May 19, 2014

المدد، الامان، الحفیظ

Almadad, Alaman, Alhafeez



جو لوگ پاکستان میں رہتے ہیں ان کو تو احساس نہیں ہوتا کہ وہ روز ہی اسی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں لیکن جب میرے جیسے خود ساختہ تہذیب دار بندے پاکستان آتے ہیں اور بات بے بات شکریہ ، مہربانی ، برا نہ مانیں کی رٹ لگا کر عزت افزائی کراتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ عملی تو دور کی بات ہم زبانی اخلاق کو بھی تین حرف تین بار بھیج کر طلاق دے چکے ہیں۔

چلو ٹیکنالوجی تو انگریزوں نے بنائی حالانکہ ان سب کی بنیادیں ہمارے مسلمان ہی دے گئے لیکن ایمان، اخلاق اور انسانیت تو ہمارے مذہب نے سکھایا تھا اور کس خوشی میں ہم نے بھلا دیا اور کس سپرپاور کی مخالفت میں ہم نے اپنے بچوں کو یہ ویکسین پلانا چھوڑ دی۔
آج کل کسی دوسرے سے نیکی کرنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہے۔ مجھے وہ وقت یاد ہے جب لوگ بلا جھجک انجان لوگوں کو لفٹ دے دیا کرتے تھے حالانکہ تب بھی ڈکیٹیاں ہوتی تھیں چوریاں ہوتی تھیں لیکن تب چور ڈاکو ہی چور ڈاکو تھے سیاستدان جن کا دین ایمان کوئی نہیں سیاستدان ہی تھے چور ڈاکو نہ بنے تھے لہذا وہ اپنے علاقے میں واردات نہ کرتے تھے، نیکی کرنے والے کے ساتھ برائی نہ کرتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ واردات کرنے کا آسان طریقہ بنا کہ لفٹ لیں اس کے بعد چاقو یا پستول دکھائیں اور پیسے، کار جو مرضی چاہے لوٹ لیں۔(یہاں پر سیاہ ست دانوں کا ذکر ویسے ہی آگیا ہے )

 پھر داڑھی والے کی عزت ہوا کرتی تھی۔ سب کو یقین تھا جس نے داڑھی رکھی ہے، جو نمازی ہے وہ بے ایمانی نہیں کرے گا۔ اور پھر ایک وقت ایسا آ گیا کہ سب سے پہلے شک ہی داڑھی والے پر کیا جانے لگا۔ جس دکان پر داڑھی والا دکاندار ہوتا ہم نے اس دکان پر جانا ہی چھوڑ دیا۔ یہ وت آ گیا کہ کئی لوگوں سے سنا کہ جو بے ایمان ہوتا ہے وہ داڑھی رکھ لیتا ہے۔ اور شروع میں یہ جملہ بڑا عجیب سا لگتا ہے لیکن ہمارے پاکستان میں کچھ عجیب نہیں یہاں سب کچھ غریب ہے۔

لیکن ہم خوش تھے کہ ہم پینٹ پہنتے ہیں نوجوان ہیں ہماری عزت قائم ہے لیکن ادھر بھی کسی نے نظر مار دی اور خودکش دھماکوں کے بعد جس میں پینٹ پہنے نوجوان لڑکے تھے ہم بھی شک کے دائرے میں پہنچ چکے ہیں۔

دنیا بھر میں مجرم پولیس والوں سے ایک قدم آگے ہوتے ہیں، ان کا ہرتوڑ نکالتے ہیں لیکن ہمارے ہاں تو بسم اللہ نیکی اور اچھی چیز سے کی جاتی ہے۔ جو چیز نیک نام ہے اسی کو استعمال کرو۔ گھر گھر فقیر آتے تھے پیسے لے جاتے تھے لیکن ہمارے چور ڈاکو بھی فقیر ہی نکلے اور انہوں نے فقیر بن کر گھروں کو لوٹنا چالو کر دیا اور بیچارے فقیروں کا کاروبار بھی مندا کر دیا ہیں تو ہم پاکستانی بھی لکیر کے فقیر تو فقیروں نے بھی لیکر پیٹنا اور گھر لوٹنا شروع کر دیے اور بندے خیرات دیتے بھی ڈرنے لگے۔

پچھلے دنوں فیس بک پر ایک اشتہار نظر سے گزرا کہ سکول، کالج اور دفتر میں کام کرنے والی خواتین سے گزارش ہے اگر کوئی روتا بچہ آپ کے پاس آئے اور پتہ دکھا کر کہے کہ اس کو یہاں جانا ہے تو قطعاً نہ چھوڑیں کہ یہ لڑکیوں کو اغوا کرنے والا ایک گروہ ہے اور اس کو زیادہ سے زیادہ شئیر کریں تاکہ ہمارے اغوا کار بھائی کوئی اور نیکی کا راستہ تلاش کریں۔ ویسے یہ نہیں لکھا کہ وہ لڑکے بھی اغوا کرتے ہیں یا نہیں اور کرتے ہیں تو ان کا کیا کرتے ہیں؟؟

یوں تو فیس بک سے دوستی کرکے لڑکے بھی اغوا کیے جا چکے ہیں۔

ویسے کسی کو خیال نہیں آیا کہ کوئی بھی نئی ٹیکنالوجی آئے اس کو پہلے پاکستان میں آزمائشی طور پر آزما لینا چاہیے ہم ایک ماہ میں ہی اس کے تمام منفی استعمالات پیش کر دیں گے۔ مزہ نہ آئے پیسے واپس کی بناد پر آزمایا جا سکتا ہے۔

فیس بک یاہو وغیرہ پر خواتین نے نام سے پاکستانی لڑکوں نے اکاؤنٹ بنا کر ریکارڈ بنایا ہے لیکن اس سے بڑا ریکارڈ ہمارے باقی ماندہ لڑکوں نے ان کو ایڈ کر کے ان سے پیار بھری باتیں کر کے بنا دیا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ جب ہم پہلی بار لاہور آئے تھے تو ہمارے دوستوں نے بتایا کہ کبھی کسی لاہوری سے راستہ نہ پوچھنا اور پوچھنا بھی تو جو وہ بتائے اس کے مخالف سمت جانا کہ کبھی یہ درست راستہ نہیں بتاتے۔ جب میں یورپ میں آیا اور راستہ پوچھنا پڑا اور لوگوں کا گھر تک چھوڑ کے آنے کے بعد مجھے ان کے مردہ دل ہونے کا احساس ہوا کہ عجیب چول قوم ہے مصیبت میں دوسروں کی مدد کردیتی ہے۔ پھر ہم نے مزید ترقی کی اور لوٹنے کا ایک نیا طریقہ ڈھونڈا موٹر سائیکل سے پوچھا یار یہ جگہ کہاں ہے اس سے پہلے کہ اگلا درست غلط راستہ بتاتا ہم نے بندوق کے زور پر اپنا راستہ اور راستے کا خرچ خود حاصل کر لیا۔

یوں تو پاکستانی خواتین پر ایک علیحدہ بلاگ بنتا ہے جو کہ آدھا لکھا بھی پڑا ہے لیکن یہاں پر ان کا بھی ذکر خیر ہوجائے کہ عرصہ ہوا کہ ہم نے موٹر سائیکل میں دوپٹہ پھنستا دیکھ کر ان کو بتانا چھوڑ دیا ہے کہ کپڑے سنبھال کر بیٹھیں کہ میں خود چشم دید گواہ ہوں جب ایسی ہی نیکی کرنے والے کو ایسا تابڑتوڑ جواب ملا کہ میں نے سوچا ایک تو اس بھلائی کی نیکی ہو گئی اور ننانوے بے عزتی سہنے کی نیکیاں ہو گئیں۔

حالات تو اب دوسروں کے بچے دیکھ کر ان کو ہاتھ ہلانے اور پیار کرنے کے بھی نہیں رہے۔ یورپ میں کوئی پیارا سا بچہ نظر آتا تھا تو ہم چپ کر کے نکل لیتے تھے کہ بھائی یہاں پر کچھ بھی الزام لگ سکتا ہے اور پاکستان کو یاد کرتے لیکن ہمارے بھائیوں نے مہربانی کی اور کم از کم اس موقع پر پاکستان کی یاد دل سے محو کرنے کا انتطام کردیا کہ پاکستان میں کسی پرائے بچے کو پیار کرنے، مسکرا کر دیکھنے ہاتھ ہلانے سے آپ اس کے اغوا کا الزام اپنے سر لے سکتے ہیں، اس کو برے اشارے کرنے کا الزام لگ سکتا ہے اور کچھ نہیں تو بچے کی والد اور والدہ خوش فہمی کا شکار ہو کر آپ کو بچے کی والدہ کو چھیڑنے کا الزام ضرور لگا سکتے ہیں۔

ایک اور صاحب نے نیکی کی غرض سے فیس بک پر شئیر کیا کہ اگر رات کو آپ کی کار پر گندے انڈے پھینکیں تو صفائی نصف ایمان بھول کر چپ چاپ کار چلائی رکھیں کہ دراصل یہ ڈاکوؤں کی حرکت ہے کہ آپ نے کار روکی نہیں اور ڈاکوؤں نے آپ کا نصف ایمان پورا کیا نہیں۔

کسی سے آپ نرم لہجے میں گفتگو کریں وہ آپ کو سخت لہجے میں جواب دے گا ہاں آپ جاتے ساتھ چڑھائی کردیں تو گفتگو میں نرمی آپ کے نصیب ہو سکتی ہے کہ ہم یا حاکم ہیں یا محکوم انسانیت اور برابری تو ہمیں چھو کر نہیں گزری۔ اب تو فقیر تک دھونس اور دھاندلی سے پیسے مانگتے ہیں اور میں نے عرصہ ہوا دس روپے سے کم دینا ہی چھوڑ دیے فقیروں کو اور دس روپے کبھی ہوتے نہیں میرے پاس کہ بد دعائیں سننا میرے لیے فقیروں کی اس تحقیر بھری نظر سے زیادہ آسان ہے جو وہ ایک دو یا پانچ کے سکے پر ڈالتے ہیں۔

لسٹ لمبی ہے وقت کم، کہاں کہاں بندہ سر پیٹے۔ کہنے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ بھائیو، مہربانو، پیارے پاکستانیو کوئی نیکی کرنے قابل تو چھوڑو۔ کہیں تو کسی معاملے میں تو معافی دے دو۔