Chal
جب پہلی بار چھل قصبے پہنچی تھی تو میری کاغذ کی کشتی سب مقابلے جیت گئی تھی اور ملکوں کے لڑکے جو شہر کے اسکولوں میں پڑھتے تھے کمیوں کے منہ نہ لگنے کا بہانہ کر کے مقابلے سے کترانے لگے تھے۔بارہ سال بعد جب دوبارہ پانی قصبے پہنچا تو اس بار اس نے بڑے بڑے مکان گرا دیے تھے اور اس بار میں اصلی والی کشتی چلا کر لوگوں کو دریا پار کروانے لگا۔
پچھلی بار ٹخنوں ٹخنوں پانی کو حضرت شاہ پاک کے دربار کی برکت قرار دیا کہ انہوں نے پانی کو دم نہ مارنے دیا تھا ورنہ ایسا پانی بڑے بوڑھوں نے ساری زندگی نہ دیکھا تھااور مولوی صاحب نے اسے خدا کے عذاب کی ایک جھلک قرار دیا تھا اور جس جمعہ ملکوں سے کوئی مسجد نہ آیا انہوں نے لوگوں کو گناہ سے تائب ہونے کا حکم دیا تاکہ آئندہ کچھ ایسا نہ ہو۔ان کی نظر میں ان کے علاوہ سب گناہ گار تھے ملکوں کو حاکم ہونے کی وجہ سے البتہ چھوٹ تھی۔
ان بارہ سالوں کے دوران ایک سال جب پانی کا بڑا زور تھا اور بڑے بوڑھے بتاتے تھے کہ انہوں نے ایسا پانی تمام عمر نہ دیکھا تھاتو اس سال ہم سب لوگ قصبہ چھوڑ کر چلے گئے تھے سوائے چاچے بگے کے جس کو اس کے بیٹے اس کو ساتھ لے جانے پر راضی نہ ہوئے تھے کیونکہ اس کا کوئی بیٹا اس کو اپنے سسرال نہ لے جانا چاہتا تھااور ملک کریم خان صاب جن کو اپنے گاؤں سے اتنا پیار تھا کہ وہ اس کو چھوڑ کر جانے پر رضامند نہ ہوئے۔لیکن جب پانی کا زورقصبے کے بند کو نقصان پہنچائے بغیر ہی ٹوٹ گیااور ہم واپس قصبے لوٹے تو دونوں ہی بستی میں موجود نہ تھے۔چاچا بگا تو تیسرے ہی دن مر گیا اور اس کے بیٹوں نے اس کو وہاں دفنانے کی بجائے اس کو بڑے بند کے پار جا دفن کیا کہ کہیں پانی اس کی قبر ہی نہ بہا لے جائے۔ایسا نہیں تھا کہ بیٹوں کو مرا باپ اور اس کی قبر زندہ باپ سے زیادہ پیاری تھیں لیکن کچھ مجبوریاں بھی ہوتی ہیں انکا کیا جائے۔اور ملک صاحب پانی کا خطرہ ٹلنے سے ایک روز قبل ہی اپنے دوستوں کے ہمراہ شکار کھیلنے چلے گئے تھے ۔جنم بھومی سے محبت اپنی جگہ لیکن سائیبریا کے پرندوں کا کیا جائے جو واپس چلے جاتے تو ان کا ایک سال انتظار کرنا پڑتا۔
اب کی بار بارہ سال بعد جو پانی پھر چڑھا تو ایسا چڑھا کہ بڑے بوڑھے کہنے لگے کہ انہوں نے ایسا پانی تمام عمر نہ دیکھا تھا ۔پانی کا تو پتہ نہیں ان کی تمام عمر میں سب سے زیادہ تھا یا نہ لیکن اب کی بار انہوں نے وہ دیکھا جو واقعی تمام عمر انہوں نے نہ دیکھا تھا یعنی ان کا گاؤں زیر آب آ گیاسب کھیتیاں پانی میں گم ہو گئیں کچے مکان پہلا جھٹکا بھی نہ سہہ سکے پکے مکانا ت البتہ کچھ روز تاب آئے۔وہ ملک جو بارہ سال قبل مجھ سے کتراتے تھے میری کشتی میں بیٹھ کر محفوظ علاقوں کی طرف جانے لگے۔
اللہ گواہ ہے کہ جب شیدا ماچھی بند تک لے جانے کے ہر بندے سے پندرہ سو لے رہا تھا تو تب بھی میں سو سے زیادہ نہ لیتا تھا۔اگر کسی نے کچھ دے دیا تو الگ بات ورنہ باقی ہوس کے ماروں کی نسبت میں نے ریٹ نہ بڑھائے تھے۔
جب شیدے ماچھی کا بیٹا پانی میں گیلا ہو کر بروقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث سردی لگنے کی وجہ سے چل بساتو دل ہی دل میں سب خوش کہ شیدے کو اچھا سبق ملا ہے اور دبے لفظوں میں انہوں نے شیدے کو جتلایا کہ یہ سب تیرے کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔شیدا یہ تو نہ کہا سکا کہ اگر ایسا ہوتا تو چھل میں صرف ملکوں کے گھر ہی ڈوبنے چاہیے تھے لیکن وہ اتنا ہی کہہ سکا "اللہ سائیں امیروں سا بے ایمان نہیں"۔مجھے اس روز سے شیدے سے سب گلے ختم ہو گئے کیوں کہ وہ میرے سے اس لحاظ سے بہتر تھا کہ اشاروں میں ہی سہی اس نے لوگوں کو سنا تو دیا اور میں تو دل کی بات زبان پر لا ہی نہ سکا کہ ملکوں کو کیا سزا مل گئی ہے جو انہوں نے تمام سیلاب زدگان کی امداد خود ہی رکھ لی ہے اور گھر بھی ان کے ہی باقی رہے ہیں اور سیلاب کے بعد وہ ونگارکے نام پر مفت مزدور بھی استعمال کر لیں گے۔شاید مولوی صاحب سچ کہتے تھے کہ ان کے علاوہ سب گناہگار تھے ملکوں کو حاکم ہونے کی وجہ سے البتہ چھوٹ تھی۔
نوراں بھی تب ہی مجھے پہلی بار ملی تھی۔نوراں اپنی ماں کے ساتھ بڑے بند پر جارہی تھی۔سیلاب نے ان کے گھر میں ان دو جانداروں کے سوا کچھ نہ چھوڑا تھا۔یوں تو سیلاب کی آفت نے سب کو حواس باختہ کیا ہوا تھا پر میرا دادا اللہ بخشے کہا کرتا تھا" پتر جوانی سے بڑی کوئی آفت نہیں "،اور نوراں دونوں آفتوں کے زیر بار تھی۔خدا معلوم سیلاب کے باوجود میری کمینگی برقرار تھی یا صدمات کے باوجود اس کی جوانی کا جوش ختم نہ ہوا تھا۔تیز ہوا سے اسکا دوپٹہ بار بار کھسک جاتا تھااور ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ میری نظریں پانی کی لہروں سے پھسلتی پھسلتی اس کے سینے پر آ رکتی تھیں۔کنارے پر اتر کر میں چاہنے کے باوجود نوراں کو ہاتھ پکڑا کر کشتی سے اترنے میں مدد نہ کر سکالیکن جب نوراں کی ماں نے پیسے دینے چاہے تو میں نے صاف انکار کر دیا۔شیدے ماچھی کے قصے زبان زد عام تھے تو نوراں کی ماں دعائیں دیتی نہ تھکتی تھی ۔میں اجرت کیسے لیتا جب کہ میں نوراں سے اس کی ماں سے نظر بچا کر پھینکی گئی مسکراہٹ وصول کر چکا تھا۔
جس روزمیں خیمہ بستی نوراں سے ملنے گیا اس روز فضل پور کے شفیع ارائیں کی وجہ سے دریا پار والے چھوٹے سے شہر احمد نگر میں بلوہ ہو گیا تھا اور مجھے تمام رات نوراں اور اس کی ماں کے پاس ہی گزارنا پڑ گئی۔شفیع بیچارہ بھوک سے تنگ آ کر رات کو ایک دوکان سے مرغی چراتے پکڑا گیا تھا۔شہر کے دوکاندار جو سیلاب زدگان کی بھوک ،انکے مانگنے کی عادات اور چوریوں سے تنگ آئے ہوئے تھے اس روز گھات لگا کر شفیع کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور اس کو اتنا مارا کہ اس بیچارے کی جان نکل گئی۔جب یہ خبر سیلاب زدگان کی خیمہ بستی تک پہنچی تو تو بھوک اور بے عزتی کے مارے سیلاب زدگان شہر پر ٹوٹ پڑے اور جس کے ہاتھ جو لگا وہ اٹھا لایا۔شفیع کی خیمہ بستی والے صرف شفیع کی لاش کو اٹھانا بھول گئے جسے اگلے روز پولیس کو پہنچانا پڑا۔حکومت نے رسوائی کے ڈر سے اخبار رپورٹروں کو ایک ایک لفافہ پہنچا دیاجن بیچاروں کے اپنے گھر بھی سیلاب میں بہہ گئے تھے اور یوں سب ٹھیک ہو گیا۔لیکن وہاں سے واپسی پر مجھے صرف اتنا یاد تھا کہ نوراں کے ہاتھ بہت نرم ہیں، اس کے بال اس کے چہرے پر آ کر اس کو بہت تنگ کرتے ہیں اور نوراں کی ماں میرا نوراں کا ہاتھ تھامنا برا نہیں سمجھتی۔
جب پانی واپس وہاں پہنچ گیا جہاں سے چلا تھا تو پہلی بار زندگی میں میرے پاس اتنے پیسے ہو گئے تھے کہ میں بھی اپنا پکا مکان بنوا سکتا تھا۔کچھ لوگوں کی مصیبت کچھ لوگوں کی خوش قسمتی ثابت ہوتی ہے۔میں شیدا ماچھی اور ملک صاحبان ایک ہی قطار میں تھے۔
سب کچھ معمول پر آنے کے بعد آس پاس کے دس گاؤں کے لوگوں نے اکٹھ کر کے فیصلہ کیا کہ اب کی بار الیکشن میں بند کے اِس پار والے امیدوار کو ووٹ دیے جائیں گے۔میں لوگوں کی سادہ لوحی پر ساری رات ہنستا رہا۔ملک صاحب، میں ، شیدا ماچھی ،اخباری نمائندے بھلا کب چاہتے کہ ان کے پیسے مارے جائیں۔بند کے توڑنے کا ایک ہی اصول تھا جہاں کا امیدوار ہارا ہو وہاں کا بند توڑا جائے گا۔اب تک پانی دو بار ہی ہمارے گاؤں پہنچا تھا اور دونوں ہی بار اسمبلی میں دریا کے اُس طرف والا امیدوار پہنچا تھا۔
اب میں اگلی چھل کا انتظار کر رہا ہوں کہ کب لوگوں کی لیے اگلی آفت میرے لیے خوش نصیبی کا در کھولنے آئے۔میری ،شیدے ماچھی اور ملکوں کی امید آسمان سے برسنے والی آفت سے بندھی تھی۔اور ملکوں کو ملنے والے غیر متوقع امداد کے بعد مجھے لگتا ہے کہ میرا انتظار ایک آدھ سال سے زیادہ نہیں ہوگا۔پہلی بار چھل قصبے پہنچی تھی تو میری کاغذ کی کشتی سب مقابلے جیت گئی تھی اور ملکوں کے لڑکے جو شہر کے اسکولوں میں پڑھتے تھے کمیوں کے منہ نہ لگنے کا بہانہ کر کے مقابلے سے کترانے لگے تھے۔بارہ سال بعد جب دوبارہ پانی قصبے پہنچا تو اس بار اس نے بڑے بڑے مکان گرا دیے تھے اور اس بار میں اصلی والی کشتی چلا کر لوگوں کو دریا پار کروانے لگا۔