June 21, 2012

محبت اور اسکے نتیجے میں لگنے والی سپلیاں

 mohabbat or us ke natejay main lagny wali supplian


یونیورسٹی میں داخلہ ایک تازہ ہوا کا جھونکا تھا گو یا ہماری زندگی میں۔ کیونکہ بی ۔اے کے پانچ سالہ محنت شاقہ کے دوران ہم روزانہ یونیورسٹی آتے اور اپنے دوستوں جو میرے اس پانچ سالہ سفر کے دوران ہر قدم پر ہمراہ رہے ماسوائے چند لمحات کے جب ہم میں سے کوئی منہ بولے بھائیوں کے نرغے میں پھنس گیا کیونکہ ہماری دوستی کا اصول رہا ہے
1۔جب لڑائی ہو جسکے جدھر سینگ سمائے ادھر دفع ہو جائے
2۔مار سے بچنے کے لیے آپ بھی دوسروں کے ساتھ ملکر اپنے دوست کو مار سکتے ہیں
3۔اگر آپ نے دوست کا ساتھ دیا ہے تو آپ کی اس بیوقوفی کو احسان نہی سمجھا جائے گا
4۔دوستوں کی ٹانگیں کھینچنا آپکا فرض ہے۔

چناچہ مندرجہ بالا شرائط پر تین کے علاوہ کوئی پورا نہی اتر سکا۔ہم روز یونیورسٹی آتے ۔سب سے پہلے تو اپنے مقدر کو کوستے کہ آخر پاکستان میں ہی کیوں پیدا ہوئے باہر کسی ملک میں پیدا ہوئے ہوتے تو اب تک نجانے کیا بن چکے ہوتے ،اسکے بعد یونیورسٹی والوں کو لعن طعن کرتے کہ چلو ہم تو بے شرم ہیں نہی پڑھتے انکو فیل کرتے بھی شرم نہی آتی آخر کوئی حد ہوتی ہے بے شرمی کی ایک بار دو بار تین بار ۔۔۔۔ہم من حیث القوم بے شرم ہوتے جا رہے ہیں۔اور آخر میں یہ وعدہ کرتے کہ جب بھی ہمیں موقع ملا یونیورسٹی میں داخلے کا تو اس قوم کی بیٹیوں کی خدمت کی حتی الوسیع کوشش کریں گے۔


پہلے ہی دن اپنی کلاس فیلوز سے بات کر کے میں ابن صفی کے اس جملے پر ایمان لے آیا تھا کہ ابھی کم از کم ہمارے ہاں مر د اور عورت میں ایک جوتی کا فاصلہ موجود ہے جسکی بعد ازاں میرے ہم نکاتی دوستوں مرزا لعل بیگ اور حضرت باطل خان نے بھرپور تائید کی اور ثبوت کے طور پر اپنے اپنے گالوں پر چسپاں سینڈلز ،چپلوں اور انگلیوں کے نشانات دکھائے جس نے انکی تین دن تک یونیورسٹی میں داخلے پر غیر اعلانیہ بندش لگا ئی ہو ئی تھی۔

یونیورسٹی کی زندگی بھی عجب تماشہ ہے ۔ایک طرف تو روزروز کلاس اٹینڈ کرو وگرنہ کوئی پتہ نہی کونسے استاد صاحب آپ کو کمرہ امتحان میں بیٹھنے سے روک دیں۔ ویسے تو یہ خیال مسحور کن لگتا ہے کہ چلو امتحان سے ابھی تو جان چھوٹی مگر تکلیف تو تب ہوتی ہے جب اگلی بار جونئیرز کے ساتھ بیٹھ کر پیپر دینا پڑتا ہے اور آپ کسی سے پوچھ بھی نہی سکتے کہ ہر کسی کی اپنی سیٹنگ setting ہوتی ہے دوسری طرف غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہوتا ہے تاکہ آپکی شہرت کے چرچے نو مینز لینڈ no men land تک پہنچ جائیں اور انکو پتہ چل جائے کہ مشتری ہوشیارباش ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں۔ہاں یاد رہے  نو مین no men کو براہ کرم نا مرد مت پڑھیے گا بلکہ یہاں استعما ل کا مقصد علاقہ نسواں ہے۔

تیسری طرف غریب ہوں یا امیر روز کا زبانی جمع خرچ، کنٹین کا بل اور دو فونز کا خرچہ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔دو فون سے مراد ایک انکا فون جنکو آپ بیلنس ڈلوا دیں گے اور جسکو وہ اوروں کو فون کرنے کے لیے استعمال کریں گے اور دوسرا آپکا فون جس میں آپ انکو فون کرنے کے لیے بیلنس ڈلوائیں گے۔ابھی یونیورسٹی انتظامیہ پریشان ہے کہ یونیورسٹی میں وارداتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔بھائی ایسی صورت حال میں تو دو ہی صورتیں بچتی ہیں یا خود کشی یا تم کشی ۔اب خود کشی تو بلا مقابلہ شکست والی بات ہوئی نہ تو اسی لیے تمام لوگ باہمت طریقہ اپناتے ہوئے تم کشی کا راستہ اپنا لیتے ہیں کیونکہ آپ نے سنا ہی ہو گا ’ہمتِ مرداں مددِ خدا‘۔
چوتھی طرف بد قسمتی سے آپکے ڈپارٹمنٹ میں کوئی ایسا استاد ہے ہے جو کلاس میں سوالات پوچھتا ہے تو آپکو کلاس میں ہوشیار بھی بیٹھنا ہو گا جسکو یار لوگ attentive بیٹھنا کہتے ہیں۔

ادھر اکثر کلاس فیلوز کی طرح ہمیں بھی پہلے ہی دن ایک لڑکی پسند آگئی تھی یعنی پہلے ہی دن ہم نے سپلی کی طرف ایک بھرپور قدم اٹھا دیا تھا۔لڑکی کی تعریف تو خیر کیا کریں اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی بات ہوئی بس یہ سمجھ لیں کہ پہلے ہی دن ہم کیا کلاس کے اکثر لڑکے زمین جنبد نہ جنبد گل محمد کی تفسیر بنے نظر آرہے تھے مگر ہوا وہی جو ایسے مواقع پر ہوتا آیا ہے فاختہ تو خلیل میاں کے حصے میں آئی اور ہمارے حصہ تو غالبؔ سے بھی بدتر تھا کہ نہ حسینوں کے خطوط نہ تصاویرِ بتاں جو تھا ہو درج ذیل ہے۔
۔لمبی لمبی آہیں
۔سیگرٹ کے بد مزہ کش
۔دل جلے اشعار
۔کلاس سے غیر حاضریاں
۔اگر کلاس میں آبھی جانا تو سب سے پیچھے بیٹھ کر سونا
۔حسرت و یاس
۔ایک شخص کو بھولنے کے لیے ایک اور شخص کی اشد طلب
۔بیشمار سپلیاں

زرا سوچیں ایک گھنٹہ مسلسل محنت کے بعد تیار ہو کر جب آپ یونیورسٹی پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ کی منزل ،مقصود کے ساتھ ٹہلتی ہوئی جا رہی ہے آپ ہی بتائیں خاک پڑھنے کا دل چاہے گا میں پوچھتا ہوں کون کافر اِس صورت حال میں کلاس attend کرے گا اوپر سے ہمارے دوست احباب اور کلاس فیلوز جنکی حرکات اکساتی ہیں کہ بندہ بنواس لے کر جنگلوں میں ہی نکل جائے کہ نہ کہیں جنازہ اٹھے نہ کہیں مزار ہو۔

ابھی کل ہی کی بات ہے میرے ایک دوست جنکو آپ بگلہ بھگت سنگھ ہی سمجھ لیں آکر کہنے لگے کہ آج تیرے بھائی نے بڑی  کھپ ڈالی ہے۔میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو جو بد قسمتی سے ساتھ ہی بیٹھا تھا گھورتے ہوئے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگے کہ بس لڑکیوں کے پیچھے جا رہا تھا کہ ایک بندے نے پوچھا بھائی کیا گھر ہی چھوڑ آؤ گے تجھے تو پتہ ہے تیرا بھائی منہ پھٹ ہے اس نے فَٹ سے کہا کمینے تیرے پٹرول سے تھوڑا جاؤں گا.میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بھائی کے منہ پر زوردار طمانچہ رسید کر دیاواہیات ! اپنے خاندان کی عزت کا خیال نہ رہا تجھے میں مر گیا تھا جو تو نے ایسے کام شروع کر دیے تو نے۔اب بی ۔اے کے پانچ سالہ پروگرام کے دوران ایک تو میرا چھوٹا بھائی مجھ سے سینئر ہو چکا تھا اوپر سے سرِ عام بے عزتی وہ تو ششدر رہ گیا ادھر بگلہ صاحب فرمانے لگے یار میں تو اپنی بات کر رہا تھا تو نے بھائی کو کیوں مارا؟اوہ خدا۔۔۔۔۔۔۔ اب ایسے بھائی نما دوستوں کا کیا جائے اور بھائی کو منانا ایک اور کہانی ہے کہ فیل ہو ہو کر گھر میں اسکی بات کہ اہمیت زیادہ تھی ظاہر ہے مگرمچھ سے بیر تو نہی رکھا جا سکتا نا۔

جب میرے کلاس فیلوز شکارِ محبت ہوتے تو مجھے سب سے زیادہ حیرانگی اس بات پر ہوتی کہ یہ لوگ گھر والوں سے یہ بات کیسے چھپاتے ہیں یا یہ کہ انکے گھر والے اس بات کو برا نہی جانتے مگر اپنی قسمت اتنی اچھی ہوتی تو بی۔اے کے پہلے سال ہی پاس نہ ہو جاتے؟جناب ایک تو زمانہ اتنی ترقی کر گیا ہے کہ آپکو کامیاب ہونے کے لیے اس کے ساتھ ساتھ دوڑنا پڑتا ہے ورنہ ۔۔۔

ایک وقت تھا کہ ہمارے بڑے بھائی صاحب یاروں دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر یوں گفتگو فرماتے تھے’سلمی پرندے اڑاتی ہے‘گھر والے سمجھتے کہ ٹرانسلیشن translation ہو رہی ہے مگر ہمارے دل میں کہیں شک کا سانپ ضرور سر اٹھاتا کہ ہو نہ ہو کسی سلمی صاحبہ کی بات ہو رہی ہے۔اب کل کی بات ہے میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ بھئی اگر 40 میں 42 جمع کر دیں تو کیسا رہے گا؟اور ہاں 6,19 اور 22 پر بھی نظر رکھنا۔بس دوست کے سامنے ہی ہماری اماں نے ہماری عزت افزائی چالو کر دی بدتمیز،بے حیا خاندان کا نام اچھالتے شرم نہی آتی خبردار آج کے بعد یہ کلموہے دوست گھر میں داخل ہوئے تو۔ہم سمجھے کہ چھوٹے بھائی صاحب نے اپنا بدلہ اتارا ہے۔ٹھیک ہے کہ رولنمبر کوڈورڈ ہیں مگر ریاضی والے کہاں جائیں؟

قصہ مختصر جب ہر طرح کے جتن کرنے کے بعد بھی دالِ محبت نے گلنے سے انکار کر دیا تو ہمارے سامنے فیصلے کی گھڑی آن پہنچی۔اب ہم کو ایک راستہ چننا تھا ایک تو یہ تھا کہ چپ چاپ کڑوا گھونٹ پی جائیں اور سب کچھ بھلا کر اچھے بچے بن کر شریفانہ زندگی گزارنا شروع کر دیں اور با آوازِ بلند سب کے سامنے ’اس بے وفا‘ کو بہن تسلیم کر لیا جائے مگر اس موقع پر حضرت مولانا جنید جمشید صاحب کا نغمہ شریف یاد آگیا جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ’یاریاں،جو بھی چھوڑ کے چلے جاتے ہیں انہیں نیند کیسے آتی ہو گی؟‘ لہذا یہ رسک نہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہم نے یہ راستہ چننے سے انکار کر دیا بھلا اتنا نیک شخص بھی جھوٹ بول سکتا ہے کیا؟

نیند کو ترسنے کی بجا ئے  ہم نے دوسرا راستہ دیکھا اور وہ راستہ تھامحبت میں فنا ہونے کا،حضرت مجنوں اور میاں رانجھے کا جس کا حاصل حصول محض ایک لوک داستان میں آپکا نام بطور ناکام عاشق لکھا جاناتھاپر کچھ دن قبل ہی ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ اردو اپنے اختتامی دور میں ہے تو ہم نے سوچا جب تک ہما را نام اور کہانی سب کے لبوں پر آئے اردو ہی متروک ہو چکی ہو جسکو ہماری قسمت کے سابقہ ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے بھرپور توقع تھی تو ہماری کہانی اور ہم نے کیا خاک مشہور ہونا تھا؟لیذا فیصلہ کیا گیا کہ فنائی عاشقوں کی لسٹ سے چھیڑ چھاڑ نا مناسب ہو گی۔ 

اب ہمارے سامنے ایک ہی راستہ بچا تھا یعنی تیسرا اور آخری راستہ ۔اس راستے کو آپ محبت میں فنا کرنے کا راستہ بھی کہہ سکتے ہیں۔اس پر خطر راہ پر چلنے کے واسطے ہم کو لاکھوں جتن کرنے پڑے،سب سے پہلے تو بال لمبے کیے گئے اور انکو نہ دھونے کا خصوصیت سے اہتمام کیا گیاپھر ایک ہاتھ میں قلم بطور لکھاری اور دوسرے میں سیگرٹ دل ٹوٹنے کے ثبوت کے طور پر رکھے گئے اور کلاس میں جاگتے ہوئے سونا سینکڑوں کی تعداد میں دل جلے اشعار یا د کیے گئے اور سب سے آخر میں اس گم کو سینے سے لگا کر شاعر بننا پڑا۔یار لوگ بخوبی جانتے ہیں ایک ایک شعر کہنا ایک بچہ جننے سے کم نہی تو اس حساب سے آپ ہمارا درد محسوس کر سکتے ہیں کہ روز کم از کم ایک پانچ اشعار کی غزل تو ہو ہی جاتی ۔چلو شعر کہنا تو بچہ ہونا ہوا اور جب کوئی شعر نہ سنے تو پھر جو حالت ہوتی ہے وہ تو قابلِ بیاں ہی نہی بس یوں سمجھئے کسی نوجوان لڑکی کا سہاگ اجڑ گیا ہو۔

اب ہما ری روٹین یہ تھی۔آٹھ بجے کلاس،کلاس میں اگر استاد صاحب سخت نہ ہوں تو جاگتے جاگتے سو جانا وگرنہ ہوشیار رہنے کے لیے پرچیاں چلانا لطیفوں والی پرچیاں لڑکوں اور اپنے ذاتی دل جلے اشعار والی لڑکیوں کی طرف ارسال کرنا اور جس دن کلاس میں حاضری محسوس نہ کرنے والے استاد ہوں اس دن پہنچنا ہی 11؍بجے۔11 ؍بجے کنٹین پر لڑکوں پر حتی الوسیع کم سے کم اور لڑکیوں پر زیادہ سے زیادہ خرچہ کرتے ہوئے علم، ادب، فلسفہ، سیاست ، دنیا کی بے ثباتی غرض ہر موضوع کو زیرِبحث لانااور ایسی ایسی دقیق باتیں کرنا جو آپ کو بھی سمجھ نہ آتی ہوں۔2؍ بجے سو جانا۔5؍ بجے کرکٹ ،ہاکی،فٹبال غرض کسی بھی کھیل میں حصہ لینا چاہے کھیلنا آتا ہو یا نہی۔7؍بجے دوستوں سے خوش گپیاں کرنا تاکہ دماغ تر و تازہ رہے۔9؍بجے اگر کوئی مشاعرہ ہے تو وہاں جانا وگرنہ دردِ شعر کی اذیت سے گزرنا۔

سمسٹر سسٹم میں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہی چلتا اور آخر کار امتحان کی گھڑی سر پر آن پہنچتی ہے۔قدرت نے ہماری قسمت میں مزید آزمائش لکھی تھی اور پہلے پیپر سے پچھلے چار دنوں میں چھ مشاعروں میں جانا پڑ گیااور آنکھ تب کھلی جب پیپر ہاتھ میں تھا۔کچھ شناسا اور کچھ انجان الفاظ سامنے دیکھ کر گھگی بندھ گئی اور ہم پر افشا ہوا کی شعر کہنے سے بھی ایک مشکل کام ہے دنیا میں ۔بہرحال کچھ عشق کیا کچھ کام کیا والا فیضؔ صاحب کا فارمولا آزماتے ہوئے کچھ نقل کی کچھ اپنے قیمتی خیالات کی ترجمانی کی کوشش کی کچھ انتہائی چھوٹے خطِ تحریر کا تڑکا لگا یا کہ استا د کو یہ بھی شک پڑے کہ یہ شاہ مکھی ہے یا گورمکھی خطِ تحریر، اردو ہے یا انگریزی ۔مگر صاحب جب قسمت میں ہی قید لکھی ہو فصلِ بہار میں تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔بھلا نصیب سے جھگڑا ممکن ہے؟

فیل ہونے کا سچی پوچھیں تو اتنا خاص افسوس نہ ہوا کیونکہ یہ تو ہمیشہ ہی ہوتا آیا ہے ہمارے ساتھ اور ہمارے گھر والوں اور ہم کو اسکی پہلے سے یی امید تھی اور اب تو ہم عادی ہو چکے تھے اس بات کے مگر جو اصل افسوس کی بات ہے وہ یہ کہ اس پتھر پر جونک تک نہ رینگی جونک تو جونک اس سے کوئی اور چھوٹا کیڑا بھی نہ رینگا لگتا ہے اس ظالم نے بورڈ لگا ہو تھا tress passing is not allowed ۔ اور ہم دل میں یونیورسٹی کی پہلی محبت کی ٹیسیں ،اسکی بے وفائی،دوستوں کی نادانی،گھر والوں اور بھائی کی بے اعتنائی ،محبت اور اسکے نتیجے میں لگنے والی سپلیوں سمیت دوسرے سمسٹر کو سدھار گئے۔