ہنستا چہرہ (smiling face)
پیش تحریر:تین سالوں میں پچاسویں تحریر لکھ کر میں نے کوئی احسان نہیں کیاہاں آپ نے یہ پچاس بکواسیات پڑھ کر مجھ پر ضرور احسان کیا ہے اور میری انا اور میرے میرے اپنے بارے میں قائم کیے گئے نظریے "نظر انداز کیے جانے والے عظیم مزاح نگار" کو ضرور تقویت ضرور پہنچائی ہے۔بس تبصرے کرنے جاری رکھیے آپکی مہربانی ہوگی۔
میرے خیال میں تو یہ پچاسیویں پوسٹ بس خانہ پری ہے لیکن مجھے جو اپنی تحریر پسند آتی ہے آپکو واجبی سی لگتی ہے اور میں جسکو خانہ پری سمجھتا ہوں آپ کو وہ اچھی لگتی ہے ۔آگے آپکی قسمت
کبھی آپ نے سنا ہے کہ فلاں شخص کا مسکراتا چہرہ ہے جسکو انگریزی میں Smiling face کہتے ہیں۔یقین مانیں سب بکواس ہے ، بہانے بازی ہے ڈھکوسلا ہے۔ بھلا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی چہرہ ایسا ہو جس کو جب دیکھو وہ ہنس رہا ہو۔یا تو اس کو ملکی حالات سے آگاہی نہیں ہوگی یا پھرپاگل خانوں میں جگہ کم پڑ گئی ہو گی. چلو خوشی کے مواقع پر تو کام چل جاتا ہوگا لیکن غمی کے مواقع پر تو ایسے لوگ میزبانوں کے لیے سوہان روح ہوں گے۔ بڑا افسوس ہوا ساتھ مسکرائے جا رہے ہیں، بڑے نیک انسان تھے مرحوم ساتھ ایسے ہنس رہے ہیں جیسے انکے ہمراہ شراب پی کر غل غپاڑہ کیا کرتے تھے۔
قصہ یوں ہے کہ ایک دن کلاس میں ایک انتہائی خشک مزاج پروفیسر صاحب پڑھا رہے تھے تو انہوں نے ایک لڑکےکو مسکراتے پایا تو غصے میں اس سے پوچھا کیوں ہنس رہے ہو وہ بیچارہ اب وہ بالغان والا لطیفہ تو سنا نہیں سکتا تھا جو اس کو ابھی ابھی پیچھے سے ایک لڑکے نے پرچی پر لکھ کر پکڑایا تھا اور لطیفہ ایسا تھا کہ ہنسی بھی روکے نہ رکتی تھی ۔چنانچہ پروفیسر صاحب نے اس کو کلاس سے نکل جانے کا حکم دے دیا اور وہ بیچارہ کلاس سے باہر چلا گیا۔ایک چوہدری شجاعت قسم کے لڑکےنے کہا سر وہ ہنس تھوڑی رہا تھا اسکا تو چہرہ ہی ایسا ہے، بیچارہ Smiling Face ہے۔ اس دن کے بعد اس نے پیچھے سے پرچی پکڑنے میں کبھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔
چھوٹے ہوتے پڑھتے تھے کہ کہ شہزادہ فلاں بڑا نرم دل ہنس مکھ اور ملنسار تھا۔ہر وقت ہنستا مسکراتا رہتا ۔اب بڑے ہو کر ان من گھڑت کہانیوں کا پول کھلا ہے کہ بھائی یہاں تو کلرک زادے کسی کو گھاس نہیں ڈالتے کجا شاہ زادے۔بلکہ میرا ایک واہیات دوست تو کہتا ہے کہ شاہ زادوں اور ایک اور زادوں جنکا لکھنا حرام ہے میں چنداں فرق نہیں اور ان میں اصلی شہزادے اور پیسوں اور عہدوں والےنقلی پرنس دونوں شامل ہیں-
لگتا ہے ہماری عدالتیں بھی میرے خیالات سے متفق ہیں اگرچہ مکمل متفق ہوتیں تو آج ملکی حالات خاصے بہتر ہوتے پر کم از کم یہ ہنستے چہرے والے معاملے میں میری جیسی سوچ ضرور رکھتے ہیں تبھی تو پچھلے دنوں عدالت میں جج صاحب نے ایک انسپکٹر کو ڈانٹ پلا دی کہ کیوں ہنس رہے ہو جس پر وہ اپنی صفائی میں ڈھٹائی سے بولا سرکار میرا فیس ہی اسمائیلنگ ہے۔لیکن عدالت جانتی تھی کہ پاگل خانے بھی بہت ہیں اور انسپکٹر صیب کو ملکی حالات سے آگاہی بھی ہے اسی لیے انہوں نے اسکو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا۔
اب میرے سامنے جو بندہ مسلسل مسکرائے جا رہا ہے میری لاکھ کوشش کے باوجود مجھے اس کے ہاتھ میں کوئی واہیات لطیفے والی پرچی نظر نہیں آرہی اور نہ ہی میں نے کسی کو آدھی منٹی سزا سنائی ہے کبھی ،پھر بھی ہنسی جا رہا ہے۔اگر پوچھ لیا تو کہہ دے گا smiling face۔یقین مانیں سب بکواس ہے بہانے بازی ہے ڈھکوسلہ ہے کبھی آپ کو کوئی ایسا پاگل ٹکر گیا جو آپ کو دیکھ دیکھ کر ہنستا جائے تو جب آپکو یقین ہو جانا کہ آپ کے منہ اور کپڑوں میں ہر چیز نارمل ہے تو تب آپکو میری بات سمجھ آنی ہے۔
پیش تحریر:تین سالوں میں پچاسویں تحریر لکھ کر میں نے کوئی احسان نہیں کیاہاں آپ نے یہ پچاس بکواسیات پڑھ کر مجھ پر ضرور احسان کیا ہے اور میری انا اور میرے میرے اپنے بارے میں قائم کیے گئے نظریے "نظر انداز کیے جانے والے عظیم مزاح نگار" کو ضرور تقویت ضرور پہنچائی ہے۔بس تبصرے کرنے جاری رکھیے آپکی مہربانی ہوگی۔
میرے خیال میں تو یہ پچاسیویں پوسٹ بس خانہ پری ہے لیکن مجھے جو اپنی تحریر پسند آتی ہے آپکو واجبی سی لگتی ہے اور میں جسکو خانہ پری سمجھتا ہوں آپ کو وہ اچھی لگتی ہے ۔آگے آپکی قسمت
کبھی آپ نے سنا ہے کہ فلاں شخص کا مسکراتا چہرہ ہے جسکو انگریزی میں Smiling face کہتے ہیں۔یقین مانیں سب بکواس ہے ، بہانے بازی ہے ڈھکوسلا ہے۔ بھلا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی چہرہ ایسا ہو جس کو جب دیکھو وہ ہنس رہا ہو۔یا تو اس کو ملکی حالات سے آگاہی نہیں ہوگی یا پھرپاگل خانوں میں جگہ کم پڑ گئی ہو گی. چلو خوشی کے مواقع پر تو کام چل جاتا ہوگا لیکن غمی کے مواقع پر تو ایسے لوگ میزبانوں کے لیے سوہان روح ہوں گے۔ بڑا افسوس ہوا ساتھ مسکرائے جا رہے ہیں، بڑے نیک انسان تھے مرحوم ساتھ ایسے ہنس رہے ہیں جیسے انکے ہمراہ شراب پی کر غل غپاڑہ کیا کرتے تھے۔
قصہ یوں ہے کہ ایک دن کلاس میں ایک انتہائی خشک مزاج پروفیسر صاحب پڑھا رہے تھے تو انہوں نے ایک لڑکےکو مسکراتے پایا تو غصے میں اس سے پوچھا کیوں ہنس رہے ہو وہ بیچارہ اب وہ بالغان والا لطیفہ تو سنا نہیں سکتا تھا جو اس کو ابھی ابھی پیچھے سے ایک لڑکے نے پرچی پر لکھ کر پکڑایا تھا اور لطیفہ ایسا تھا کہ ہنسی بھی روکے نہ رکتی تھی ۔چنانچہ پروفیسر صاحب نے اس کو کلاس سے نکل جانے کا حکم دے دیا اور وہ بیچارہ کلاس سے باہر چلا گیا۔ایک چوہدری شجاعت قسم کے لڑکےنے کہا سر وہ ہنس تھوڑی رہا تھا اسکا تو چہرہ ہی ایسا ہے، بیچارہ Smiling Face ہے۔ اس دن کے بعد اس نے پیچھے سے پرچی پکڑنے میں کبھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔
چھوٹے ہوتے پڑھتے تھے کہ کہ شہزادہ فلاں بڑا نرم دل ہنس مکھ اور ملنسار تھا۔ہر وقت ہنستا مسکراتا رہتا ۔اب بڑے ہو کر ان من گھڑت کہانیوں کا پول کھلا ہے کہ بھائی یہاں تو کلرک زادے کسی کو گھاس نہیں ڈالتے کجا شاہ زادے۔بلکہ میرا ایک واہیات دوست تو کہتا ہے کہ شاہ زادوں اور ایک اور زادوں جنکا لکھنا حرام ہے میں چنداں فرق نہیں اور ان میں اصلی شہزادے اور پیسوں اور عہدوں والےنقلی پرنس دونوں شامل ہیں-
لگتا ہے ہماری عدالتیں بھی میرے خیالات سے متفق ہیں اگرچہ مکمل متفق ہوتیں تو آج ملکی حالات خاصے بہتر ہوتے پر کم از کم یہ ہنستے چہرے والے معاملے میں میری جیسی سوچ ضرور رکھتے ہیں تبھی تو پچھلے دنوں عدالت میں جج صاحب نے ایک انسپکٹر کو ڈانٹ پلا دی کہ کیوں ہنس رہے ہو جس پر وہ اپنی صفائی میں ڈھٹائی سے بولا سرکار میرا فیس ہی اسمائیلنگ ہے۔لیکن عدالت جانتی تھی کہ پاگل خانے بھی بہت ہیں اور انسپکٹر صیب کو ملکی حالات سے آگاہی بھی ہے اسی لیے انہوں نے اسکو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا۔
اب میرے سامنے جو بندہ مسلسل مسکرائے جا رہا ہے میری لاکھ کوشش کے باوجود مجھے اس کے ہاتھ میں کوئی واہیات لطیفے والی پرچی نظر نہیں آرہی اور نہ ہی میں نے کسی کو آدھی منٹی سزا سنائی ہے کبھی ،پھر بھی ہنسی جا رہا ہے۔اگر پوچھ لیا تو کہہ دے گا smiling face۔یقین مانیں سب بکواس ہے بہانے بازی ہے ڈھکوسلہ ہے کبھی آپ کو کوئی ایسا پاگل ٹکر گیا جو آپ کو دیکھ دیکھ کر ہنستا جائے تو جب آپکو یقین ہو جانا کہ آپ کے منہ اور کپڑوں میں ہر چیز نارمل ہے تو تب آپکو میری بات سمجھ آنی ہے۔