April 1, 2014

ایمسٹرڈیم میں ڈیم فول

Amsterdam main damn fool

آئی ایم ایمسٹرڈیم
ایمسٹرڈیم Amsterdam یوں تو ہالینڈ Holland یا نیدرلینڈ Netherlander کا دارالحکومت ہے لیکن یہ ڈچ Dutch یا ولندیزیوں سے زیادہ راستہ بھولے ہوؤں کا دارالحکومت لگا۔ ہر دو طرح کے راستہ بھولے ہوئے۔ گناہ ثواب کے تنگ راستوں پر خود اپنے راہبر بنےراستہ بھولنے والے اور ہاتھوں میں نقشہ تھامے ، گلے میں کیمرہ لٹکائے اور کسی ہمسفر کا ہاتھ تھامے ہر آتے جاتے سے راستہ پوچھتے والے کھلی کشادہ سڑکوں پر مارے مارے پھرنے والے۔ اور مزے کی بات ہے کہ ڈچ بھی راستہ بتانے کے اتنے عادی ہیں کہ کسی اجنبی کو گم سم دیکھ کر لوگ گاڑی روک کر خود ہی پوچھ لیتے ہیں بھائی کہاں جانا ہے؟


ایمسٹر ڈیم میں ایک اور ڈیم فول؟
اس بات بہتی گنگا میں میں نے بھی ہاتھ دھوئے اور مجھے بھی ایک خالہ اور ایک انکل راستہ بتانے آن پہنچے۔ خالہ تو خیر خود راستہ بتانے کے قابل تھیں کہ چرس کے سوٹے اچھے بھلے نوجوانوں کو گمراہ کر دیتے ہیں وہ تو پھر پچاس سالہ خالہ تھیں جو دس منٹ تک نقشہ تکتے رہنے کے بعد بولیں مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم کہاں ہیں لیکن قلعہ پیچھے اور فان گوخ Van Gogh  کا تصاویر خانہ Art Gallery    یقیناً سامنے ہے۔ انکل تو گاڑی بیچ سڑک روک کر شیشہ اتار کر پوچھنے لگے کہاں جانا ہے؟ میں نے سامنے کھڑی عمارت آئی eye کی طرف اشارہ کرتا ہوئے کہا آئی دیکھنے۔ انہوں نے بڑی شفقت سے سامنے اشارہ کر کے کہا وہ آئی ہے ، وہ پچھلی طرف مرکزی (سینٹرل) central اسٹیشن ہے اور اس کے سامنے پرانے شہر کو راستہ جاتا ہے۔
آئی ۔ اب نکالیں اس خفیہ آنکھ سے تعلق


 ویسے پوچھنے کا سفر شیپل Schiphol کے ہوائی اڈے پر اترتے ہی شروع ہوگیا اور پہلے ان سب لوگوں نے جن کا ایمسٹرڈیم میں کچھ روز کے لیے قیام تھا یا میری طرح کچھ گھنٹے کے لیے انہیں اگلی پرواز پکڑنےتک باہر جانے کی چھٹی تھی پہلے انفارمیشن ڈیسک پر پہنچے وہاں پر آدھی ادھوری معلومات دماغ میں گھسیڑ کر جب پلیٹ فارم پر پہنچے تو کچھ پتہ نہ تھا کہ 16 پلیٹ فارموں میں سے کس پلیٹ فارم پر وہ ٹرین آئے گی جس نے ایمسٹرڈیم سنٹرل جانا تھا۔ کیونکہ صرف ایمسٹرڈیم کے مرکز تک کسی ٹرین نے نہ جانا تھا بلکہ ان کی اصل منزل کوئی اور تھی اور راستے میں انہوں نے ایمسٹرڈیم مرکز سے ہوتے جاناتھا۔ اور ان انجان لوگوں میں میں اکیلا نہ تھا بلکہ چالیس پچاس لوگ بے وقوفوں کی طرح ایک پلیٹ فارم سے دوسرا پلیٹ فارم چھان رہے تھے، ایک اگر کسی سے پوچھتا اور اس کو جواب ملتا تو باری باری دس لوگ مزید پوچھ لیتے یہی گاڑی سنٹرل جائے گی؟ اگلی؟ کس پلیٹ فارم سے؟ کس وقت؟؟؟اور جواب دینی والی لڑکی کی مسکراہٹ میں کوئی کمی نہ آتی۔
شیپل ہوائی اڈا۔ ایمسٹرڈیم، ہالینڈ

آف سیزن جانے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اکثر عمارات سبز جالی نما کپڑے میں ڈھکی ہوتی ہیں اور سڑکیں بورڈوں سے گھری ہوتی ہیں کہ تعمیر و مرمت کا کام جاری ہے عارضی تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ اب بندہ پوچھے کہ بھائی اب کون لائے دوبارہ یہاں؟ کوئی نہیں آپ تعمیر و مرمت کرا لیں ہماری خیر ہے اور ویسے بھی حق تو انہی کا ہے جو گرمیوں میں آتے ہیں ہم جیسے پاگل ہی آتے ہیں سردیوں میں لیکن ویسے ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ ٹکٹ تو ہم نے بھی اتنی بھری تو ہمارے ساتھ بے ایمانی کیوں۔ لیکن اب ہم اپنی قسمت سے کسی بھی سلوک کے لیے تیار رہتے ہیں اس لیے یہ تھوڑی بہت زیادتیاں ہماری صحت پر اثر نہیں ڈالتیں۔

دروازہ کھلا پر جیب بند۔ چلو نباتاتی باغ اگلی بار۔۔۔
بڑا دل تھا کہ چڑیا گھر اور نباتاتی باغ دیکھا جائے اور ان کی تصاویر اتاری جائیں۔ اور ٹکٹ کے خوف کے باوجود چار کلو میٹر پیدل چل کر جب گیٹ پہنچا تو 8 یورو ٹکٹ دیکھ کر دل بیٹھ گیا باہر سے تصویر کھینچی اور دل ہی دل میں اپنی کنجوسی کو گالیاں نکالتا ہوا واپس چل دیا۔تمام راستہ سمجھاتا رہا دل کو کہ بھائی سردیاں ہیں پھول کھلے نہیں ہوں گے جانور اندر پنجروں میں گھسے ہوں گے لیکن آگے سمجھنے والا بھی تو میرا اپنا ہی دل تھا تمام میرے مکروں اور فریبوں سے بخوبی واقف تھا۔


سمندر سے نکلی نہریں
ایمسٹرڈیم وینس Venice  سے ملتا جلتا ہے حالانکہ اترتے ہی ٹھنڈا موسم اور سبز سبز گھاس دیکھ کر مجھے وارسا یاد آگیا لیکن نیا شہر جرمنی کے ترقی یافتہ شہروں کی طرح ہے اور پرانا شہر وینس کے طرح نہر کے گرد واقع ہے لیکن مجھے یہ وینس سے لاکھ درجے اچھا لگا ہے۔ ایک تو وینس کی طرح تنگ نہیں ہے بلکہ نہر کے دونوں کنارے درخت ہیں سڑک ہے دوسرا صاف ستھرا ہے پانی بھی اور شہر بھی۔تیسرا عمارتیں بھی خوبصورت اور مختلف اقسام کی ہیں۔

وینس کا بھائی ایمسٹرڈیم
ولندیزیوں کو ٹیولپ Tulip یعنی گل لالہ سے اتنی محبت ہے کہ اس کا پھول بیچتے ہیں، بیج بیچتے ہیں، پودا بیچتے ہیں، جڑ بیچتے ہیں، مٹی بیچتے ہیں اور ایسی ایسی اقسام نکال رکھی ہیں ٹیولپ کی کہ کہیں سے ٹیولپ نہیں لگتا لیکن پھر بھی ٹیولپ ہے۔ ایک نہر پر ایک کلومیٹر طویل حصے پر کشتیاں کھڑا کر کے پھولوں کی تیرتی مارکیٹ بنا رکھی ہے لیکن پھولوں کا تو نام بدنام ہے مارکیٹ سراسر ٹیولپ اور اس کے اجزا پر مشتمل ہے۔
ٹیولپ کی یادگاریں

ٹیولپ کے بیچ - ہر مال دس یورو

ٹیولپ کے پھول بھی دس یورو

مزید ٹیولپ

مزید تر ٹیولپ

ایمسٹرڈیم میں بھنگ اور حشیش کا نشہ قانونی طور پر جائز ہے۔ گویا کہ آپ کو مزاروں پر جانے یا ٹرک ڈرائیوروں سے یاری رکھنے کی ضروری نہیں بس آپ ہالینڈ آجائیں۔لیکن ایمانداری کی بات ہے جہاز بن کر تمام ڈچ مہذب ہی ملے اگر کوئی حد سے باہر ملا بھی تو وہ اپنا دیسی یا افریقی تھا۔ یہی قانونی نشہ تھا کہ ہر تیسرا بندہ مرکزی ریلوے اسٹیشن سے نکلتے ہی چیختا ہے۔ ہالینڈ آئی لو یو Holland I love You۔۔لیکن یہاں بھی ہم کورے نکلے کہ چرس کیا پئیں کبھی سگرٹ نہیں پیا اور بھنگ کیا چکھیں سردائی پینی چھوڑ رکھی ہے۔دکانوں پر لوٹے نما آلات رکھیں ہیں کہ ایک سانس اندر بھریں اور اپنا آُپ باہر پھینکیں لہذا اسٹیشن سے باہر نکل کر ایمسٹرڈیم سے اپنی محبت کا اعلان نہ کر سکے۔
بھنگ لو حشیش لو چرس لو

ایمسٹر ڈیم کو بھولے ہوؤں، سیاحوں ، نہروں اور ٹیولپ کے علاوہ سائیکلوں کا شہر بھی کہا سکتا ہے ہر دوسرا شخص سائیکل لیے پھر رہا ہے اور مرکزی اسٹیشن کے ساتھ بہت ہی بڑا دو منزلہ سائیکل پارکنگ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

سائیکل کی آرائش

سائیکل کرایے کے لیے خالی ہیں
بڑا شور سنتے تھے دوستوں میں ایمسٹرڈیم کے لال بتی والے علاقے یعنی عرف عام میں بازار حسن میں اور آخر جب آنے کا وقت ہوا تو سوچا کہ چلو ایک نظر ادھر بھی ڈالی جائے اور واقعی ایک ہی نظر ڈالی گئی اور ایسا دل ٹوٹا اور پسینہ چھوٹا کہ دُم نہ ہونے کے باعث دَم دبا کر بھاگا اور اس ڈیم فول نے ایمسٹرڈیم سینٹرل آ کر دم لیا۔ انسانیت کی اس سے بڑی توہین نہیں دیکھی میں نے تمام عمر۔اس آذادی پر تین بار تین حرف بھیج کر میں ہوائی اڈے ایک گھنٹہ پہلے ہی لوٹ آیا ۔ 7 یورو کی ایک روز کی میٹرو ، ٹرام ، بس کی ٹکٹ جو لی تھی وہ بھی ویسے کی ویسے رہ گئی اگر کوئی قاری ایمسٹرڈیم میں ہو بلا تکلف ایک روز کی valid ٹکٹ مانگ لے آدھی قیمت میں بیچنے کو تیار ہوں۔بہرحال تمنا رہی کہ پارک اور چڑیا گھر کی سیر کی جائے لیکن لال بتی والے علاقے نے ایسی بتی بجھائی ہے کہ اب ہمت نہیں پڑتی کہ دوبارہ اتنی آزاد جگہ پر قدم رکھا جائے۔ویسے آپس کی بات ہے اس آزادی سے اپنی غلامی اچھی ہے قسم سے۔

ایمسٹرڈیم سینٹرل

ایمسٹرڈیم مرکزی اڈا
میں سوچتا رہا کہ سات آٹھ گھنٹے میں شہر کیا دیکھا گیا ہو گیا گرمیوں میں آ کر باغات اور پارکوں کی سیر کی جائے لیکن ہندی فلم کوئین Queen دیکھ کر تمام شوق مدہم پڑ گیا یاتو ایمسٹرڈیم میں دیکھنے کا ہے ہی یہی یاپھر فلم والوں کے پاس بھی محض سات گھنٹے تھے جس میں انہوں فلم پوری کی اور جہاز پکڑ کر منزل کو روانہ ہو گئے۔

کلیسا مرے آگے


مادام تساؤ کا میوزیم

چوک اور یادگار

اکثر قدیم عمارات قابل رشک دکھتی ہیں

مزید پانی

پانی ، پل

پانی، پل


دکان کے باہر بنا تخلیقی بورڈ

گھڑیال کی منادی










گیس ماسک بھی میڈ ان چائینا ۔ سیل میں




ایمسٹرڈیم کی مزید تصاویر دیکھیں
https://www.flickr.com/photos/108324326@N08/sets/72157641964280955/