ میرے ساتھ تمیز سے رہنا اور مجھے تنگ نہ کرنا ،پھر بعد میں معافی مانگتے پھرتے ہو"۔
پیغام جب بار بار غور کرنے کے بھی سمجھ نہ آیا تو ایک بندے سے پوچھا یہ کیا بلا ہے کیا کسی نے نیند میں پیغام بھیجا ہے یا کسی اور کی جگہ مجھے بھیج دیا ہے کہ میرے ذاتی خیال میں میں ایک بے ضرر بندہ میں نے کیا کسی کو تنگ کرنا ہے۔جواب ملا کہ کہ شب برات اور 27 رمضان کے وقت ایسے پیغامات آتے ہیں کہ اگر میں نے آپ کا دل دکھایا ہو یا آپ کو تنگ کیا یا آپ ناراض ہوں تو مجھے آج رات معاف کردیں۔تو یہ پیغام اسی بارے ہے کہ بعد میں ناک رگڑنے سے اچھا ہے ابھی سے انسان کے بچے بن جائو۔
بات آئی گئی ہوگی لیکن ایک دن بیٹھے بیٹھے مجھے یاد آیا کہ کچھ عرصہ پہلے تک اکثر رسائل میں مجھے شکایت ہے کے عنوان سے مضمون پڑھنے کو ملتا تھا
اس تحریر کو شیئر کریں;
September 11, 2012
Room Cooler
پہلی چیز جو انسان نے ایجاد کی جس سے ٹھنڈی ہوا نکلتی تھی وہ ٹھنڈی آہیں تھیں۔جنت سے نکلے ہوئے انسان جب ملتان
جیسے علاقوںمیں پہنچے ہوں گے تو ٹھنڈی آہیں تو خود بہ خودنکلتی ہوں گی کہ ہم جیسےجنہوں نے فریزر اور پھٹوں پر بکنے والی برف کے علاوہ کبھی کوئی ٹھنڈی شے نہیں دیکھی برف باری کی تصاویر دیکھ کر ایسےٹھنڈی آہیں بھر نے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہماری والدہ کے الفاط میں"گویا شملے کی پیدائش ہوں"۔
تاہم وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے پہلے پنکھا بنانا سیکھا اور پھر انقلابی ایجاد جو کہ آج کا موضوع لکھواس ہے بھی ہے یعنی روم کولر ایجاد کیا۔ یوں تو کولر کے ساتھ ائیر کنڈیشنر Air Conditioner المعروف اے سی AC بھی آگئےاور پھر اسکے بعد سپلٹ آ گئے لیکن پھر موجودہ حکومت والے آگئے اور عوام واپس کولر ، پنکھے اور ہاتھ والے پنکھے کی طرف لوٹنے لگی۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
August 11, 2012
انٹر نیٹ پر اردو الفاظ لکھ لکھ کر تلاش کرنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کونسے ایسے الفاظ ہیں جو لکھے جائیں تو ہمارے بلاگ کا لنک آتا ہے اورروز بروزایسے الفاظ کی فہرست میں اضافہ دیکھ کر ہم اپنا سیروں خون بغیر کسی خرچ کے بڑھاتے رہتے ہیں۔ایسے ہی ایک دن ایک لنک سامنے آیا جس پر لکھا تھا اباجی یا فحش سائیٹوں سے اجتناب۔
جائیں آپ سوئی لینے اور ساتھ مل جائے سلا سلایا سوٹ تو کس کو انکار ہوگا سو ہم نے بھی اس کو کھول لیا اب بھلا کون نہ ایسا نسخہ کیمیا چاہتا ہو گا جس کے ذریعے وہ ابا جی کے قاتل ڈنڈے سے بھی بچا رہے اور انٹر نیٹ پر عیاشی بھی اڑاتا رہے۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
June 21, 2012
mohabbat or us ke natejay main lagny wali supplian
یونیورسٹی میں داخلہ ایک تازہ ہوا کا جھونکا تھا گو یا ہماری زندگی میں۔ کیونکہ بی ۔اے کے پانچ سالہ محنت شاقہ کے دوران ہم روزانہ یونیورسٹی آتے اور اپنے دوستوں جو میرے اس پانچ سالہ سفر کے دوران ہر قدم پر ہمراہ رہے ماسوائے چند لمحات کے جب ہم میں سے کوئی منہ بولے بھائیوں کے نرغے میں پھنس گیا کیونکہ ہماری دوستی کا اصول رہا ہے
1۔جب لڑائی ہو جسکے جدھر سینگ سمائے ادھر دفع ہو جائے
2۔مار سے بچنے کے لیے آپ بھی دوسروں کے ساتھ ملکر اپنے دوست کو مار سکتے ہیں
3۔اگر آپ نے دوست کا ساتھ دیا ہے تو آپ کی اس بیوقوفی کو احسان نہی سمجھا جائے گا
4۔دوستوں کی ٹانگیں کھینچنا آپکا فرض ہے۔
چناچہ مندرجہ بالا شرائط پر تین کے علاوہ کوئی پورا نہی اتر سکا۔ہم روز یونیورسٹی آتے ۔سب سے پہلے تو اپنے مقدر کو کوستے کہ آخر پاکستان میں ہی کیوں پیدا ہوئے باہر کسی ملک میں پیدا ہوئے ہوتے تو اب تک نجانے کیا بن چکے ہوتے ،اسکے بعد یونیورسٹی والوں کو لعن طعن کرتے کہ چلو ہم تو بے شرم ہیں نہی پڑھتے انکو فیل کرتے بھی شرم نہی آتی آخر کوئی حد ہوتی ہے بے شرمی کی ایک بار دو بار تین بار ۔۔۔۔ہم من حیث القوم بے شرم ہوتے جا رہے ہیں۔اور آخر میں یہ وعدہ کرتے کہ جب بھی ہمیں موقع ملا یونیورسٹی میں داخلے کا تو اس قوم کی بیٹیوں کی خدمت کی حتی الوسیع کوشش کریں گے۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
May 21, 2012
ہنستا چہرہ (smiling face)
پیش تحریر:تین سالوں میں پچاسویں تحریر لکھ کر میں نے کوئی احسان نہیں کیاہاں آپ نے یہ پچاس بکواسیات پڑھ کر مجھ پر ضرور احسان کیا ہے اور میری انا اور میرے میرے اپنے بارے میں قائم کیے گئے نظریے "نظر انداز کیے جانے والے عظیم مزاح نگار" کو ضرور تقویت ضرور پہنچائی ہے۔بس تبصرے کرنے جاری رکھیے آپکی مہربانی ہوگی۔
میرے خیال میں تو یہ پچاسیویں پوسٹ بس خانہ پری ہے لیکن مجھے جو اپنی تحریر پسند آتی ہے آپکو واجبی سی لگتی ہے اور میں جسکو خانہ پری سمجھتا ہوں آپ کو وہ اچھی لگتی ہے ۔آگے آپکی قسمت
پیش تحریر:تین سالوں میں پچاسویں تحریر لکھ کر میں نے کوئی احسان نہیں کیاہاں آپ نے یہ پچاس بکواسیات پڑھ کر مجھ پر ضرور احسان کیا ہے اور میری انا اور میرے میرے اپنے بارے میں قائم کیے گئے نظریے "نظر انداز کیے جانے والے عظیم مزاح نگار" کو ضرور تقویت ضرور پہنچائی ہے۔بس تبصرے کرنے جاری رکھیے آپکی مہربانی ہوگی۔
میرے خیال میں تو یہ پچاسیویں پوسٹ بس خانہ پری ہے لیکن مجھے جو اپنی تحریر پسند آتی ہے آپکو واجبی سی لگتی ہے اور میں جسکو خانہ پری سمجھتا ہوں آپ کو وہ اچھی لگتی ہے ۔آگے آپکی قسمت
اس تحریر کو شیئر کریں;
April 21, 2012
Teen chezain jo apni lagni chahiye
جب چھوٹے تھے تو سنا تھا کہ گاڑی اور بیوی ایسی ہونی چاہییں کہ آپ کے ساتھ ہوں تو آپ کی ہی لگیں۔ وقت کے ساتھ اس محاورے میں تھوڑی تبدیلی آ گئی ہے اور اب تین چیزیں اس فہرست میں آ گئی ہیں کہ لڑکی، گاڑی اور ڈگری آپ کی ایسی ہونی چاہیے کہ آپ کے ساتھ ہوں تو آپ کی ہی لگیں۔
اپنے ہاں کی ارینج میریج میں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ملا کی دور مسجد کے مصداق والدہ کی دوڑ ان کے بہن بھائیوں اور والد کی انکے بہن بھائیوں تک ہوتی ہے اس لیے اکثر خاندان میں شادی کرنے والےمیاں بیوی ساتھ کھڑے ہوں تو میاں بیوی ہی لگتے ہیں بلکہ کچھ زبان دراز افراد تو کہہ بیٹھتے ہیں کیا جوڑی جچ رہی ہے بالکل بہن بھائی لگ رہے ہیں۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
March 21, 2012
pas sabit hoa Polish larkian mutasib hain
اب یہ تو ذرا مشکل ہے کہ میں متعصب کی کیٹیگری بتائوں کیونکہ یہ نہ تو رنگ ،نہ زبان، نہ نسل اور نہ ہی مذہب کے زمرے میں آتی ہے پر میرے بارے ضرور ہے۔حقیقت بمعہ امثال کے حاضر خدمت ہے۔
ہمیں ابھی پولینڈ آئے ایک مہینہ بھی نہ ہوا تھا کہ میرے ایک دوست کے ساتھ ناچتے ہوئے بے خود ہو کر اس کی ہم رقص نے
اس کو کندھے پر کاٹ لیا۔لو بائیٹ Love bite تو سنا ہی ہو گا بس لڑکی نے اس کے کندھے پر لاکھ کی مہر ثبت کر کے اشارہ دے دیا کہ لوہا گرم ہے پر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم تک پہنچنے والا ہر لوہا ٹھنڈا ہی پایا گیا ہے۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
March 1, 2012
Hikayat ki shamat
چونکہ بات کو کھینچنے میں ہماری قوم اپنی مثال ہےاور آجکل ویسے ہی ایس ایم ایس کے دور میں جب ارسطو کی بات قاعدِ اعظم کے نام سے اور کوئی پھٹیچر شعر غالب کے نام سے موصول ہو رہا ہو تو کچھ بھی ممکن ہے۔ لہذا ہم نے جو حکایت سنی اس کے کردار دیو جانس کلبی اور سکندر اعظم تھے ممکن ہے آپ نے افلاطون، سقراط یا کسی اور کے نام سے سن رکھی ہو بہرحال واقعہ اپنی جگہ موجود ضرور ہے۔باقی کرداروں کا کیا ہے۔
ہوا یوں کہ سکندر اعظم صاحب دیو جانس کلبی سے ملنے گئے حالانکہ ہمارا پٹواری کسی سے خؤد نہیں ملنے جاتا کجا حکمران۔بجائے اس کے کہ کسی کو بھیجوایا ہوتا کہ بادشاہ سلامت سلام دے رہے ہیں اور کلبی صاحب دوڑے دوڑے دربار پر حاضری دیتے موصوف خود ایک فلسفی جنہیں ہمارے ہاں کھسکے ہوئے سمجھا جاتا ہے سے ملنے پہنچ گئے۔وہاں پہنچ کر اپنی بادشاہی کی جون میں پوچھتے ہیں بول تجھے کیا چاہیے ۔قرین قیاس یہی ہے کہ اس زمانے میں آج کل کے صحافیوں کی طرح فلسفیوں کو لفافے پہنچائے جاتے تھے ۔اور اپنی اسی حاتم طائی کی قبر پر لاتیں مارنے کی عادت کے باعث جب سکندر صاحب اگلے جہان کو سدھارے تو ان کے دونوں ہاتھ خالی تھے۔حالانکہ یہاں بادشاہ تو بادشاہ میڈیا ایڈوائزروں نے محل تعمیر کرا ڈالے ہیں۔موصوف نے بہرحال بادشاہوں کی جگ ہنسائی کا خاصا سامان کیا۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
February 20, 2012
meri chand khamian
یوں تو ہر انسان میں خوبیا ں خامیاں ہوتی ہیں پر ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جنکو احساس ہو کہ ان میں کیا کیا خامیاں ہیں۔اور وہ ان کو دوسروں کے سامنے بتا بھی سکیں۔
اپنا تو یہ حال ہے کہ اسکول کے زمانے سے ہی اگر کسی مضمون پر اٹکے تو وہ تھا
Myself
مائی سلف یا مابدولت بقلم خود۔
یونیورسٹیوں میں اپلائی کرتے وقت سیکنڈ ڈویژن لکھتے نہیں جھجکا پر جہاں پر آیا ایک پیرا گراف اپنے بارے میں لکھیں تو وہاں اپنی بس ہو گئی۔کیونکہ اپنا ایک اصول ہے کہ خوبیاں دوسروں کے منہ سے اور خامیاں اپنے منہ سے بیان ہوں تو اچھی لگتی ہیں۔
ویسے تو لاکھوں خامیاں ہیں مجھ میں پراتنی آپکے سامنے رکھتا ہوں جتنا میں ہضم بھی کر سکوں۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
February 1, 2012
urfiyatain
اردو "ب" کی پرچے کی تیاری میں پڑھا تھا کہ کسی کا پیار سے یا نفرت سے نام رکھنا عرف کہلاتا ہے۔ مثلاً عثمان مانی بن
جاتا ہے زیشان شانی بن جاتا ہے۔پولینڈ میں ہر کترینچا کاشا ، ہر الیکسندرا اولا اور ایسے ہی لگے بندھے عرف ہیں۔ لیکن آج میں زرا ہٹ کے قسم کے عرف جو میرے کانوں سے گزرے کا ذکر کروں گا۔اور انکے رکھنے کی وجہ پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ لوڈ شیڈنگ کا دور دورہ ہے جتنی پڑ سکے غنیمت سمجھیے گا۔
سب سے پہلے تو میں خود ہی ہوں۔علی سے علی بابا۔ جی ہاں وہی چالیس
چور والا۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ علی بابا چالیس چور سے علی بابا ہوا اور اب صرف بابا رہ گیا ہے لیکن اب بھی کوئی کوئی علی بابا بلا لیتا ہے۔ پر مرجینا کا آج تک پتہ نہیں۔۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
January 1, 2012
hadyat nama safri -II
وہ مشہور واقعہ تو سن ہی رکھا ہو گا آپ نے کہ ایک بار علامہ اقبال اسکول دیر سے پہنچے تو استاد نے پوچھا اقبال دیر سے کیوں آئے ہو تو علامہ صاحب نے فرمایا حضور اقبال ہمیشہ دیر سے آیا کرتا ہے۔یہ بیسیویں صدی کے آغاز کا واقعہ ہے پر اکسیویں صدی کے آغاز میں بچے دیر سے آنے پر کہتے ہیں سر پی آئی اے ہمسیشہ دیر سے آتا ہے
۔کیا مطلب؟ جہاز سے آ رہا ہوں ناں سر۔
پی آئی اے کے بارے میں آپ نے سنا تو ہو گا کہ باکمال لوگ لاجواب سروس۔لیکن سننے سننانے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک آپ سفر نہ کریں۔
اس تحریر کو شیئر کریں;