March 25, 2013

بیگم گردی پر سزا- ایک خبر

Begam gerdi per saza- aik khabar

خبر: (زیورخ)سوئس خاتون معذور شوہر کوسیر و تفریح کے بہانے لے جا کر بھارت چھوڑ آئی جہاں ناکافی سہولیات کی بنا پر شوہر کی موت ہوگئی۔ عدالت نے خاتون کو بیگم گردی دکھانے پر چار سال قید کی سزا سنائی ہے۔ 

ہمارے نمائندہ عمومی یورپ "ب کھٹک" صاحب جو سفر نامے پڑھ پڑھ کر یورپ کے معاملات کے اتنے ماہر ہو چکے ہیں کہ گوگل اور وکیپیڈیا کی مدد سے کسی بھی ملک ، ملکی حالات اور ملکی افراد پر تفصیلی تبصرہ لڑھکا سکتے ہیں، اور چونکہ پاکستانی ہیں اس لیے بھارت سے بھی جان پہچان رکھتے ہیں اور بدقسمتی سے شوہر بھی ہیں تو تینوں امور پر گہری نظر رکھنے کے باعث انہوں نے بطور خاص ہمیں اس خبر کی تحقیقی رپورٹ بھیجی ہے۔چونکہ آج کل ہمارا میڈیا بھی بیرونی امداد پر بھروسہ کررہا ہے لہٰذا ہم بھی اس تحقیقی رپورٹ کو جوں کا توں شایع کر رہے ہیں۔ویسے تو کسی کی مجال نہیں جو ہماری مرضی کے بغیر ہمارے بلاگ پر ایک لفظ بھی شایع کر سکے لیکن پھر بھی لکھے دیتے ہیں کہ بلاگ ھذا کا مضمون سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ یعنی کسی کو اعتراض ہو تو کھٹک صیب کو پکڑے ہمارا کوئی لین دین نہیں۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

March 19, 2013

جرمنی میں جلسہ اور جلوس-سفرنامہ اشٹوٹ گارٹ

Germany main jalsa aur jaloos-safarnama stuttgart

ویسے تو ہمارا بڑے ترقی یافتہ شہروں سے علاقہ، علاقہ غیر رہا ہے کہ وہاں ماسوائے بے ڈھنگی بلند و بالاعمارات اور خود میں مگن روکھے سوکھے لوگوں (وہ بھی جرمن) کے علاوہ ہوتا کیا ہے لیکن والد صاحب کے حکم پر ان کے دوست کو کمپنی دینے کے لیے ہم نے جہاز سے چار گنا سستی بس کی ٹکٹ خریدی، جس میں پیسے بھی بچ رہے تھے، پندرہ بیس شہروں میں اسٹاپ بھی تھا اور میرے پسند کے قدرتی مناظر الگ۔ جب اشٹوٹ گارٹ Stuttgart چوبیس گھنٹے کے سفر کے بعد وارسا Warsaw سے بس پر پہنچے تو ہماری میزبان اور دبئی والے مہمان ہمیں لینے بس اڈے پر موجود تھے- اشٹوٹ گارٹ مغربی جرمنی میں واقع چند انتہائی ترقی یافتہ اور امیر شہروں میں سے ایک ہے۔ چوبیس گھنٹے کا سفر پولش لوگوں کے ساتھ گزار کر تشریف کا شکریہ تو ادا جو ہونا تھا سو ہونا تھا دماغ کا شکریہ بہرحال ادا ہو چکا تھا۔ اس سفر کے دوران ہم پر یہ راز کھلا کہ پولوں کے ساتھ سفر کرنا ہو تو مفلر کے بغیر ناممکن ہے۔ پولوں کی دو خوبیاں تب ہی آشکار ہوں گی جب آپ ان کے ساتھ وقت گزاریں کہ ایک تو پتا نہیں بچپن میں کاؤ بوائے فلمیں دیکھتے رہے ہیں جو جا بجا تھوک پھینکتے رہتے ہیں دوسرا ان کا بس لگے تو غسل خانوں میں بھی بئیر استعمال کریں۔ جہاں جہاں بس رُکتی تمام مرد و خواتین لڑکے و لڑکیاں با جماعت بئیر پی کر واپس آجاتے اور اگلے سٹاپ تک ہمارا سانس لینا محال ہوجاتا۔ جب اشٹوٹ گارٹ اترے تو دماغ ایسے چکرا رہا تھا جیسے کسی ایسی ویگن میں سفر کرنا پڑ گیا ہو جہاں تین چار خواتین بیک وقت قے کر رہی ہوں۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

March 13, 2013

درخت اور انسان (افسانہ / کہانی )

drakht aur insan- afsana/ kahani

وارسا کا ویجنکی پارک جو اوپر تلے تین سطحوں پر بنایا گیا ہے میں فیڈرک شوپن کے مجسمے کے پیچھے سے نیچے اترتے 
ہوئے درختوں کی قطار میں میرا ساتواں نمبر ہے۔ میں کب سے یہاں ہوں ، کہاں لگایا گیا، کیسے یہاں آیا، وہ تو میں تب ہی بتا سکتا اگر ہم بھی انسانوں کی طرح ڈائری لکھا کرتے یا ہمارا بھی شہری انتظامیہ میں اندراج کرایا جاتا لیکن میری پہلی یاد اسی پارک کی ہے جب ایک سیاہ کوا میری ٹہنی پر بیٹھا کائیں کائیں کرتا کہہ رہا تھا کہ "بڑے درختوں کو کٹے اتنے دن ہو گئے کہ لگتا ہے کہ وہ یہاں تھے ہی نہیں" ۔ ایک بوڑھے کوے نے جس کو پتہ تھا وہ اس بار کی برف نہیں دیکھ پائے گا نے جواب دیا کہ "رہنا جھوٹ ہے اور جانا سچ ہے"۔ حالانکہ وہ میری پہلی یاد ہے لیکن میں اچھی طرح یاد ہے اس زمانے میں بڑے بوڑھوں کی باتوں ہر منہ کا ذائقہ خراب نہیں ہوا کرتا تھا کیونکہ تب دنیا کا نظام سائنس کی بجائے بڑوں کی باتوں پر چل رہا تھا۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

March 7, 2013

ہم سفر "نہیں" چاہیے

hum safar nahee chahiye

اب تک میں سمجھتا رہا ہوں کہ میری جان صرف بھونکتے کتوں اور شراب پیے آدمیوں سے نکلتی ہے لیکن اب احساس ہوا ہے کہ وہ بندہ بھی اتنا ہی خطرناک ہے جو دوران سفر بولنے کے مرض میں مبتلا ہو۔

ادھر ہمارا حال یہ ہے کہ جان پہچان والے سے کم کم بات کرتے ہیں کجا انجان آدمی سے بات کرنا۔ اب ہماری طبعیت ایسی شرمیلی ہے کہ کسی کو یہ بتاتے شرم آتی ہے کہ پی ایچ ڈی کر رہا ہوں کہ اگلا سمجھے کا اویں ہی شیخی بگاڑ رہا ہوں۔ اب اگر آپ کیا کرتے ہیں کایہ جواب نہ دیا جائے تو اور کیا دیا جائے۔لیکن پھر آگے یہ بھی بتانا پڑتا ہے کہ یورپ سے کر رہا ہوں یورپ میں ایسٹو نیا سے کر رہا ہوں اور ایسٹونیا کا محل و وقوع کیا ہے اور وہاں ہی کیوں گیا وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ اگر جھوٹ بولوں تو بھی شرم کی بات ہے کہ ایک تو ویسے ہی چھوٹ بولنا گناہ ہے دوسرا پہلے کیا کم جھوٹ بول رکھے ہیں زندگی میں جو مفت میں اور بولیں اور تیسرا یہ بتانا بھی باعث شرمندگی ہے کہ کچھ نہیں کرتا پھر کچھ کرنے پر لیکچر سننا پڑے گا۔ 
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

March 1, 2013

مادری زبانیں

madri zabanain

ہر سال 21 فروری کو عالمی یوم مادری زبان منایا جاتا ہے۔ یوں تو میری مادری زبان سرائیکی ہے لیکن میں قومی زبان اردو کو قومی مادری زبان اور سرائیکی کو علاقائی مادری زبان سمجھتا ہوں اور ان دونوں زبانوں سے اتنی محبت ہے کہ میں رہ نہ سکا اور اس سلسلے میں ایک مضمون پیش خد مت ہے جس کو طلبا امتحان میں لکھ کر خاطرخواہ نمبر بھی لے سکتے ہیں اور فارغ العقل معاف کیجیے گا فارغ التحصیل و فارغ الضلع پڑھ کر عش عش بھی کر سکتے ہیں۔

 میری مادری زبان سرائیکی ہے۔ الحمدللہ میں بڑی خوش اسلوبی سے اسے بول سکتا ہوں اس لیے مجھے اس کو سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ مجھے نہیں پتہ کہ سرائیکی کے کتنے حروف تہجی ہیں۔ سرائیکی پڑھنی پڑ جائے تو ایسے پڑھتا ہوں جیسے انگریزی میڈیم اسکولوں کالجوں والے اردو پڑھتے ہیں۔ یورپ والوں کا پاگل پن دیکھیں کہ ان کے ہر طالب علم کو ایک تو ہر مضمون اپنی مادری زبان میں پڑھایا جاتا ہے جب کہ اس کے علاوہ اسے یورپ کی ایک زبان اور سیکھنی ہوتی ہے تاکہ مختلف علاقوں والے دوسری جگہ جا کر اجنبیت محسوس نہ کریں۔ اس کے بر عکس ہم نے اپنے بچوں پر انتہائی کم بوجھ ڈالا ہے اور اسی رفتار سے چلتے رہے تو عنقریب اردو سے بھی جان چھوٹ جائے گی کہ انگریزی نہ صرف بین الاقوامی زبان ہے بلکہ ہر طرف اس کا دور دورہ ہے۔ انگلینڈ اور امریکہ کا بچہ بچہ انگریزی بولتا ہے۔ ہمارے صاحب لوگوں کے صاحب لوگ جو کہ امریکی ہیں یا برطانوی، انگریزی میں ہی بات کرتے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی ہمارے صاحب لوگ بھی دوران گفتگو انگریزی ہی استعمال میں لاتے ہیں لہٰذا انگریزی سیکھنا لازم ہے نہ کہ اردو، جب کہ سرائیکی، پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو وغیرہ تو دور کی بات رہی۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad