January 25, 2013

تالن میں مفت پبلک ٹرانسپورٹ

Tallinn main muft public transport

خبر: مشرقی یورپ کے ملک ایسٹونیا Estonia کے دارالحکومت تالِن Tallinnمیں پبلک ٹرانسپورٹ کو تالِن کے شہریوں کے لیے مفت قرار دے دیا گیا۔ شہریوں کے لیے ایسی سہولت اس سے قبل چند یورپی شہروں میں مہیا کی گئی تھی تاہم تالِن یورپی یونین ملکوں کا پہلا دارلحکومت ہے جہاں شہریوں کےشہر کے اندر سفر کا تمام خرچہ حکومت برداشت کرے گی۔

حد ہوگئی۔بندہ اپنا سر پیٹ لے۔یورپیوں نے کئی سال ہم ایشیا و افریقہ المعروف تیسری دنیا کے ممالک پر حکمرانی کی ہے پر مجال ہے جو کچھ سیکھا ہو۔جب انگریزسے ہم نے آزادی حاصل کی تو ہم عوام اتنے انگریز مخالف نہیں تھے جتنے افغان حکمران تھے جنہوں نے روسیوں کی بچھائی ہوئی پٹری تک اکھاڑ پھینکی کہ کافر کی یادگار ہے اور آج تک وہاں ٹرین دوبارہ نہیں چل پائی۔ اور ہمارے راہنما خواہ سیاسی ہوں یا سماجی ہوں وہ تو سب کے سب دل ہی دل میں انگریز سے شدید متاثر تھے کسی نے انگریزوں کی ذہنی غلامی قبول کی ،کسی نے امریکیوں کی مالی غلامی اپنائی تو کسی نے روسیوں کی فکری غلامی میں نام لکھوایا اور گورا صاحب کے جانے کے بعد انہوں نے کالا صاحب کا کلچر فروغ دیا جو آج بڑی عمدہ طرح رائج پا چکا ہے
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

January 19, 2013

زندگی گزارنے کے چند راہنما اصول

zindgi guzarny ke chand rahnuma asool

زندگی کے ہر شعبہ میں چند قوانین وضع کیے جاتے ہیں اور پھر انکی بیخ کنی کر کے زندگی گزاری جاتی ہے۔جب کہ حیران کن طور پر ہماری اپنی زندگی کسی بھی اصول و قانون سے بے بہرہ نظر آتی ہے۔جبکہ ہونا تو یہ چاہیے ہم سب سے پہلے اپنی زندگی گزارنے کے اصول مقرر کریں اور پھر ان اصولوں کو پامال کرتے ہوئے زندگی گزاریں کہ جو مزہ اصول توڑؑ کر جینے میں ہے وہ عام جینے میں کہاں۔خالی روڈ پر جتنی رفتار سے دوڑا لیں جو مزہ مقرر کردہ رفتار سے تیز رفتاری یا اشارہ توڑنے میں ہے وہ صاحب یار لوگ ہی جانتے ہیں(کہ یار ہی بعد میں بچانے کا بندوبست کرتے ہیں)۔لیکن ہر اصول ایسا نہیں ہوتا کہ جس کو بنا کر پچھتایا جائے کہ صبح چھ بجے اٹھوں گا، پڑوسی کے بچوں کو کرکٹ کھیلنے پر گالیاں نہیں دوں گا وغیرہ وغیرہ۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

January 13, 2013

چھل

Chal

جب پہلی بار چھل قصبے پہنچی تھی تو میری کاغذ کی کشتی سب مقابلے جیت گئی تھی اور ملکوں کے لڑکے جو شہر کے اسکولوں میں پڑھتے تھے کمیوں کے منہ نہ لگنے کا بہانہ کر کے مقابلے سے کترانے لگے تھے۔بارہ سال بعد جب دوبارہ پانی قصبے پہنچا تو اس بار اس نے بڑے بڑے مکان گرا دیے تھے اور اس بار میں اصلی والی کشتی چلا کر لوگوں کو دریا پار کروانے لگا۔ پچھلی بار ٹخنوں ٹخنوں پانی کو حضرت شاہ پاک کے دربار کی برکت قرار دیا کہ انہوں نے پانی کو دم نہ مارنے دیا تھا ورنہ ایسا پانی بڑے بوڑھوں نے ساری زندگی نہ دیکھا تھااور مولوی صاحب نے اسے خدا کے عذاب کی ایک جھلک قرار دیا تھا اور جس جمعہ ملکوں سے کوئی مسجد نہ آیا انہوں نے لوگوں کو گناہ سے تائب ہونے کا حکم دیا تاکہ آئندہ کچھ ایسا نہ ہو۔ان کی نظر میں ان کے علاوہ سب گناہ گار تھے ملکوں کو حاکم ہونے کی وجہ سے البتہ چھوٹ تھی۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

January 7, 2013

گدھے اور گورے

Gadhy or gory

گدھا اچھا بھلا عزت دار جانور تھا سامان ڈھوتا تھا، سواری کے کام آتا تھا، جنگوں تک میں حصہ لیا کرتا تھا کہ پنجابی زبان ایجاد ہو گئی اور گدھا "کھوتا" قرار پایا۔بات یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھا لیکن سرائیکی نے تو حد ہی کردی۔کھوتے کو "گڈھیں" بنا دیا۔کبھی کسی سرائیکی بولنے والے سے گڈھیں سن کر دیکھیں، بندہ پانی پانی ہوجاتا ہے۔ گڈھیں سن کر گدھا بھی کہتا ہوگا اس ذلت سے تو اچھا تھا میں انسان ہو گیا ہوتا خواہ پاکستان میں ہی کیوں نہ پیدا ہوتا۔

جیسے ہم نےگوروں کے پروفیسر الو کو کالے جادو اور الو کا پٹھہ بلانے کے لیے مخصوص کر رکھا ہے ایسے ہی گدھا ہم نے دوسروں کی بے عزتی کرنے واسطے رکھ چھوڑا ہے۔ہاں کبھی کبھار کوئی گدھےکا مالک اس پر ڈنڈے برسانے کا کام بھی لے لیتا ہے۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

January 1, 2013

اردو مضمون -مسئلہ کشمیر

Urdu Mazmoon (essay) masla kashmir

 مسئلہ کشمیر وہ کمبل بن چکا ہے جسے اب بندہ تو چھوڑنا چاہتا ہے مگر کمبل اسکو نہیں چھوڑتا۔

 جب پاکستان بنا تو پاکستان مخالف قوتوں کے پیٹ میں عمل تبخیر کا طوفان سا اٹھا اور انہوں نے سوچاکہیں یہ سچ مچ کی اسلامی ریاست نہ بن جائے تو انہوں نے پاکستان اور پاکستانیوں کے گلے میں مختلف قسم کے طوق ڈالنے شروع کر دیے کہ یہ سکون کا سانس نہ لے سکیں اور مسائل کا انبار کھڑا کردیا اور مسئلہ کشمیر ان میں سے ایک تھا۔ حالانکہ پاکستان کے مسائل پیدا کرنے کے لیے پاکستانی سیاستدان اور پاکستانی قوم ہی کافی تھی لیکن تب تک ہماری صلاحیتیں دنیا پر آشکار نہ ہوئی تھین۔قائد اعظم سیاستدانوں سے ہی نمٹ رہے تھے کہ ہم نے پہلی فرصت میں ان سے نجات حاصل کرلی اور پھر ہم نے مسئلوں کو گھسیٹنا شروع کر دیا کہ کہ مسائل فوری حل ہونے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ انکو سالوں گھسیٹا جاتا ہے تاکہ انکی اہمیت اجاگر ہو سکے۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad