drakht aur insan- afsana/ kahani
وارسا کا ویجنکی پارک جو اوپر تلے تین سطحوں پر بنایا گیا ہے میں فیڈرک شوپن کے مجسمے کے پیچھے سے نیچے اترتے
ہوئے درختوں کی قطار میں میرا ساتواں نمبر ہے۔ میں کب سے یہاں ہوں ، کہاں لگایا گیا، کیسے یہاں آیا، وہ تو میں تب ہی بتا سکتا اگر ہم بھی انسانوں کی طرح ڈائری لکھا کرتے یا ہمارا بھی شہری انتظامیہ میں اندراج کرایا جاتا لیکن میری پہلی یاد اسی پارک کی ہے جب ایک سیاہ کوا میری ٹہنی پر بیٹھا کائیں کائیں کرتا کہہ رہا تھا کہ "بڑے درختوں کو کٹے اتنے دن ہو گئے کہ لگتا ہے کہ وہ یہاں تھے ہی نہیں" ۔ ایک بوڑھے کوے نے جس کو پتہ تھا وہ اس بار کی برف نہیں دیکھ پائے گا نے جواب دیا کہ "رہنا جھوٹ ہے اور جانا سچ ہے"۔ حالانکہ وہ میری پہلی یاد ہے لیکن میں اچھی طرح یاد ہے اس زمانے میں بڑے بوڑھوں کی باتوں ہر منہ کا ذائقہ خراب نہیں ہوا کرتا تھا کیونکہ تب دنیا کا نظام سائنس کی بجائے بڑوں کی باتوں پر چل رہا تھا۔
جب ہم سب نے ہوش سنبھالا تو کوئی بڑا درخت موجود نہ تھا جو ہم کو بتا پاتا کہ یہ جگہ پہلے کیا تھی اور ہم سے پہلے کون تھا اور ہم یہاں کیسے آئے۔ لیکن لوگ ہمارے ساتھ ٹھہر کر پرانے درختوں کو یاد کرتے تھے جو ان کے پُرکھوں نے لگائے تھے جب وہ آزاد تھے جبکہ ہم روسیوں کے لگائے ہوئے تھے جو انکے نزدیک غلامی کی نشانی تھی لیکن خوبیاں خامیاں تو سب میں ہوتی ہیں اور جانے والوں کی بد تعریفی کیا کرنی۔
طرح طرح کے لوگ آئے رنگ رنگ کے پرندے چہچہائے اور ہم ان کی زبان ، عادات سمجھتے چلے گئے۔جو بھی آیا وہ سمجھتا کہ وہ پہلا ہے جو یہاں پر آیا ہے لیکن ہوش سنبھالنے کے بعد ہر پرندے کی بولی میں سمجھتا تھا ایسے ہی پرتگالی آئے، جاپانی آئے، عربی آئے، اسپینی آئے، انگریز آئے غرض جس نے جس زبان میں آ کر کہا کہ وہ اپنی قوم کا پہلا فرد ہے جو یہاں آیا ہے توتب بھی میں اسکی زبان سمجھتا تھا۔
انسانوں کے ساتھ اتنا لمبا عرصہ گزار کر بھی اپنی شناخت برقرار رکھی حالانکہ انسان تو وحشی درندوں کو بھی انسان بنانے پر مختار ہے۔ ہوسکتا ہے ہمارے انسان نہ بننے کی وجہ یہ رہی ہو کہ انسان کی حرکت ہر ظاہری و باطنی سمت میں ہوتی ہے جبکہ ہماری فقط افقی ہوتی ہے۔ انسان خود اپنے جھکنے کے اسباب بناتا ہے جبکہ ہمیں دوسرے اسباب جھکا دیتے ہیں۔ انسان جیتا ہے تو اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اپنی اہمیت اور اپنا مقام بڑھاتا رہے اور مرتا ہے تو پیچھے رہ جانے والے اس اہمیت اور مقام کے خلا کو پر کرنے میں لگے رہتے ہیں- جبکہ ہم زندگی بھر دوسروں کی اہمیت اور مقام بڑھانے میں لگے رہتے ہیں اور مر کر بھی لوگوں کی اہمیت اور مقام بڑھانے کے سامان کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
ایک برازیلی پروفیسر اپنے طلبا کو پرتگالی میں سمجھا رہا تھا کہ" کچھ سیکھنا ہے تو سراپا کان بن جاؤ"۔ اگر میرے رب نے مجھے زبان دی ہوتی تو میں بول اٹھتا کہ" بالکل سچ کہا"۔ سچ صرف پیغمبروں پر نازل نہیں ہوتا بلکہ ہر لمحے کا اپنا سچ ہوتا ہے جو کسی پر بھی نازل ہو سکتا ہے اور اسکی تائید کرنا ہی حق ہے۔ پروفیسر سمجھانے لگا "کامیابی وہ دیوی ہے جسکی بھینٹ ہر شے چڑھانی پڑتی ہے۔ پیسہ ، وقت، جان، دل، اپنے ، پرائے اور پھر بھی کوئی پتہ نہیں یہ مہربان ہو کہ نہ ہو۔ کچھ لوگ تمام عمر لٹا کر بھی اس کی خوشنودی حاصل نہیں کر پاتے جبکہ کچھ لوگوں کے کھوٹے سکوں پر بھی یہ مہربان ہوجاتی ہے۔کچھ درخت نایاب ہو کر بھی اہمیت نہیں رکھتے جب کہ کچھ گھر گھر ہونے باوجود بھی متبرک قرار پاتے ہیں۔کچھ لوگ مر کر بھی کچھ نہیں پاتے اور گمنام سپاہی کی قبر پر ایک مٹھی مٹی انکی بھی ہوتی ہے جبکہ کچھ غلط ہندوستان تلاش کرنے پر بھی امریکہ کے دریافت کنندہ بن جاتے ہیں"۔ لیکن سمجھ صرف ان کے لیے ہے جو سمجھنا چاہیں۔
سب سے خوش قسمت انسان حضرت آدم ؑ تھے جو پہلے انسان تھے اور جن کے کندھوں پر اپنے سے پہلوں کے گناہ ثواب کا کوئی بوجھ نہیں تھا۔ بعد میں آنے والے انسان اپنےسے پچھلی نسلوں کا بوجھ تمام عمر اپنے کندھوں پر ڈھوتے رہے ۔ جنہوں نے بظاہر اسکو اتار پھینکا نادانستگی میں وہ بھی اپنے خون میں ، اپنی عادات میں، اپنی اولاد میں، اپنے آس پاس اسے پالتے رہے ۔جبکہ ہر درخت تنہا پیدا ہوتا اور ایسے ہی ختم ہو جاتا ہے۔
انسان دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو زندگی سے بھرپور ہوتے ہیں، جو جی بھر کر جذبات کا اظہار کرتے ہیں جو بات بے بات قہقہہ لگاتے ہیں ، جو بات بے بات غصہ ہوجاتے ہیں، جو جلدی خفا ہوجاتے ہیں اور فوراً مان جاتے ہیں؛ دوسرے وہ ہوتے ہیں جو ان سب چیزوں سے بے نیاز ہوجاتے ہیں۔نہ کسی چیز سے انکو تکلیف پہنچتی ہے نہ کچھ انکو خوش کرنے کا سبب بنتا ہے۔ باقی جو ہیں وہ یا راستے میں ہیں یا راستہ بھولے ہوئے ہیں۔ موخر ذکرلوگ درحقیقت جیتے جی موت قبول کر چکے ہوتے ہیں ۔ زندگی سے بھرپور لوگ تمام عمر ایسے ہی لوگوں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور ان سا رویہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ پہلی ہی کوشش میں اس مقام کو پا لیتے ہیں جبکہ کچھ لوگ مر کر بھی سکون کے طلبگار رہتے ہیں اور بھٹکتے رہتے ہیں۔ جبکہ جامدات پیدائش سے ہی سکون میں ہوتے ہیں اور ہر موسم ہر خوشی ہر افسوس چپ چاپ سہتے ہیں۔ انسان جامدات سا سکون حاصل کرنے کو حرکت میں رہتا ہے۔
ہماری قسمت میں جو لکھا گیا ہم نے اس سے انحراف نہیں کیا ۔ اونچائی کی طرف بڑھتے رہنا ہی مقصد قرار پایا اور ہم چپہ چپہ انچ انچ اوپر اٹھتے چلے گئے لیکن انسان کو جو مقصد دیا گیا اس نے اس سے انحراف کیا۔ بغاوت انسان کی سرشست میں ہے اور اطاعت ہماری عادت قرار پائی۔ انسان کو جو نیکی عطا کی گئی اس کے بدلے اس نے برائی ایجاد کی اور جس برائی کی اس کو اجازت دی گئی اس کی روک تھام کے لیے اس نے نیکی پیدا کر ڈالی۔
انسان کی فطرت میں ٹہراؤ نہیں ہے شاید اسے لیے جمادات کو پیدا کیا گیا۔ پچھلے برس جو روسی اپنی محبوبہ کے گلے میں بانہیں ڈال کر اس کو ٹالسٹائی کے جملے بولا کرتا تھا اگلے سال وہ میرے تنے سے لپٹ کر اس محبوبہ کی یاد میں جو اس کو چھوڑ کر ایک پولش کے ساتھ چلی گئی تھی دھاڑیں مار کر روتا تھا۔اس سے اگلے سال وہی روسی ایک جرمن دو شیزہ کا ہاتھ تھامے اس کو ٹوٹی پھوٹی جرمن سنا کر ہنساتا تھا اور اسکی ہر ہنسی میں اس کی زندگی کے ایک سال کا اضافہ ہوتا جاتا تھا۔
درخت خد مت خلق کے واسطے پیدا کیے گئے کہ چھاؤں دیتے ہیں ، پھول دیتے ہیں ، پھل دیتے ہیں، لکڑی دیتے ہیں لیکن اشرف المخلوق انسان ہی ہے۔ وہ آگے بڑھ کر خدمت خلق کر سکتا ہے۔ جس نے پھل کھانا ہو وہ خود چل کر درخت کے پاس آتا ہے جبکہ انسان وہ کنواں بننے کی طاقت رکھتا ہے جو خود پیاسے کے پاس جا کر اس کی پیاس بجھا سکے۔
میں نے اردگرد دیکھا ۔ میرے سمیت تمام درخت پتے چھاڑ چکے تھے۔ میں سوچنے لگا تابع فرمانی آسان نہیں ہےجس کو موقع ملے گا وہ فرار اختیار کرے گا۔ انسان چاہے تو بغیر پروں کے ہی پرندوں سے اونچی اڑانیں بھر سکتا ہے اور چاہے تو جمادات سے زیادہ ثابت قدمی اختیار کر سکتا ہے۔ ایک ایک کر کے مجھے وہ لوگ یاد آنے لگے جنہوں نے میرے نیچے ٹھہر کر اپنے ہم رازوں کو اپنی زندگی کی کہانیاں سنائیں تھیں۔ مجھے وہ برطانوی یاد آیا جو نا بالغ بچوں اور بچیوں سے زیادتی کیا کرتا تھا، مجھے وہ ہندوستانی سادھو یاد آیا جو مراقبے میں زمین سے تین فٹ اونچا اٹھ جایا کرتا تھا، مجھے وہ عرب حکمران یاد آیا جسکے خود کے پاس تو سونے کی کار تھی مگر اس کے ملک کی عوام بھوکی مر رہی تھی، مجھےجنوبی امریکہ کا وہ درویش صدر یاد آیا جس نے اپنا گھر بھی بیچ کر عوام کو دے دیا تھا، مجھے وہ پادری یاد آیا جس کی ہوس سے کوئی محفوظ نہ تھا، مجھے وہ نن یاد آئی جس نے پرائے ملک جا کر تمام عمر بیماروں کی خدمت کرتے گزار دی، مجھے وہ افریقی یاد آیا جو شیطان پرست قبیلے کا سربراہ تھا، مجھے وہ چند تنکوں داڑھی والا مشرقی ایشیائی یاد آیا جس کی زبان سے کوئی لفظ خدا کی عظمت بیان کیے بغیر نہ نکلتا تھا، مجھے پولش والدین کا وہ یہودی لڑکا یاد آیا جو اسرائیل میں رہتا تھا اور دیوار گریہ چھوڑ کر ہر سال مجھے گلے لگا کر رونے آتا تھا ، مجھے وہ پولش یاد آیا جو روسیوں کی حکمرانی کا غصہ اس تمام پارک کو اور اس کے درختوں کو آگ لگا کر نکالنا چاہتا تھا، مجھے وہ جرمن یاد آیا جو تین انسانی جانیں بچانے کی خاطر جلتی عمارت میں گھس گیا تھا، مجھے وہ ازبک یاد آیا جس نے خود کش دھماکہ کر بیس جانیں لے لی تھٰں۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ مجھے درخت رکھا، انسان جسکا ہر نیا روز ایک نئی زندگی ہے اور ہر نئی زندگی امتحانوں سے بھرپور ہے گزارنا آسان کام نہیں۔ میں نے آسمان کی طرف تکا ،برف باری آج کل میں ہوا چاہتی تھی۔ ہوا میں ٹھنڈک چیرتی سی گزرتی تھی۔ میں دوسرے درختوں کی طرح ٹنڈ منڈ ٹہنیاں پھیلائے پانچ مہینے کے ٹھنڈے عذاب کو سہنے کو تیار ہوگیا۔ہر سال پانچ مہینے کی سزا تمام عمر انسان بننے سے کہیں آسان ہے۔