Aaghaz e safar
سفر وسیلہ ظفر ہے ۔ بہت عرصہ پہلے یہ بات سنی تھی لیکن سمجھ تب آئی جب ایسوں کو دیکھا جن کو یہاں کھانے کو مشکل سے میسر تھا اور باہر جا کر ان کے دن پھر گئے۔
لیکن ہماری قوم میں ایک اور عجیب چیز ہے۔ ہم ابھی شادی نہیں کرتے اور بچوں کے مستقبل کی فکر میں جمع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ شادی کے بعد تو گویا ہمیں دورہ پڑ جاتا ہے۔ اچھا گھر ہو، اچھا سکول ہو، اچھی تعلیم ہو، اچھا جہیز ہو، اچھا فکنشن ہو وغیرہ وغیرہ۔ ہم دوسروں کے سامنے ایسے ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہم ہمارے پاس قارون کے خزانوں سے بڑھ کر خزانے ہیں چاہے اس کے لیے رات کو ہمیں بھوکا ہی کیوں نہ سونا پڑے۔
یوں تو مجھے پاکستان میں بھی گھومنے کا شوق تھا اور میرا دل کرتا تھا یہ ویگن اڈے پر روز کسی شہر کو جانے والی ویگن میں سوار ہو جاؤں اور گھوم پھر کر شام کو واپس آ جاؤں لیکن کسی دوست نے اس خواری میں میرا ساتھ دینا قبول نہ کیا اور اکیلے جانے کی ہمت نہ پڑی۔ یورپ آنے کے بعد مجھے احساس ہوا سفر اور بھی بہت طرح وسیلہ ظفر ہو سکتا ہے۔ باہر جانے سے آپ کے دل و دماغ میں کشادگی آتی ہے، نئی چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں، نئے رواج پتہ چلتے ہیں، نئے لوگوں سے آشنائی پیدا ہوتی ہے۔
مجھے یاد ہے جب میں پہلی بار دوستوں کے ساتھ لاہور آیا تو تب پیس Pace نیا بنا تھا اور وہاں پر اوپر جانے کے لیے مشینی سیڑھیاں لگی تھیں تو میں نے اپنے دوست کو کہا یار دفع کرو نہیں جاتے اوپر مہنگا پلازہ ہے۔ جب کہ ہمیں کسی نے کہا تھا کہ اوپر کی منزلوں پر بھاؤ تاؤ ہوتا ہے۔ اس نے طعنہ دیا کہ ڈر لگتا ہے ان سیڑھیوں پر چڑھنے سے ۔ ڈر تو لگتا تھا کہ کہیں پاؤں سیڑھیوں میں نہ پھنس جائے لیکن عزت کا سوال تھا میں نے جواب دیا ڈرتی ہے میری جوتی جو کہ سچ بھی تھا اور ہم اوپر چلے گئے۔ دس ایک سالوں بعد ملتان میں پلازہ بنا چین ون ٹاور Chen one Tower کے نام سے تب تک میں یورپ پہنچ چکا تھا اور جب میں پہلی بار وہاں گیا تو میشینی سیڑھی کی ناقص کوالٹی پر حیران رہ گیااور جانے کے لیے مشینی سیڑھی اور آنے کے لیے عام سیڑھی پر بھی حیران رہ گیا کہ یہ کیا گنوار پن ہے۔
کہنے کا مقصد فقط یہ ہے کہ ہم کنوئیں کے مینڈک ہیں۔ سفر سے خوف دور ہوتا ہے اور ویسے بھی نئی نئی چیزوں کو اللہ میاں کی مخلوق کو اللہ میاں کے شہکار دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے۔
جب بھی پاکستانی فیملی کو کسی ہوائی اڈے پر دیکھتے ہیں تو آسانی سے پہچان لیتے ہیں کہ شوہر بیچارہ سامان ڈھو ڈھو پاگل ہورہا ہے۔ کہ کبھی ہم باہر نکلے ہی نہیں کہ پتہ ہو کہ سفر کیسے ہوتا ہے جبکہ آدھے سے زیادہ کپڑے بغیر پہنے ہی واپس آ جاتے ہیں۔ ہم تو گاڑی وہ پسند کرتے ہیں جس میں ڈکی بڑی ہو کہ بندے آئیں نہ آئیں سامان آنا چاہیے۔ادھر تو بھائی ایک ہینڈ بیگ قسم کا بستہ کمر پر لگایا اس میں دو شرٹ ڈالیں ، ایک کیمرے گلے میں لٹکایا جاگرز پہنے اور ہو گئی سفر کی تیاری۔ پہلے بھارتی بھی ہماری طرح ہی تھے کہ جو پیسے سفر پر لگائیں وہ کہیں اور خرچ نہ کر دیں لیکن اب بھارتی سیاح اکثر نظر آجاتے ہیں جن کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے ۔
ویزے کی بات کرتے ہیں تو یار نہ جائیں یورپ۔ ابھی بھی تیس سے زائد ممالک میں آپ بغیر ویزا یا باآسانی ویزا لے کر جاسکتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ سفر بڑا مہنگا پڑتا ہے جبکہ یہ آپ پر منحصر کرتا ہے کہ پانچ ستارہ ہوٹلوں میں نہ رہیں۔ کراچی سے دبئی کی ٹکٹ بیس ہزار میں ملتی ہے دوسرا سفر کوئی ہر ماہ تھوڑی ہوتا ہے سال میں ایک بار کا ہوتا ہے یہ تو۔
چلو یار چھوڑیں باہر نہ جائیں اپنا ملک تو گھومیں اب اس میں چیز حارج ہے؟ ہماری ملکی دوڑ بھی مری تک ہی ہے جس کا دل کرتا ہے مری پہنچ جاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ مری میں پیدل چلنے کی جا نہیں بچتی۔
انٹرنیٹ نے دنیا کو حقیقتاً ایک گاؤں میں بدل دیا ہے اور ہمیں اپنے ملک میں ایک نہیں ہو سکتے۔ یورپ امریکہ میں ایک سائیٹ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ آپ ایک نئی جگہ جا رہے ہیں آپ وہاں پوسٹ کر دیتے ہیں کہ بھائی میں پیرس آ رہا ہوں ۔ اگلے آپ کو فلیٹ بھی آفر کر دیتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک بندے کی جگہ ہے لیکن پوسٹ کرنے والے کہتے ہیں کہ بھائی رہوں گا میں ہوٹل میں آپ بس مجھے شہر دکھا دیں۔ نہ جان نہ پہچان آپ کو مفت کا مقامی گائیڈ مل جاتا ہے اور آپ شہر بھی گھوم لیتے ہیں یاری باشی سے بھی لطف اندوز ہولیتے ہیں اور واپس جا کر لکھ دیتے ہیں کہ فلاں بندہ بڑا مہمان نواز ہے یا اگر اس کے فلیٹ میں رہے تو کہ بھائی بندہ تو بڑا اچھا ہے پر اس کے صوفے میں کھٹمل بڑے تھے سونے نہیں دیا ساری رات۔
ایک ہم ہیں عجیب چکروں میں پھنسے ہیں، پاکستانی ہو کر پاکستانی نہیں مانتے ، مسلمان ہو کر مسلمان نہیں مانتے۔ اب ایسا کوئی پاکستان میں چل بھی پڑے تو پہلے ملاقاتی نے ہی گھر کا سامان ساتھ سمیٹتے جانا ہے اگر وہ کوئی باقاعدہ ڈاکو یا چور نہ بھی نکلا۔ اور اس مرحلے سے نکل بھی آئے تو ہمارا قومی مسئلہ جنسیت لازمی آ کھڑا ہوگا۔
کہتے ہیں کہ پرانی نسل نے ہماری درست خطوط پر تربیت نہیں کی چلو مان لیا کہ انہوں نے کچھ نہیں سکھایا تو جو باہر جا کر پڑھ رہے ہیں، پاکستان میں عمدہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا کر چکے ہیں کا تعلیم نے کیا بگاڑ لیا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کے بچے دنیا کے عمدہ ترین اداروں میں پڑھے ہیں ان میں اور ایک جاہل میں کیا فرق ہے؟ کہنے کا مقصد ہے کہ خود اصلاحی کریں تبھی یہ ملک اور اس میں رہنے والوں کی سوچ بدلے گی۔
یہ ہرگز نہ سمجھیں کہ کسی ٹریول ایجنٹ نے پیسے دے کر ہمیں یہ لکھنے کا کہا ہے کہ پیسے لینے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن کوئی دینے والا ملا ہی نہیں۔ بھائی اللہ میاں خود کہتے ہیں کہ ان کی زمین پر گھومو پھرو تاکہ ہم عبرت حاصل کر سکیں۔ تو بھائی نکلیں باہر جائیں اور باہر والوں سے اچھی چیزیں سیکھ کر آئیں مثلاً قانون کی پابندی، قطار بندی، اخلاق، کام کے وقت کام ، اور اس کو یہاں لاگو کریں۔ نئی زبانیں سیکھیں، اللہ میاں کی قدرت دیکھیں، پیار بانٹیں، مہربانی سے پیش آنا سکھائیں۔
پس تحریر: یہ تحریر ابتدائیہ سمجھ لیں کہ اگلے ہفتے سے یونان، لیتھوانیا، جاپان، مصر، فن لینڈ، پرتگال اور دبئی کے سفروں کا احوال پیش کروں گا۔ میری کہانیوں میں اعدادوشمار کی کمی ہوتی ہے وہ میں خود نہیں ڈالتا کہ اگر آپ کو شہر کی آبادی اور رقبہ ہی پڑھنا ہے تو وکی پیڈیا کیا برا ہے؟ دوسرا میں خود بھی بنا جانے گھومنے کا شوقین ہوں تو وہی آپ کے سامنے بھی پیش کرتا ہوں۔ بہت سارے واقعات جو ان سفر کے واقعات میں تحریر ہوتے ہیں لازم نہیں کہ وہ ایسے کہ ایسے ہی وقوع پذیر ہوئے ہوں بلکہ میں ان میں تھوڑا بہت مرچ مصالحہ تھوڑا کانٹ چھانٹ تھوڑا دماغ لڑا کر ایسا کر دیتا ہوں کہ آپ کو پڑھنے میں لطف آئے۔