Tallinn main muft public transport
خبر: مشرقی یورپ کے ملک ایسٹونیا Estonia کے دارالحکومت تالِن Tallinnمیں پبلک ٹرانسپورٹ کو تالِن کے شہریوں کے لیے مفت قرار دے دیا گیا۔ شہریوں کے لیے ایسی سہولت اس سے قبل چند یورپی شہروں میں مہیا کی گئی تھی تاہم تالِن یورپی یونین ملکوں کا پہلا دارلحکومت ہے جہاں شہریوں کےشہر کے اندر سفر کا تمام خرچہ حکومت برداشت کرے گی۔
حد ہوگئی۔بندہ اپنا سر پیٹ لے۔یورپیوں نے کئی سال ہم ایشیا و افریقہ المعروف تیسری دنیا کے ممالک پر حکمرانی کی ہے پر مجال ہے جو کچھ سیکھا ہو۔جب انگریزسے ہم نے آزادی حاصل کی تو ہم عوام اتنے انگریز مخالف نہیں تھے جتنے افغان حکمران تھے جنہوں نے روسیوں کی بچھائی ہوئی پٹری تک اکھاڑ پھینکی کہ کافر کی یادگار ہے اور آج تک وہاں ٹرین دوبارہ نہیں چل پائی۔ اور ہمارے راہنما خواہ سیاسی ہوں یا سماجی ہوں وہ تو سب کے سب دل ہی دل میں انگریز سے شدید متاثر تھے کسی نے انگریزوں کی ذہنی غلامی قبول کی ،کسی نے امریکیوں کی مالی غلامی اپنائی تو کسی نے روسیوں کی فکری غلامی میں نام لکھوایا اور گورا صاحب کے جانے کے بعد انہوں نے کالا صاحب کا کلچر فروغ دیا جو آج بڑی عمدہ طرح رائج پا چکا ہے
لیکن خوش قسمتی سے یا بد قسمتی سےہمارے معاشرے پر اسلامی رنگ بھی خاصا چڑھا ہوا ہے اورعام عوام پر مولانا صاحب حکمرانی کرتے ہیں۔تو آخر الذکر رنگ کے لوگوں نے انگریزوں کی یادگاریں مٹانا شروع کیں۔ سب سے پہلے نام بدلنا شروع کیے اور ہر غیر مسلم عمارت، سڑک اور شہر کو مسلمان کرنا شروع کیا۔جب ساری مسلمان ہو گئیں تو ہمیں اس کی لت پڑ چکی تھی لہذا ہم نے اسکو مسلمانوں کے اس گروہ میں شامل کرنا شروع کیا جس میں ہم خود شامل تھے۔اس کی سب سے بہترین مثال بے نظیر دور کی ذولفقار ایکسپریس تھی جو نواز شریف کے آتے ہی دوبارہ تیز رو ہو جاتی تھی کوئی علی پور بنا تو کوئی شاہرائے صدیق قرار پائی۔
دوسرے نمبر پر ہم نے انگریزوں کے کاموں کو بگاڑنا شروع کیا۔ انگریز جب گیا تو کراچی میں ٹرام چلتی تھی کچھ سال اور رہ جاتا توہو سکتا ہےزیر زمین ٹرین بھی چلنا شروع ہو جاتی لیکن جلد ہی ہم نے ٹرام سے چھٹکارہ حاصل کیا کہ ایک تو کافر کی ایجاد تھی دوسرا عوام کا سہولیات سے کیا لینا دینا۔کل کو عادی ہو جاتےتو عوام کی آمدو رفت بھی حکومت کی ذمہ داری قرار پاتی اور ایک خطرہ یہ بھی تھا کہ شہر کے پھیلنے کے ساتھ اسکو پھیلانا پڑتا اور پھر دوسرے شہر والے بھی مانگتے کہ لاہور، راولپنڈی ،پشاور ، کوئٹہ میں بھی ٹرام کی پٹری بچھائی جائے۔ میٹرو جاری کی جائے، اندرون شہر ٹرین چلائی جائے۔
ویسے ہم اس زمانے کے حکمرانوں کی اس لحاظ سے ذہانت کے قائل ہیں کہ انہیں پتہ تھا کہ ہمارے ہوتے یہ حال ہے ملک کا تو بعد والوں نے تو کمال ہی کردینا ہے۔خود سوچیں اگر آج ٹرام چل بھی رہی ہوتی تو چلتی کس سے؟ بجلی سے؟ گیس سے؟ کوئلے سے؟ ڈیزل سے؟ ریلوے تو چلتی نہیں ریلوے چھوڑیں آج عام کار چلنے سے لاچار ہے ٹرام نے خاک چلنا تھا۔اور اگر ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہوئے یہ فرض بھی کر لیں کہ وہ جیسے تیسے دھکے سے یا ہوا سے یا آغا وقاری فیم پانی والی کِٹ سے چل رہی ہوتی تو حکومت نے ویسے ہی پابندی لگا دینی تھی کہ دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر موبائل، ڈبل سواری اور ٹرام پر پابندی ہے۔ظاہر ہے ٹرام میں دھماکہ ہو تو چالیس پچاس بندے تو لقمہ اجل بن ہی جائیں گے لہذا اس سے بہتر کیا پیش بندی ہو گی کہ نو من تیل ہی نہ ہو تاکہ رادھا کو ناچنے سے روکا جا سکے۔
اور کراچی والوں کی ٹرام کے ہوتے جان کو آجاتی تھی کہ آپ ٹکٹ لیکر بیٹھے ہیں اگلا اسٹیشنن آیا اور دو کلاشنکوف والے بندے آ گئے نکالو سارے دس دس روپے فلاں جماعت کا اسٹیشن ہے انکا بھتہ اوہ معاف کیجیے گا چندہ۔ اگلے اسٹیشن پر اور جماعت کے کارکن آتے اور آپکو ایک اور ٹکٹ خریدنی پڑ جاتی۔
حالانکہ تالِن میں ماہانہ پبلک ٹرانسپورٹ کی ٹکٹ تیس یورو کی آتی ہےکہ ایک بار لے لیں اور مہینہ بھر جس بس جس ٹرام پر سفر کریں جبکہ طلبہ اور بوڑھوں کے لیے یہ ٹکٹ صرف 7 یورو ہے پھر بھی مفت سفر ۔ہمیں اپنا ملتان میں گزارا گیا زمانہ طالب علمی یاد آگیا جب ہم جیسے چھوٹوں کا طالب علم کارڈ دیکھ کر بھی بس والے ٹکٹ وصول کر لیتے تھے اور اگر کوئی مہربان کنڈیکٹر آبھی جاتا تو کہتا چھت پر چڑھ جاؤ ۔جبکہ چالیس چالیس سال کے طالب علم کارڈ والے ہم نے اپنی نگاہ گنہگار سے دیکھے ہیں جنکو بس کنڈیکٹر صرف گندی نگاہوں سے ہی دیکھا کرتے تھے اور وہ ٹکٹ بھی نہیں لیتے تھے اور سیٹ پر بھی بیٹھتے تھے۔کنڈیکٹر کو پتہ ہوتا تھا پنگہ لیا تو کل اسی کالج کے سامنے انکے کالج میں پڑھنے والے بھتیجے بھانجے نہ صرف اسکو سبق سکھائیں گے بلکہ بس کا بھی پہاڑہ پڑھ دیں گے۔
ہمارا گاؤں کوٹلہ سادات ملتان میں واقع ہے جہاں کے آم مشہور ہیں اور ہر زمیندار نے باغ لگائے ہوئے ہیں ان سے اتنی آمدنی ہوجاتی ہے کہ وہ کچھ کاشت کیے بغیر سارا سال گزار لیتے ہیں۔اور کچھ پیسوں کی ضروت پڑ بھی جائے تو وہ تھوڑی بہت زمین بیچ کر کام چلا لیتے ہیں۔ان لوگوں میں بھیڑ چال بہت زیادہ ہےکیونکہ وہ بھی پاکستانی ہیں آخر۔ویسے تو تمام زمیندار آپس میں رشتہ دار ہیں کوئی قریب کا کوئی دور کا۔ایک کزن نے کرولا لی ہے تو دوسرے پر لازم ہے وہ بھی کرولا لے گا چاہے کچھ بھی کرنا پڑے۔جس زمانے میں نئے نئے ڈش انٹینے آئے تھے تو ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ہر گھر میں ڈش لگ گیا جس پر ایک بندے نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ الٹے کاموں میں ایک دوسرے کی کیسے تقلید کرتے ہیں کہ ایک نے ڈش لگوایا سب کے گھر لگ گیا لیکن مجال ہے جو اچھے کاموں میں ایک دوسرے کی نقل کریں۔ ایک بندے نے دیر سے پکنے والا آم لگوایا ہے مجال ہےجو کوئی اور لگوا لے۔ہمارے گاؤں کی یہ مثال ہمارے تیسری دنیا کےملکوں پر بھی صادر آتی ہے کہ مجال ہے جو کوئی اچھا کام سیکھ لیں۔ چین میں صرف بیجنگ میں 12مختلف لائن پر میٹرو چلتی ہے۔بھارت میں دہلی میں انڈرگراؤنڈ آ گئی لیکن ہم خراشیدیاں لگا سکتے ہیں تعمیری کام ہمارے بس کا نہیں-اگر تقلید کرنی بھی ہے تو الٹے کاموں میں۔افغانستان سے دہشت گردی میں مقابلہ چل رہا ہے، سارے جنوبی ایشیا سے مہنگائی میں مقابلہ چل رہا ہے، ساری دنیا سے کرپشن میں مقابلہ چل رہا ہے۔اور عوام بھی بیچاری کیا کرے۔ اب وہ منتخب نمائندوں سے تمام شہر کا پراجیکٹ مانگے یا اپنی چودھراہٹ بنانے کے لیے تھانہ کچہری مانگیں۔ تبدیلی کے خواہشمندوں کو ہمارے حلقے میں پچھلے انتخابات میں ایک ایک سرکاری نوکری دے کر راضی کیا گیا ہے۔لیکن خوشی کی خبر یہ ہے کہ وقت کے ساتھ امیدواروں کی نظر میں عوام کی اہمیت ضرور بڑھی ہے کہ پہلے جو ووٹ ایک ہزار کے عوض خریدا جاتا تھا اب دس ہزار میں بکتا ہے۔
تازہ ترین خبر یہ ہے کہ ایسٹونیا کا ہمسایہ ملک لیٹویا Latviaکے دارلحکومت ریگاRiga والے بھی سوچ رہے ہیں کہ پبلک ٹرانسپورٹ کو عوام کے لیے مفت قرار دے دیا جائے۔
واقعی ایسی بیوقوف قوموں پر سر ہی پیٹا جا سکتا ہے کہ مفت میں عوام کو سر پر چڑھا رہے ہیں۔