Begam gerdi per saza- aik khabar
خبر: (زیورخ)سوئس خاتون معذور شوہر کوسیر و تفریح کے بہانے لے جا کر بھارت چھوڑ آئی جہاں ناکافی سہولیات کی بنا پر شوہر کی موت ہوگئی۔ عدالت نے خاتون کو بیگم گردی دکھانے پر چار سال قید کی سزا سنائی ہے۔
ہمارے نمائندہ عمومی یورپ "ب کھٹک" صاحب جو سفر نامے پڑھ پڑھ کر یورپ کے معاملات کے اتنے ماہر ہو چکے ہیں کہ گوگل اور وکیپیڈیا کی مدد سے کسی بھی ملک ، ملکی حالات اور ملکی افراد پر تفصیلی تبصرہ لڑھکا سکتے ہیں، اور چونکہ پاکستانی ہیں اس لیے بھارت سے بھی جان پہچان رکھتے ہیں اور بدقسمتی سے شوہر بھی ہیں تو تینوں امور پر گہری نظر رکھنے کے باعث انہوں نے بطور خاص ہمیں اس خبر کی تحقیقی رپورٹ بھیجی ہے۔چونکہ آج کل ہمارا میڈیا بھی بیرونی امداد پر بھروسہ کررہا ہے لہٰذا ہم بھی اس تحقیقی رپورٹ کو جوں کا توں شایع کر رہے ہیں۔ویسے تو کسی کی مجال نہیں جو ہماری مرضی کے بغیر ہمارے بلاگ پر ایک لفظ بھی شایع کر سکے لیکن پھر بھی لکھے دیتے ہیں کہ بلاگ ھذا کا مضمون سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ یعنی کسی کو اعتراض ہو تو کھٹک صیب کو پکڑے ہمارا کوئی لین دین نہیں۔
ویسے تو ہر وہ بندہ جو شادی کرتا ہے دماغی طور پر معذور ہی ہوتا ہے اور اگر نہ بھی ہوتو والدین کی زور زبردستی کا شکار بن کر شادی کے بعد دماغی معذور بن جاتا تو مندرجہ بالا خبر میں شوہر کو معذور لکھنا فقط اس کی مظلومیت کومزید اجاگر کرنا ہے حالانکہ صرف شوہر ہی لکھ دیا جاتا تو ہمارے دل غم سے بھر جاتے لہٰذا معذور شوہر لکھ کر مظلومیت کی انتہا ظاہر کرناہے جو کہ اخبار نویسوں کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ اپنی طرف سے معروضیت شامل نہ کرے تو اسکی روزی روٹی کیسے چلے۔ تو خود ہی دل میں محسوس کریں کہ ایک شوہر اوپر سے معذور۔ انتہا ہے ظلم کی اور کیا ہے۔
جہاں تک چھوڑ جانے کی بات ہے تو ایک شخص ایک پادری کے پاس گیا اور اعترافِ گناہ والے ڈبے کے پاس بیٹھ کر بولا پادری صاحب میری بیوی مجھے زہر دینا چاہتی ہے بتائیں کیا کروں۔ وہ بولے میں آپکی بیوی سے بات کرتا ہوں کل آنا ۔اگلے دن وہ گئے اور بولے کیا حکم ہے پادری صاحب؟ پادری صاحب فرمانے لگے کہ کل میں نے 2 گھنٹے آپکی بیوی سے بات کی ہے بہتر ہے آپ زہر ہی کھا لیں۔ چھوڑنے کی بات میں بھی شوہر ہی خوش نصیب ٹھہرے ہیں کہ قید شریک حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں اور شوہر صاحب نے موت سے پہلے ہی آزادی حاصل کر لی اور انکی موت میں سہولیات کی کمی کی بجائے اچانک خوشی کا عنصر زیادہ لگتا ہے۔کہ خوشی سے مر نہ جاتے گر وہ چھوڑنے کو تیار ہوتا۔جیسے ہی شوہر صاحب کو یقین آیا کہ وہ جیتے جی آزاد ہوگئے ہیں تو اسی وقت غش کھا کر گرے اور پھر اٹھ نہیں سکے۔اسی لیے کہتے ہیں کہ اتنی بڑی خوشی کی خبر آہستہ آہستہ سنانی چاہیے لیکن مسئلہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کون اتنے بڑے حوصلے والا لائے جو اتنی بڑی خوشی کی خبر سنا سکے کہ یہاں تو ہر شوہر گرفتار بلا ہے۔خطرہ ہے سنانے والا حسد میں آ کر کوئی ایسا ویسا کام نہ کر بیٹھے۔
لیکن بھارت چھوڑ کر آنا ہماری سمجھ سے بھی باہر ہے کہ یا تو وہ قصاب کے بُھلیکے میں چھوڑ آئیں کہ ہندوستان ہر ایرے غیرے کو پکڑ کر دہشت گرد قرار دے دیتا ہے جبکہ ہم پاکستانی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ انڈیا نے یہ اسکیم صرف اور صرف پاکستانیوں کی سہولت کے لیے متعارف کرائی ہےیا انکے شوہر صیب بھی ہمارے نوجوانوں کی طرح ہندی فلمیں دیکھ دیکھ کر بگڑ چکے ہوں گے اور شیشے میں اٹھتے بیٹھتے کنگھی کرتے خود کو شاہ رخ ،عامر اور اجے دیو گن سمجھنے لگے ہوں۔خواہ گھر میں کام کرنے والی ماسی سیدھے منہ بات نہ کرتی ہو لیکن خیالات ہی خیالات میں ایشوریا اور کترینہ کے ساتھ گانے فلمانے والی یہ مخلوق ہمارے ملک میں تو عام ہے یورپ میں البتہ پتہ نہیں لیکن یہ تو ہم بھی جانتے ہیں بہت سی گوریاں بالی وڈ کی رنگ برنگیاں دیکھ دیکھ کر دل ہی دل میں کافی آہیں بھرتی ہیں۔لیکن اس معاملے میں خاتون کی یا تو دلچسپی بھارتی فلموں میں نہیں تھی بلکہ ڈراموں میں تھی یا وہ پریم چوپڑہ اور شکتی کپور کی فلمیں دیکھتی تھیں تبھی ایسا گھٹیا پلاٹ بنایا۔
ناکافی سہولیات تو ہونا ہی تھا کہ غسل خانوں تک کا تو شدید قال ہے بھارت میں باقی سہولیات خاک ہوں گی اوروہ بھی ایک معذور کے لیے۔ایک بھارتی مزاحیہ فنکار جو اسٹیج پر ون مین شو کرتا ہے رسل پیٹرز خود کہتا ہے کہ جب میں پہلی بار ممبئی پہنچا تو جیسے ہی باہر نکلا میرا دل اپنے اصل وطن کی محبت سے لبریز تھا (وہ کینیڈا میں پیدا ہوا اور وہیں پلا بڑھا ہے) لیکن جیسے ہی جہاز کا دروازہ کھلا ایک ناقابل برداشت بو کا بھبکا اندر آیا اور میں نے پہلے اپنی شرٹ سونگھی پھر ادھر ادھر دیکھا پھر جاگرز کے تلوے دیکھے شاید ان پر کچھ لگا ہو لیکن بات کھلی کہ یہ خوشبو مادر وطن کی تھی بقول اسکے ایسا لگتا تھا کہ تمام ممبئی اسی ہوائی اڈے پر فراغت کے لیے آتا تھا- ویسے تو عرصہ دراز سے پاکستانی علاج کی خاطر بھارت جاتے رہے ہیں تاہم چین نے سستے مال کے ساتھ ساتھ سستا علاج بھی متعارف کرا دیا ہے جس سے اس بھارتی صنعت میں بھی زوال آیا ہے اور چین تو ہمارا برادر ملک ہے جبکہ انڈیا میں کرینہ کپور اور پریانکا چوپڑہ کی چکا چوند سہی اجمل قصاب اور افضل گرو کی پھانسی کا پھندہ بھی لٹکا نظر آتا ہے لہذا میرے جیسےبزدل چین کا رخ ہی کرتے ہیں لیکن جو قوم ڈنکی لگا کر یورپ جانے سے نہ رکتی ہو اسکو اجمل قصاب اور افضل گرو کیسے خوفزہ کر پائیں گے۔
ویسے تو بی بی قسمت کی دھنی ہیں کہ بھارت ہو کر آ گئیں اور عزت بچا کر واپس آ گئیں ورنہ آج کل تو وہاں یورپی سیاحوں کی عزت کی لوٹ سیل لگی ہے لیکن بکرے کی بیوی کب تک خیر مناتی آخر آ ہی گئیں شکنجہ میں۔ چار سال کی قید دلوا کر شوہر صاحب تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے ہیں۔ آج سے پہلے کبھی کسی بیوی کو سزا ملی ہو تو بتائیں۔غلاموں کی تجارت گناہ قرار پائی، کالے اول درجے کے شہری قرار پائے، تمام کالونیاں آزاد ہو گئیں لیکن آزادی نہ ملی تو شوہر کو۔اس چار سال کی سزا کو ایسے سمجھیے جیسے کرنل ڈائر کو جلیلانواں باغ کے بعد سزا سنا دی گئی ہو ، ہٹلر کو دوسری جنگ عظیم چھیڑنے پر قید کر دیا گیا ہو، امریکہ کو ایٹم بم پھینکنے کے تاوان بھرنا پڑا ہو،ہمارے کسی سیاستدان کو کرپشن کرنے پر ایمانداری سے نا اہل قرار دیا گیا ہو۔تو یہ کیس آنے والی نسلوں کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوگا کہ ظالم کو بھی آخر ایک دن جھکنا پڑتا ہے۔تمام انقلاب پسندوں ، آزادی کے حامیوں ، ظلم کے مخالفوں کو اس سزا سے تقویت پہنچے گی اور روح انسانی ایک نئے جذبے سے سرشار ہوگی۔
لیکن اگر ایمان کی کی جائے تو ہمیں اس بی بی سے ہمدردی ہے۔ اس بی بی کی مثال ایسی ہے کہ آسمان سے ایک کنکری گری اور 8 ارب کی آبادی میں اس خاتون کے سر پر آ لگی ۔قسمت کا ایسا دھنی تو فقط ہم ہی اپنے آپ کو سمجھتے تھے کہ جس شے پر تباہی پھیرنی ہو ہمارا سبز قدم رکھوا دیں۔ہمیں تو کبھی کبھی پاکستان کی بربادی میں سب سے بڑی یہی وجہ لگتی ہے کہ ہم یہاں پیدا ہوگئے ۔لیکن اب پتہ لگا ہے کہ ایک ہم پر ہی نہیں موقوف اور بھی مبارک لوگ پائے جاتے ہیں اس دنیا میں کہ تمام بیویوں نے اپنے شوہروں کو ذہنی طور پر معذور کر رکھا ہے اور وہ ہوئے یا نہیں ہوئے کم از کم بیویاں انکو ذہنی معذور ہی سمجھتی ہیں اور جس کا جتنا بس لگتا ہے وہ اپنے شوہر کو اتنا دور چھوڑ کر آنے کی کوشش کرتی ہےکوئی غسل خانے پھینک آتی ہے کوئی باورچی خانے کوئی دکان پر بھیج کر سکون سے بیٹھتی ہے کوئی بھاری خریداری کرکے ذہنی طور پر بھارت چھوڑ آتی ہے اور بیچارے تمام عمر وہی پڑے پڑے مر کھپ جاتے ہیں اور مرنےپر بولتی ہیں ہائے باجی اب برتن کون دھوئے گا، ہائے اماں کیا کھانا پکاتے تھے، ہائے اللہ اب مجھے کپڑے کون لے دے گا ،اب میرے بچوں کا کیا ہوگااور آج تک کسی کو سزا نہیں ہوئی کسی کو کسی نے سچ جھوٹ نہیں کہا ، کسی نے احتجاج بلند نہیں کیا اور بیچاری ان خاتون کو چار سال کی سزا سنا دی گئی۔سچ ہے بھائیو دنیا میں بڑی بے انصافی ہے۔۔۔
٭ایک اور خبر میں مشرقی یورپ کے ملک چیک ری پبلک میں ایک فارم سے ڈیڑھ ہزار چوہے چرا لیے گئے ہیں۔اب خدا جانے ان فارمی چوہوں پر ہمیں گھریلو شوہر کا شبہ ہوتا ہے یا کوئی اور معاملہ ہے۔جیسے ہی ہم نے دوسری خبر پڑھی ہے ہمارا دھیان بار بار پہلی خبر پر جا اٹکتا ہے۔