June 1, 2012

حسن کی تعریف میں

Husn ki tareef main

فٹ بال کے شائقین جانتے ہوں گے کہ چند دن بعد ہی یورو کپ شروع ہونے لگا۔ اس دفعہ اس یورپی ملکوں کے ٹورنامنٹ کے مشترکہ میزبان پولینڈ اور یوکرائن ہیں۔

اسی سلسلے کا ایک اشتہار ہماری نظر سے گزرا جس میں مزاحیہ انداز میں ولندیزی یعنی ڈچ Dutch یا ہالینڈی خواتین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ یورو Euro کی غرض سے یوکرائن Ukraine  سفر کرنے والے اپنے شوہروں پر نظر رکھیں کیونکہ یوکرائنی خواتین اپنے حسن میں بے مثال ہیں اور دل لبھانے سے سارے گروں سے بخوبی واقف ہیں۔لہذا یورو سے واپسی پر عین ممکن ہے کہ شوہر کے ساتھ ایک یوکرائنی خاتون بھی آجائے یا شوہر کی بجائے ایک خط آجائے کہ گلشن کا خدا حافظ۔

یوں تو اس اشتہار پر ہالینڈ کی بیویوں کو احتجاج کرنا چاہیے تھا کہ ان کے حسن و خوبی اور رنگ و خوشبو کو ٹکے ٹوکری کر دیا گیا ہے لیکن حیران کن طور پر یوکرائنی وزارت خارجہ نے احتجاج کیا کہ انکی خواتین کی توہین کی گئی ہے۔جبکہ ہمارا اس سارے معاملے پر موقف یہ ہے کہ اگرچہ  اس" دل لبھانے کے سارے گر " سے نا واقفی کے باوجود ہماری ساری ہمدردیاں اشتہار بنانے والوں اور ہالینڈی شوہروں    کے ساتھ ہیں کہ بندہ حسن کی تعریف بھی نہ کرے؟ لگتا ہے کبھی یہ پاکستانی مرد حضرات سے نہیں ملے جو آنکھوں ہی آنکھوں میں ایسی تعریف کرتے ہیں کہ دیکھنے والے کو پسینہ آجاتا ہے کجا تعریف کروانے والی بیبیاں۔

جب ہماری شامت آئی تھی اور ہم نے انجینئر بننے کے شوق میں پنڈی میں داخلہ لیا تھا تو ہماری ایک ہفتے تک محیط فولنگ Fooling میں جس جس کو پتہ چلتا کہ ہم ملتان سے ہیں تو وہ پہلا سوال یہ پوچھتا ملتان کی کیا چیز سب سے زیادہ مشہور ہے۔اور ہم جواباً آم اور سوہن حلوے پر ہی مصر رہے تو آخر کار ہر سینئر کو جاتے وقت ہمیں بتانا پڑتا کہ بھائی ملتان کی اصل مشہور شے لڑکیوں کا حسن ہے۔

پر میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ یہ ایسے ہی ہےکوئی ملتان میں لاہور کےمشہور دہی بھلے کی دوکان کھول لے اور لاہور میں کوئی اس بندے کو جانتا ہی نہ ہو۔ایسے ہی ہمارا ملتان کے حسن کے بارے خیال ہے کہ یہ بس یار لوگوں کی چھوڑی ہوئی گپیں ہیں۔

پولینڈ میں ہمارے ساتھ چند یوکرائنی لڑکیاں بھی پڑھتی تھیں پر ہم نے انکا نام خون آشام چمگادڑیں رکھا ہوا تھا کہ خوبصورتی تو دور کی بات وہ کسی ڈریکولا والی فلم میں بغیر میک اپ میں ہی چھوٹی موٹی ڈریکولی کا رول بخوبی سر انجام دے سکتی تھیں۔اب یہ بھی ممکن ہے کہ بات کرنے پر ہی کاٹ کھانے کو دوڑنے پر ہم نے انکا یہ نام رکھ چھوڑا ہو اگر انکا ہم سے سلوک اچھا ہوتا تو شاید ایسا نہ ہوتا۔

لہذا اس اشتہار پر یوکرائنی وزارت خارجہ سے زیادہ ہمارا احتجاج بنتا ہے کہ ہم کوئی روسی ایجنٹ تھے جو ہمیں کسی نے لفٹ نہیں کرائی ۔ہاں اگر کوئی یوکرائنی لڑکی اچھی لگی ہے تو وہ ہے یولیا تیموشنکو Yulia Tymoshenko ہے ہوسکتا ہے کہ  اوپر دی گئی تصویر دیکھ کر آپ کہیں مجھے وہ نہیں اسکی وزارت عظمیٰ کی کرسی اچھی لگی ہے تو میں اس معاملے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔

اب جہاں تک ہماری حسن پسندی کا عالم ہے تو ہماری پسند تو وہ ہے جو ہنس کر ہم سے بات کرلے اب خواہ وہ افریقہ کے ہٹنگا مٹنگا قبیلے کی کالی کلوٹی چار شیزہ (موٹی دوشیزہ) ہو یا کوہ قاف کی نیلم پری ہو۔لہذا ہماری اس حسن کی کسوٹی پر کم کم ہی لڑکیاں پوری اتری ہیں اور کیا گوری کیا کالی کیا سانولی سب نے ہمیں ایک ہی لاٹھی سے ہانکا ہے اور ہمیں دیکتے ہی لڑکیوں کا موڈخراب ہوجانا اب عام سی بات ہوگئی مختصراً اکثر لڑکیوں نے ہمیں ہماری اوقات میں ہی رکھا ہے۔

اسی وجہ سے اب ہم ظاہری حسن پر یقین نہیں رکھتے  کہ کسی کو لمبی ناک پسند ہے کہ ہمیشہ اونچی رہے  تو کسی کو چھوٹی ناک  کہ صفائی میں آسانی رہے، کسی کو لمبے بال پسند ہیں گویا اس نے بال پر چڑھ کر بلب لگانے ہیں کسی کو چھوٹے بال کہ شمپو کی بچت ، کسی کو لمبی آنکھیں پسند ہیں کہ کبھی کبھی ڈوب مرنے کو چلو بھر پانی بھی نہیں ملتا اور کسی کو چھوٹی چھوٹی آنکھیں کہ دیکھنے سے بھی قاصر ہوں۔گویا ہر جتنے منہ اتنی باتیں۔

پر ہم نے کئی بار پڑھا ہے اور اس پر ایمان لے آئے ہیں کہ  کئی ٹرکوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے کہ ہر چہرہ کسی کا محبوب ہوتا ہے اور ہر بار پڑھ کر لگتا ہے کہ یہ ہماری ہی تسلی کے لیے لکھا گیا ہے لیکن یار دوست باز نہیں آتے اور بار بار پوچھتے ہیں کہ صیح صیح بتائو ناں کہ آپ کو کسی لڑکیاں اچھی لگتی ہیں توآج ہم یہاں لکھے دیتے ہیں کہ کوئی ہم سے نہ پوچھے اور نہ ہی کوئی دوست اپنے معیار پر پورا اترتی لڑکی کی طرف ہمیں متوجہ کرنے کی کوشش کرے کیونکہ  ہمارے نزدیک حسین ہونے کی دو شرائط ہیں

نمبر 1 عینک لگاتی ہو

نمبر 2 بال گھنگریالے ہوں

درج بالا خوبیوں کی بنا پر ان لوگوں میں شامل ہیں جنکے یوکرائن جا کر یورو دیکھنے میں انکے گھروں میں کسی ٹورنامنٹ کے منعقد ہونے کا امکان نہیں۔