Cricket team main mutakhib hona or Xe Khasiat (X-factor) ka paya jana
چھوٹے ہوتے ایک ٹی وی پروگرام میں انور مقصود نے معین اختر مرحوم سے جو سلیکشن کمیٹی کے ممبر بنے ہوئے تھے پوچھا "شعیب محمد" کو کیوں نہیں ٹیم میں چنا گیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس میں چند خامیاں ہیں
ایک تو وہ بلے بازی عمدہ کرتا ہے
دوسرا وہ گیند بازی بھی اچھی خاصی کر لیتا ہے
تیسرا اس کی فیلڈنگ تو لاجواب ہے۔
اور تو اور کیپر ان فٹ ہو جائےتو وہ وکٹ کیپنگ بھی کر لیتاہے۔
اس وقت مذاق میں کہی ہوئی بات آج بھی ہماری سلیکشن کمیٹی پر لاگو ہوتی ہے
یوں تو اگر یہی ٹیم میں منتخب ہونے کا معیار یہی ہے تو اس پر ہم سے زیادہ کوئی نبہیں پورا اترتا کہ ہماری بلے بازی اندھی کانی ہے گیند بازی گزارے سے بھی کم تر ہے فیلڈنگ میں گیند ہمارے ہاتھ میں آنا ہمارے سے زیادہ گیند کے اختیار میں ہوتا ہے لیکن شاید اس ملک میں میرے جیسی خاصیتیں رکھنے والے اور بھی کھلاڑی پائے جاتے ہیں اور ان کے پاس کچھ تو میرے سے بھی خاص ہے تبھی وہ ٹیم میں بٹیرے پکڑ رہے ہیں اور ہم بلاگ سپاٹ پر ۔
جب عامر پر سٹے بازی کا الزام لگا تو بہت سے لوگ اس کی حمایت میں بولنے لگے کیونکہ وہ اسکی صلاحیتوں کے معترف تھے۔ یوں تو میرے خیال میں بھی وہ بہت عمدہ گیند باز تھا لیکن سٹے بازی جیسے قبیح فعل میں مبتلا ہونا اتنی بری بات نہیں جتنی کہ پکڑے جانا اور اور پھر تسلیم کرلینا تو میرے خیال میں عامر پر ہمیشہ کے لیے کرکٹ کے دروازے بند کر دینے چاہییں۔اس بات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس نے گلی محلے میں کرکٹ کھیلی ہے وہ اس بات سے اتفاق کرے گا عامر جیسے یا عامر جیسی صلاحیت رکھنے والے باؤلر پاکستان میں ڈھونڈنا کوئی ایسا مسئلہ نہیں مگر اصل بات نیت کی ہے ۔
لیکن جیسا میں اوپر لکھ چکا ہوں آج کل ٹیم میں منتخب ہونے کے اوپر بتائی گئیں تین صلاحیتیوں کے علاوہ ایک چوتھی خاصیت بھی چاہیے جس کو انگریزی ایکس فیکٹر کی مناسبت سے ہم اردو کی "ژ" خاصیت کہیں گے۔
سب سے پہلی ژ خاصیت ہمارے سب کے پسندیدہ کھلاڑی شعیب ملک میں پائی جاتی ہے۔ اگر شعیب ملک کو بھارتی ٹیم میں منتخب کیا جاتا تو بات بھی تھی کہ چلو ثانیہ مرزا بی بی اس کی سفارش کر دیتی ہوں اور بھارت کی پہلی مشہور خاتون ٹینس اسٹار ہونے کے ناطے ملک صاحب کو رعایت مل جاتی ہو لیکن پاکستان میں ملک صاحب کا بار بار منتکب ہونا سمھ سے باہر ہے ۔لہذا کسی مشہور شخصیت سے شادی کرنا بھی آُپ میں ژ خاصیت پیدا کرسکتا ہے ویسے مجھے تو لگتا ہے یہ اپنے شعیب ملک کی حب الوطنی ہے کہ وہ پاکستان کی طرف سے ہی کھیل رہے ہیں ورنہ ان کی ژ خاصیت سے کچھ بعید نہیں وہ ان کو ہندی کرکٹ ٹیم میں بھی شامل کرا سکتی ہے۔
ویسے ٹیم میں شامل ہونے کے لیے مطلوبہ ژ خاصیت پانے کے دو طریقے اور بھی ہیں ایک تو دعا کریں کہ آپ کے ابو، بھائی ، چچا، ماموں کرکٹ بورڈ کے صدر منتخب ہو جائیں جو کہ حالیہ کرکٹ بورڈ کے صدور کی تبدیلیوں کے بعد کوئی ایسی خارج از امکان بات نہیں دوسرا قربانی دے کر کسی سلیکٹر کی بیٹی سے شادی کرلیں پھر آپ کے وارے نیارے۔ کوئی مائی کا لعل آپ کو نکال کر دکھائے پھر۔ اولین صورت میں تو آپ کپتان بھی بن سکتے ہیں جو کہ آپ کے اس رشتہ دار کی طبعییت پر منحصر کرتا ہے جو سربراہ ہے کہ وہ آپ سے کس شدت سے محبت کرتا ہے اور پاکستان کی نیک نامی سے کس قدر۔
دامادی والی ژ خاصیت میں آپ کا مستقل کھیلنا طے ہے خواہ آپ کو سلپ پر کیچ نکالنے کے علاوہ کوئی اور شاٹ نہ کھیلنا آتی ہو۔
پاکستانی کرکٹ میں ایک ژ خاصیت برادرز اینڈ برادرز میں بھی پائی جاتی ہے۔ بلکہ ان کو تو برادرز اینڈ اونلی براردرز کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔اچھے تعلقات بڑے کام آتے ہیں اور ایسے کام آتے ہیں کہ بڑے بھائی اگر بادل نخواستہ ڈراپ ہو بھی جائیں تو ان کی جگہ چھوٹے دو بھائی ہی رہتے ہیں گویا گھر کی چیز گھر میں رہتی ہے لیکن سوال طلب معمہ میرے لیے وہ تعلقات ہیں جن کی بنا پر آپ یا آپ کے بھائیوں کے علاوہ کوئی وکٹ کیپر سارے پاکستان میں نہیں ملتا۔
اسٹار چائلڈ صرف فلم انڈسٹری میں نہیں بلکہ کرکٹ انڈسٹری خاص طور پر پاکستان میں بھی خوب چلتا ہے۔آپ کے ابا جان نے جو ایک آدھ ٹسٹ یا ون ڈے کھیل رکھا تھا اس حیثیت کی بنا پر اتنا تو آپ کا حق بنتا ہے کہ آپ کو بین الاقوامی میچ کھیلایا جائے یا ٹیم کے ساتھ سیر کرائی جائے۔انڈر 19 یا اے ٹیم میں تو شامل ہونے کا یہ سب سے آسان طریقہ ہے۔ایسے کھلاڑیوں کے بچوں کو نئے اداکاروں اور نئے کھلاڑیوں کی طرح کرکٹ کلب، کرکٹ کے میدان کے بار بار چکر نہیں لگانے پڑتے، ایسے کھلاڑی سارا سارا دن دھوپ میں ٹھہر کر گیندیں نہیں جمع کرتے بلکہ آغاز سے ہی انکی توجہ اپنے کھیل پر ہوتی ہے کہ ٹیم میں پوزیشن تو پکی ہے جیسے کئی ڈائریکٹر سابقہ تعلق کی بنا پر فوراً ہی ہیرو کے بیٹے کے ساتھ فلم بنانے کا اعلان کر دیتے ہیں ایسے ہی چھوٹے کے میدان میں قدم رکھتے ہی ان کو پہلی بار میں جگہ مل جاتی ہے۔
یوں تو ٹیم میں شمولیت کے لیے پائے جانے والی ژ خاصیت اور بھی ہے لیکن وہ خواتین کرکٹرز میں ہی پائی جاتی ہے۔ مرد کرکترز کے لیے بھانڈہ پھوڑنے والے اور پھوٹنے والے دونوں کے لیے شرم کا باعث ہے لیکن گمان ہے کہ شاید اس سے کام چل سکتا ہو کہ پاکستان میں ہر شے ممکن ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملتان کرکٹ کلب، مولوی سلطان عالم انصاری، خواتین کرکٹر اسکینڈل گوگل پر تلاش کرلیں۔
سنا تھا پیسہ خود بخود آپ میں یہ "ژ" خاصٰت پیدا کردیتا ہے اور آپ کی صلاحیت سلیکٹرز کو دور سے دکھ سکتی ہے کہ چھوٹ سچ الزام لگانے والے کا کہ ایک سیلکٹر صاحب پیسے لے کر نئے کھلاڑیوں کو برطانیہ جانے والی کسی بھی ٹیم کے ساتھ روانہ کر دیا کرتے تھے اس طرح اس اسپوڑت ویزے پر وہ باعزت طور پر برطانیہ جا کر کام کر سکتا تھا۔
ایک اور ژ خاصیت سیاست بھی ہے کہ ہمیں بسا اوقات حیرت ہوتی ہے کہ ہماری کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی سیاست میں کیوں نہیں آتے یا سیاستدان کرکٹ ٹیم میں کیوں نہیں آجاتے کہ جو سیاست ہماری کرکٹ ٹیم کے پولین میں چلتی ہے وہ تو ہماری قومی و علاقائی سیاست میں ملا کر نہیں ہوتی ہوگی۔ ہو سکتا ہے کہ سلیکشن کمیٹی کے ممبروں کے ذمے شاید کھلاڑی کے چنے جاتے وقت اس میں سیاست کے جراثیم بھی ماپنے کا حکم بھی دیا جاتا ہو کہ کیا یہ ٹیم میں آ کر کسی گروہ کا حصہ بن سکے گا یا نہیں، کیا یہ خود ہر وقت گروہ بندی کرنے کو تیار ہوگا یا نہیں، کیا اس کو اپنے علاوہ باقی تمام کپتانی کے لیے ناموزوں لگتے ہیں یا نہیں، کیا ٹیم میں جگہ پکی ہوتے ہی یہ کپتان سے پنگے بازی کر سکے گا یا نہیں وغیرہ وغیرہ۔اور یہ بات کھلاڑیوں کے کام دیکھ کر اور سلیکٹروں کے ناکام دیکھ کر پوری بھی اترتی ہے۔