جس دور میں ہم پیدا ہوئے تب نیا سال منانے کا رواج نہ تھا- اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں کسی کو روٹھے رشتہ داروں کو منانے سے فرصت ملے تو کچھ اور منائے- جب نیا سال آنے لگتا تو ہم صرف اس لیے پرجوش ہوجاتے کہ کاپیوں پر سال کے ہندسے بھی تبدیل ہوں گے اور ہم جو سارا سال محض دن اور ماہ لکھ کر کام چلایا کرتے تھے دسمبر میں سال بھی لکھنا شروع کردیتے۔ لیکن ہائے ری ہماری سادگی کہ جس بے تابی سے انتظار کیا کرتے اسی شدت سے فراموش بھی کر دیتے اور نئے سال کے پہلے پندرہ دن بدستور پچھلا سال ہی لکھے جاتے اور آخر تنگ آ کر دوبارہ دن اور ماہ پر لوٹ آتے۔
نیا سال کیا ادھراپنا یہ حال ہے کہ کچھ سال پہلے تک کبھی ہم نے اپنی سالگرہ تک نہیں منائی اور اب بچے اپنے کیک کی لالچ میں ہماری سالگرہ منا لیتے ہیں اور ہمارے کیک پر پھونک بھی وہی مارتے ہیں ، چھری بھی وہی چلاتے ہیں بس ہمیں خوش کرنے کو ایک آدھ ٹکڑا عنایت کر دیتے ہیں اور ہم بھی سال بعد ایک تقریب کا دلہا نما بن کر خوش ہو لیتے ہیں۔
پاکستان میں عام طور پر جو روز منائے جاتے ہیں اس کو منانے کا طریقہ موٹر سائیکل کے سلسنر نکال کر بھگانا، دوٹائروں والی شے ایک پر اور چار والی دو پر چلانے کی کوشش کرنا، دماغ کو حتی الوسیع آرام دینا، تمام اسلحہ کو سالانہ آزمائش سے گزارنا وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ یہی پاکستانی جب باہر نکلتے ہیں تو یہ شوق ام الخبائث پی کر پورا کرتے ہیں اور کار، موٹر سائیکل، بندوق کا کام اپنے آپ سے لیتے ہیں۔
حالانکہ شراب صرف اسلام میں حرام نہیں بلکہ تمام جنوبی ایشیا میں بری شے سمجھی جاتی ہے یقین نہ آئے تو پرانی ہندی فلمیں دیکھ لیں کہ ہم ویسے بھی پرایوں سے زیادہ متاثر ہیں۔ یہی جب پاکستانی ، بھارتی، بنگالی قطع نظر مذہب سے ملک سے باہر نکلتے ہیں تو اکثریت مربھکوں کی طرح شراب پر ٹوٹ پڑتی ہے اور ہمارے ایک ڈاکٹر دوست کے الفاظ میں پیتی ہے کہ جس نے گرمیوں میں ایک مریض کو اس بات پر کہ کتنا پانی پینا چاہیے تو اس نے کہا پہلے کھڑے ہو کر پیئیں، پیٹ بھر جائے تو پھر بیٹھ کر پیئیں، جب جگہ نہ رہے تو پھر لیٹ کر پئیں۔ تو ایسے ہی لیٹ کر کیا لیٹ (مرحوم) ہو جانے تک دبا کر پیتے ہیں اور شامت آتی ہے ہمسایوں اور ساتھ رہنے والوں کی۔ شراب تو گورے بھی پیتے ہیں اور خوب پیتے ہیں لیکن ہمارے دیسی بھائیوں کے سامنے ان بیچارے گوروں کی پینے اور بگڑنے کی اوقات کہاں۔
اس بار نئے سال سے ذرا پہلے کرسمس کے موقع پر دبئی میں تھا اور وہاں دیسی عسائیوں نے پی کر وہ تماشہ کیا کہ جن گوروں نے ان کو عیسائی کیا تھا وہ قبر میں لیٹے اللہ میاں سے کہہ رہے ہوں گے اللہ میاں اس بار غلطی ہو گئی اگلی بار ان کو عیسائی بننے کی دعوت دینے سے ہمارے بزرگوں کی توبہ- کہ ایک ہجوم تھا، جو ہوش سے باہر تھا اور عمارت میں موجود ہر کمرے کے باہر دروازے کھڑکا کھڑکا کر ان کو دعوت کرسمس دے رہا تھا۔اگلی صبح چھ سو خالی بوتلیں اور ایک سو دیسی انگریز باہر میدان سے برآمد کیے گئے۔
مناتے تو نیا سال اور کرسمس خیر یورپی بھی ہیں لیکن ان کا منانا بس یہی ہوتا ہے کہ باہر نکلے پی پلا کر غبارے پٹاخے پھوڑ کر گھر واپس آ گئے اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ کہیں ہمسایہ نہ جاگ جائے ادھر ہماری تمام تر منانے کی کوشش اس بات پر مرکوز رہتی ہے کہ کم از کم ایک آدھ ہمسایہ، تماشائی، راہگیر تو دہشت اور شور و غل سے ہی اللہ کو پیارا ہو جائے۔ ظاہر ہے انکی آبادی کم ہے تو وہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کہیں مزید کم نہ ہوجائے جب کہ ہم بڑھتی آبادی کو قابو میں لانا چاہتے ہیں۔ ہر دو فریق اپنی کوششوں میں مخلص ہے۔
بس نیا سال ہے، میں ابھی تک دئی میں ہوں، ایک ہندسہ تبدیل ہونے کو ہو، پھلجڑیاں جلنے کو ہیں، باہر گورے انگریز پی پلا کر اودھم مچانے کو تیار ہیں اور ہم رضائی سر پر ڈلے سونے کو تیار ہیں کہ بارہ بجے سے پہلے نہ سو پائے تو شور میں صبح چار پانچ سے پہلے سونا خواب ہی ہو جائے گا۔ لہذا تمام قارئین کو 2016 مبارک ہو۔ اللہ کرے یہ سال ہم سب کے لیے بہتر ثابت ہو۔
Naya saal aur manana