Alvidai Palty
پاکستان ہو یا پولینڈ اللہ جانتا ہے پالٹی خواہ کسی نوعیت کہ کیوں نہ ہو سے میری جان جاتی ہے۔شادی ہو، ہلا گلا ہو، سالگرہ ہو یا گیٹ ٹو گیدر۔چونکہ میں دیہاتی ہوں ، گنوار ہوں،بد تمیز ہوں اس لیے پارٹی کو پالٹی کہتا ہوں۔انگریزی P-A-R-T-Y- کو میں اردو پ۔۱۔ل۔ٹ۔ی۔کے نام سے جانتا ہوں۔اسی لیے جب میری استانی نے مجھے بتایا کہ بسلسلہ روانگی ماسکو وہ ایک الوداعی پالٹی دے رہی ہے اور میں پہلا شخص ہوں جس کو اس نے دعوت دی ہے اور مجھے لازم آنا ہو گا تو میری جان نکل گئی۔ اس پہلے گزرنے والے دو سالوں میں کاشا نے مجھے بار ہا مواقع پر دعوت دی لیکن ہر بار میں کوئی بہانہ کر کے ٹالتا رہا لیکن بھائی صاحبان آپ جانتے ہیں کہ مجبوری دنیا میں ہر برائی کی جڑ ہے اور بس دعا کریں کہ کبھی کسی سے کام نہ پڑے اور چونکہ مجھے کاشا سے کام پڑ چکا تھا اس لیے کوئی بات بنائے بن نہ سکی اور ایک فیصدی بھی خواہش نہ ہونے کے باوجود حامی بھرنی پڑ گئی۔
کاشا نے بتایا کہ پالٹی فلاں ہوٹل میں ہے اور چونکہ وہاں شراب کی فروخت کی اجازت نہیں لہذا ہر کوئی اپنے پینے پلانے کا سامان ساتھ لائے گا۔ میں چونکے بغیر نہ رہ سکا کہ پولینڈ میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں شراب نہیں بکتی۔ قربِ قیامت پر یقین آ گیا۔ میں نے طنز بھرے لہجے میں پوچھا کہ کیا پولینڈ میں شراب بیچنے کے لیے اجازت کی ضرورت ہے؟ چونکہ وہ بھی بادہ خوار ہے اور بادہ پینے میں خدائی خوار ہے لہذا میری بات نہ سمجھ سکی اور تفصیل بتانے لگی کہ شراب بیچنے کے لیے لائسنس ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ جو کہ میں لکھنے سے قاصر ہوں ۔دراصل اس وقت میں خود بھی اس کی باتیں بظاہر ہی سن رہا تھا کیونکہ اس وقت میں اپنے ہاسٹل کے ہر کمرے میں بننے والے وودکے کی کپیوں کے لائسنس ڈھونڈ رہا تھا۔