دسمبر 2011میں جب میں وارسا Warsaw میں رہتا تھا تب پہلی بار تالِن Tallinn آیا تھا۔ یہ سفر میں نے بذریعہ بس سے کیا تھا۔ وارسا سے تالِن جس بس میں گیا تھا وہ وارسا سے لیکر تالِن چار ملکوں کے ہر چھوٹے بڑے شہر رکتی گئی تھی۔ تب جوانی تھی گھومنے کا شوق تھا کام وام تھا نہیں اور پیسے جیب میں برائے نام ہوا کرتے تھے تو سفر بڑے شوق سے طے کیا تھا۔ تب ہر شہر بارے سوچتا گیا تھا کہ بس ایک بار سیٹ ہو جاؤں پھر دیکھنا یہ ایک ایک شہر گھوموں گا ویسے یہ ایک ایک شہر تو پاکستان کا بھی سوچا تھا لیکن آج تک وہاں کا خواب پورا نہیں ہوا یہ تو پھر یورپی خواب ہے جو یورو سے ہوروا ہوتا ہے اور پھر سیٹ ہونا بذات خود ایسی مبہم حالت ہے کہ مارک زرگ برگ بھی سوچتا ہے بس ایک بار سیٹ ہوجاؤں پھر فیس بک کی آمدنی خیراتی اداروں کو دے دوں گا۔
May 21, 2016
May 11, 2016
دور سبز اور آتشی رنگ کا زمین سے آسمان تک ایک ہیولا ناچ رہا تھا۔ جس منزل کی خاطر میں دوسری بار فن لینڈ آیا تھا اس کو دیکھ کر مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی۔ میں خوفزدہ ہو گیا۔ میں اس اندھیرے میں، رات کے اس لمحے، سمندر کی طرح پھیلے میدان میں اکیلا تھا، میرے ہمراہی دور خیموں میں تھے اور ایک جگنو کی سی روشنی مجھے ان کی سمت کی طرف بتا رہی تھی- میں کل ہی اورا یا شمالی روشنیاں دیکھنے ہیلسنکی سے اس دور دراز قصبے پہنچا تھا کہ یہ قدرت کا ایسا عجوبہ تھا جو کم ہی لوگوں نے دیکھا تھا اور میں بھی ان کم لوگوں میں شمار چاہتا تھا۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
May 1, 2016
ایک صاحب نے کچھ عرصہ پہلے فرمائش کی تھی کہ معذوروں کے بارے کچھ لکھوں۔ سنجیدہ موضوعات پر لکھنے سے ہم نے خود ساختہ معذوری اختیار کی ہوئی ہے لہذا ہم چپ رہے تاہم اب معذوروں کی ایسی قسم کے بارے لکھ رہے ہیں جو معاشرے میں تو بڑے اچھے مقام پر ہیں اور ان کی ہر جگہ منہ پر قدر بھی کی جاتی ہے لیکن ان کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے۔
اس تحریر کو شیئر کریں;