Gadhy or gory
گدھا اچھا بھلا عزت دار جانور تھا سامان ڈھوتا تھا، سواری کے کام آتا تھا، جنگوں تک میں حصہ لیا کرتا تھا کہ پنجابی زبان ایجاد ہو گئی اور گدھا "کھوتا" قرار پایا۔بات یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھا لیکن سرائیکی نے تو حد ہی کردی۔کھوتے کو "گڈھیں" بنا دیا۔کبھی کسی سرائیکی بولنے والے سے گڈھیں سن کر دیکھیں، بندہ پانی پانی ہوجاتا ہے۔ گڈھیں سن کر گدھا بھی کہتا ہوگا اس ذلت سے تو اچھا تھا میں انسان ہو گیا ہوتا خواہ پاکستان میں ہی کیوں نہ پیدا ہوتا۔
جیسے ہم نےگوروں کے پروفیسر الو کو کالے جادو اور الو کا پٹھہ بلانے کے لیے مخصوص کر رکھا ہے ایسے ہی گدھا ہم نے دوسروں کی بے عزتی کرنے واسطے رکھ چھوڑا ہے۔ہاں کبھی کبھار کوئی گدھےکا مالک اس پر ڈنڈے برسانے کا کام بھی لے لیتا ہے۔
یورپ میں جتنی چار ٹانگوں والے گدھوں کی عزت ہے اتنی ہی دوٹانگوں والے گدھوں کی بھی خاص مانگ ہے اور گوریاں تو ان کو دیکھتے ہی دل دے بیٹھتی ہیں۔
گوروں کو گدھوں سے کتنی انسیت ہے اس کی سب سے بڑی مثال امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کا انتخابی نشان ہے۔ اب سوچیں ہمارے ہاں کسی پارٹی کا انتخابی نشان شیر یا تیر کی بجائے گدھا ہو جائے تو کیا ہو؟ اسکی ایک اور مثال وہ تمام حکمران ہیں جن کو امریکی بھاگ بھاگ کر اپنی گودوں میں بٹھاتے ہیں۔گوریاں بھی گدھوں کی محبت میں پیچھے نہیں ہیں بلکہ شادی کے لیے ان کو صرف اور صرف گدھے ہی چاہئیں۔ہماری طرف لڑکیوں کا زور نہیں چلتا لیکن چاہتی وہ بھی ایسا دلہا ہیں جو ایک بوجھ ڈھونے والا گدھا ہو اور ان سے پارٹ ٹائم کے طور پر شادی کرسکے۔ ہمارے ہاں ابھی بھی اکثر رشتے والدین تلاش کرتے ہیں لہٰذا ان کا در پردہ مقصدِ تلاش اپنی بیٹیوں کے لیے دو ٹانگوں والا گدھا ہوتا ہے اور ان کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف بیوی کا گدھا ہو بلکہ پارٹ ٹائم میں سسرال والوں کو بھی خدمات پیش کر سکے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ ہمارے یہاں اکثر گدھے شادی کے بعد خود ساختہ مردانگی کی اَنا کے غبارے میں ہوا بھر کر دولتیاں جھاڑنے لگتے ہیں۔ لیکن کچھ کچھ قسمت والیوں کو ایسے گدھے بھی ملتے ہیں جو چار ٹانگوں والے گدھے سے بدرجہا بہتر ہوتے ہیں۔
یوں تو شادی کے بعد ہر لڑکا سمجھتا ہے کہ اس کو گدھا بنایا گیا ہے جب کہ گدھا تو وہ پہلے ہی ہوتا ہے، فرق یہ ہے کہ پہلے وہ اپنی مرضی سےگدھا بنتا ہے پھر اس کو مجبوراً بننا پڑتا ہے۔ ہر مرد زندگی میں دو بار گدھا بنتا ہے۔ ایک بار جب اسے کسی سے محبت ہوتی ہے اور دوسری بار جب وہ کسی سے شادی کرتا ہے۔ لیکن اسے احساس بعد میں ہوتا ہے اور کچھ کو تو احساس بھی نہیں ہوتا اور وہ ہنسی خوشی ایک ہی جنم میں آواگان نظریہ بنے انسان اور گدھے کا کردار اکٹھے ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ ویسے آج کل ہمارے پردیسی بھائی بھی اپنے آپ کو گدھا سمجھے جانے کی شکایت کرتے نظر آ رہے ہیں، لیکن ہماری نظر میں ان سے زیادہ وہ گدھے ہیں جو پردیسی بننے کے امیدوار ہیں۔ لیکن یہاں بات گوروں اور گدھوں کے تعلق کی ہے تو ہم یہ بات کسی اور وقت کے لیے ادھار رکھ چھوڑتے ہیں۔
اشتوت گارٹ (جرمنی)کے چڑیا گھر میں چمکتے بھورے رنگ اور درمیانی قامت کا جانور دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ سوچنے کے باوجود جب سمجھ نہ آیا کہ یہ کون سا جانور ہے تو نزدیک جا کر جنگلے پر لگا نام پڑھا، پتا لگا کہ موصوف گدھے ہیں۔ ہمیں اس کی قسمت اور عیاشیوں پر رشک آیا اور تمام پاکستانیوں سے جو ڈونکی لگا کر یورپ میں آنے کے خواہشمند ہیں یا" اِن پراسس" ہیں سے تمام گلہ مٹ گیا کہ جہاں عزت ہے وہیں جا کر رہنا ہی پسند کریں گے ناں۔ اس سے قبل وہ ہمیں پہچان کر ہمارا تمسخر اڑا پاتا ہم رش کا فائدہ اٹھا کر پچھلے قدموں ہی وہاں سے رفو چکر ہو گئے۔ ہم گاؤں میں رہتے ہیں اور ہمیں گدھوں پر بیتنے والی تمام وارداتوں کا بخوبی علم ہے لہٰذا ہم نے وہاں سے فرار میں ہی نجات سمجھی کہ کسی اور کو پتہ لگ گیا تو گدھے والے جنگلے کی بجائے لوگوں نے ہمیں دیکھ کر کہنا تھا ’’ہونہہ.... گدھا کہیں کا۔‘‘
پھر وارسا (پولینڈ)کے چڑیا گھر میں گوریوں کو گدھے کی گردن میں بانہیں ڈال کر فوٹو کھینچواتے یقین آگیا کہ مشرقی یورپ کی گوریاں چار ٹانگوں والے بھورے گدھوں پر جان چھڑکتی ہیں، دوٹانگوں والے کی تو بات ہی کیا ہے۔ ویسے پولینڈ میں ہمیں گوریاں جن نظروں سے دیکھتی تھیں ان سے ہمیں بھی گمان گزرتا تھا شاید وہ ہم کو بھی گدھا سمجھتی ہیں اور گدھا بھی وہ جس کی قربانی جائز ہو۔
اب کیا کیا جائے کہ یورپیوں کو گدھے اتنی وافر مقدار میں میسر نہیں جتنی ہم پر خدا کی رحمت ہے۔ جیسے گرم علاقوں والے برف باری کے شوقین ہوتے ہیں اور برف کے رہنے والے سورج کی ایک جھلک کو جان دیتے ہیں لہٰذا گدھوں کی کمی نے گوروں کو گدھوں کی محبت میں مبتلا کر ڈالا ہے۔ وہ چاہے دو ٹانگوں والا گدھا ہو یا چار ٹانگوں والا گدھا تو گدھا ہوتا ہے۔ گورے کسی کو غصے میں کیا، مذاق میں گدھا نہیں کہتے کہ ان پر گدھے کی اہمیت مسلم ہے۔ امریکہ میں لڑکیاں پیپر میرج paper marriage کرلیتی ہیں لیکن یورپ میں (برطانیہ کو نکال کر) پیپر میرج کا کوئی وجود نہیں کہ گدھا خود چل کر آپ کے پاس آئے اور آپ صرف کاغذات میں اس کے مالک بنیں؟ ہمارے سامنے ہمارے کئی ہم وطن اور ہمارے وطن مالوف کے ہمسائے میں رہنے والے یہاں گوریوں سے شادیوں کے بندھن میں بندھ چکے ہیں۔
بھائیو! ہم سب وہ گدھے ہیں جن کو صرف چارے سے مطلب ہے۔ خواہ کوئی بھی حاکم ہو اور ہم پر کچھ بھی لاد دے، ہمارااحتجاج ڈھینچوں ڈھینچوں تک ہی محدود ہے اور وہ بھی تب تک جب تک ہم کو چارے کی جھلک نہ نظر آ جائے۔ چارہ نظر آیا نہیں اور اصول کی ڈھینچوں ڈھینچوں ہم نے بند کی نہیں۔ اب گوریوں اور گوروں کو گدھے پسند ہیں تو وہ ہمیں کیوں پسند نہ کریں۔