bal bal
جب ہم چھوٹے تھے تو باقاعدگی سے ایک نائی ہمارے گھر آیا کرتا تھا جو والد صاحب کی حجامت اورداڑھی کا خط بنایا کرتا تھا اور مہینے میں ایک بار ہمیں بھی اس کے سامنے سر جھکا کر بیٹھنا پڑتا تھا۔اللہ بخشے مرحوم ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ایک تو اسے ہر نئے بالوں کے انداز style سے چڑ تھی دوسرا اسے پتہ تھا کہ میں اہلحدیث مکتبہ فکر کے مدرسے میں پڑھنے جاتا ہوں لہذا وہ بال پیچھے سے گول، قلمیں بغیر استرا لگائے اور درمیان سے مانگ نکال کر اپنی طرف سے والد صاحب کے سامنے نمبر بنانے کی کوشش کرتا تھا اور تیسراگردن پر کند استرے لگا کر ہمیں اگلا سارا ہفتہ آئیندہ حجامت کروانے سے توبہ ضرور کرادیا کرتا تھا۔
لیکن مہینے بعد پھر وہی ڈتو نائی ہوتا تھا اسکا استرا تیز کر کے لانے کی جھوٹی قسمیں ہوتی تھیں والد صاحب ہوتے تھے اور آئیندہ کبھی حجامت نہ کرانے کا ہمارا عہد ہوتا تھا۔
ہمارا بھی دل کرتا تھا کہ بالوں کی لٹ نکلی ہو، ایک ادا سے بالوں میں ہاتھ پھیرا جائے، اور نہیں تو اس زمانے کی مشہور زمانہ فوجی کٹ ہی ہو جائے۔ میرے چچا کا بیٹا اکثر ڈتو نائی کے چنگل سے بچ جاتا اور وہ دوسرے حجام سے بال کٹوایا کرتا تھا اور اس کی فوجی کٹ پر میں خوب رشک کرتا۔
انہیں دنوں ایک مولوی صاحب ہمیں گھر پڑھانے آیا کرتے تھے اور ان کی توجہ پڑھانے سے زیادہ میرے اور میرے کزن کے بال کھینچنے پر ہوتی تھی۔والد صاحب نے پیسے دیے کہ جا کر بال کٹوا آؤ اور ڈتے سے ہی کٹوا کر آنا۔میں اور میرا کزن ڈتے کی بجائے میرے کزن والے نائی کے پاس گئے اور کچھ اللہ ڈتے کی کَٹ اور استرے سے چھٹکارے کی خاطر اور کچھ مولوی صاحب کے جبر تحت جتنے ایک قینچی سے بال چھوٹے ہو سکتے تھے اتنے کرا لیے۔یوں میری اپنی پسند کا پہلا بالوں کا اسٹائل بھدا سہی پر مولوی صاحب کی اذیت ناکی سے بھی جان چھوٹی اور حجام نے استرے میں نئے بلیڈ لگا کر ڈتے کے خلاف دل میں نفرت کو مزید پختہ ضرور کر دیا ۔
میرے دوستوں اور کزنوں میں کسی کے لمبے بال تھے، کسی کی فوجی کٹ تھی اور کسی کا اور نہیں تو ایک طرف سے مانگ ضرور ہوتی تھی میں اکیلا ہی درمیان والی مانگ والا تھا لہذا اس کٹ نے مجھے کسقدر دلی اطمنان ضرور پہنچایا تھا۔
یوں تو ہمارے خاندان میں بڑے بالوں کو پسند نہیں کیا جاتااور ہمارے جن جن کزنوں نے بڑے بال رکھے ان کو مراثیوں اور بھنگیوں سے تشبیہ دی جاتی رہی ہے پر جوانی میں ایسی باتیں کہاں اثر کرتی ہیں اور ہم بھی ان کے کزن تھے ان کو مراثی بلایا کرتے تھے کہ ہم بڑے بال رکھ نہ سکتے تھے البتہ چاہ ضرور تھی۔
میرا ایک کزن پڑھنے کے لیے ہمارے گھر میں آٹھ، دس سال رہا ہے۔وہ گھر کے ایک فرد کی طرح تھا اس کو ایک روز خالہ نے کہا جاؤ بال کٹوا کر آؤ۔ موصوف اس زمانے میں علی عظمت کے فین تھے لہذا محض قلمیں بنوا کر آگئے۔جب گھر پہنچے تو ان کی شدید قسم کی کھنچائی ہو اور دوسری بار جب وہ حجام کے ہاں سے ہو کر آئے تو سر پر استرا پھرا ہوا تھا۔سچ ہے غصے میں انسان عقل سے پیدل ہوجاتاہے۔
ویسے یورپ آئے تو پتہ چلا کہ یہاں استرا فیشن ہے پر اتنا جگرا نہ ہو سکا زیادہ سےزیادہ مشین ہی سر پر لگوا کر فیشن کی بھونڈی کوشش کی ہے کیونکہ انکا فیشن ہوا پر ہماری طرف تو وہ بیچارہ گنجو لیلا ہی کہلاتا ہے۔اسی وجہ سے ہوش سنھالنے سے آج تک یاد نہیں کہ کبھی سر پر دوسروں کو چپیڑیں مارنے کے لیے للچانے کا موقع دیا ہو۔
میرے ایک کزن صاحب کو جوئیں پڑ گئیں۔سب کو پڑجاتی ہیں بچپن میں ۔پر انکو اتنی ہو گئیں کہ لیکھیں(جووئوں کے بچے) ایک نظر میں بھی دکھتی تھیں۔ایک روز انکے ایک ہم جماعت نے کہا کہ یار تمھارے سر میں بڑی خشکی ہے۔آگے میرے کزن صاحب نے نوبل انعام کے قابل جواب داغا کہ نہیں یار یہ خشکی نہیں کافی دن سے نہایا نہیں ہوں یہ میل ہے۔
میری ایک خالہ ملک سے باہر گئیں تو دو ماہ کے لیے ہم انکے گھر جا رہے۔ ایک روز میری والدہ نے کہا سب کو چلو بچو تیل لگاؤ اور جوئیں نکالو باریک کنگھی سے۔جب جوئیں نکلیں تو کسی کزن کی جوئوں کی تعداد سو سے کم نہ تھی۔میں نے ان میں سے اپنے دوست کزن سے پوچھا یار اتنی جوئیں خارش نہیں ہوتی؟ کہنے لگا یہ جو میں بار بار بالوں کو سنوارتا ہوں تمھارا کیا خیال ہے میں فیشن کرتا ہوں؟
ویسے دل میں ہم نے بھی صنم پالے رکھے اور کرس کینز Chris Cairnsقسم کا ہیر اسٹائل میرا خواب رہا ہے۔آخر میٹرک میں موقع ملا تو ہم نے کرس کینز جتنے بال کر چھوڑے لیکن اتنے خشک بالوں کو سنبھالنے کی سمجھ نہ آئی اور تنگ آ کر دوبارہ درمیان والی مانگ پرلوٹ آئے۔یورپ یوں تو سر پر مشین لگوا کر آئے تھے لیکن یہاں بال خوب بڑے کیے ۔پر کرس کرینز والی بات پیدا نہ ہوسکی (یاد رہے کہ بال میرے بھی گھنگریالے ہیں لیکن کرس کینز اسٹائل کیسے بنتا ہے یہ ہمیں آج تک نہیں پتہ، بس بال بڑے کر لیتے ہیں) اور الٹی مانگ کا اب دل ہی نہیں کرتا لہذا بال کسی بھی لمبائی کے ہوں درمیان سے مانگ ہی نکال لیتا ہوں۔
ویسے دل میں ابھی بھی کرس کینز بننے کی ایک آدھ چنگاری دبی ہے ہو سکتا ہے ایک آدھ ٹرائی اور کی جائے کہ بندہ ہے کچھ بھی سوچ سکتاہےاور کچھ بھی کر سکتا ہے بقول افتخار ٹھاکر کے کہ "بندے دا کجھ پتہ لگدا؟"