جب پہلا بلاگ لکھا تھا تو یہ ارادہ تو تھا کہ اب یہ لکھنا لکھانا جاری رہے گا لیکن یہ پتہ نہ تھا کہ چھ سال تک لکھتا چلا جاؤں گا، دو سو پوسٹ لکھ ڈالوں گا کہ چھ سال قبل ہم نے سوچا نہ تھا کہ مزید چھ سال زندہ بھی رہ پائیں گے۔ تو اب چونکہ یہاں تک پہنچے ہیں تو سوچا کیوں نہ اس ڈبل سینچری کی خوشی میں آپ کو اپنے بارے آگاہ کیا جائے۔
اگرچہ کافی بلاگر اور غیر بلاگر مجھ سے مل چکے ہیں اور توبہ کر چکے ہیں کہ ایسوں سے ملنے سے اچھا ہے بندہ کوئی سیاسی شو یا سٹار پلس کا ڈرامہ ہی دیکھ لے لیکن بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ابھی بھی مجھ سے ملنے کے خواہنشمند ہیں- سمجھ مجھے یہ نہیں آتی کہ بندہ ایک میرے بلاگ پر آتا نہیں، کتاب کسی نے خریدی نہیں تو یہ ملنے کے شوقین کہاں سے پیدا ہو گئے۔ ایسے لوگوں کی تسلی کے لیے میں نے سوچا کہ اپنے بلاگ پر دو سویں پوسٹ پر کیوں نہ جیسے غائبانہ نماز جنازہ ادا کیا جاتا ہے ایسے ہی غائبانہ ملاقات کرا دی جائے تاکہ لوگوں کی خواہش کا احترام ہو سکے ان کا شوق پورا ہوجائے اور ان کی غلط فہمی دور ہو سکے کہ میں ملنے کیا کسی بھی قابل انسان ہوں۔
اب چونکہ جیسے میں دوسروں کو نظر سے دیکھتا ہوں لہذا آج آپ کو اسی نظر سے اپنے آپ سے ملواؤں گا تاکہ کبھی غلطی سے ملاقات ہو بھی جائے تو آپ یہ نہ کہہ سکیں کہ اچھا اپنے بارے آ کر یہ طرف اور وہ طرف دونوں مفتود ہو گئیں۔
ملاقات شروع ہوتی ہے۔۔۔
صبح نو بجے اپنی طرف سے ہم صبح گزار کر علی حسان کے گھر پہنچے تو پتہ چلا موصوف کہیں گئے ہوئے ہیں۔ "کہاں گئے ہیں؟" تو ایک نوکر پھوٹا کہ "نندیا پور گئے ہوئے ہیں"۔ چونکہ ہم ان کی تحاریر سے ان کی انسان دوستی اور برابری کا سبق لیتے رہتے ہیں تو ہم نے نوکر کو کہا کہ "ان کو جگا دیں" تو اس نے کہا کہ "نہ بھائی وہ جاگتے وقت بڑے خراب موڈ میں ہوتے ہیں"۔ ہم نے پوچھا "اور باقی وقت؟" تو جواب ملا "باقی وقت اس سے بھی خراب موڈ میں ہوتے ہیں"۔
دو گھنٹے انتظار کر کر کے آخر وہ جاگے اور منہ ہاتھ دھوئے بغیر آئے اور چھوٹتے ہی بولے "بڑے ڈھیلے ہیں یہ نوکر میں تو جاگا پڑا تھا بس آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔ کسی نے بتایا ہی نہیں کہ آپ آئے ہیں"۔
نوکر کو آواز دی کہ میرے کپڑے استری کرو میں نہاؤں گا۔
گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو ہم نے پوچھا "کب سے لکھنا شروع کیا تھا"؟ جواب ملا "یاد نہیں بہت چھوٹا تھا"۔ ہم حیرت سے تکنے لگے تو تھوڑی دیر ہمیں حیرت سے تکتے رہے پھر جیسے کچھ پلے پڑا اور بولے "اچھا اچھا آپ نے بے ادبی لکھنے بارے پوچھا تھا، میں تو مذاق کر رہا تھا" ۔ ہم سمجھ گئے کہ موصوف کا آئی کیو گئی کیو ہے۔
بتانا شروع کیا کہ "بچپن سے ہی انکو مصنف بننے کا شوق تھا" اور انکی باتوں سے لگ رہا تھا کہ بڑے ابھی بھی نہیں ہوئے۔ بات بے بات منہ پھاڑ کر ہنسنا، ایسے سر ہلا ہلا کر ہماری تائید کرنا جیسے اردو میڈیم اسکولوں کے بچے استاد کے ڈنڈے کی لے میں سر ہلا رہے ہوتے ہیں اور ہر بات کے اختتام پر جی بالکل درست کہا، بالکل درست کہا بالکل مصنوعی لگ رہا تھا۔
ہم نےپوچھا "آپ تو لکھتے ہیں کہ آپ بڑے کم گو ہیں یہاں تو خوب چہک رہے ہیں" بولے "ہاتھی کے دانت دکھانے کے ہوتے ہں کھانے کے نہیں کہ انکو کھانے میں آپ اپنے دانتوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔" ایسے گھٹیا مذاق پر ہمارا جی چاہا کاش ہاتھی دانت ہوتا ہمارے پاس تو بے دریغ ان کو دے مارتے۔
اپنے غصے کو دباتے ہوئے ہم نے اگلا سوال پوچھا "آپ کو کیسا لگتا ہے اتنا بڑا بلاگر اور اتنا چھوٹا ادیب بن کر"۔
جواب ملا کہ کہ "پہلی بات میں کوئی اتنا بڑا نہیں ابھی بمشکل تیس کے پیٹے میں ہوں اور شکل سے تو کہیں کہیں ستائیس اڑھائیس کا بھی چل جاتا ہوں۔ باقی بلاگ کی دنیا میں پانچ سال ضایع کرکے اب نہ جونئیر کی قطار میں ٹھہر سکتے ہیں اور سئنیر کی قطار میں کوئی گنتا نہیں بلکہ مجھے تو لگتا ہے کہ اکثر لوگ بلاگر ہی نہیں گنتے۔ بس دس بارہ پڑھنے والے ہیں انہی سے یاری گانٹھ رکھی ہے کہ مروت میں ہی پڑھ لیں وگرنہ یہ بھی ہاتھ سے جائیں گے ۔دل تو میرا بڑا چاہتا ہے کہ تین حرف بھیجوں اس بلاگنگ پر کہ اب تو یہ کیمرے کا ڈھول بھی گلے میں ڈال لیا ہے لیکن کیا کروں جب وہ تین حرف لکھنے بیٹھتا ہوں پورا بلاگ ہی لکھا جاتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ چلو ایک بلاگ اور سہی اور نہ لکھوں تو دل میں کسک اٹھتی ہے کہ اگر میں نے بلاگ نہ لکھا تو اردو یتیم ہوجائے گی لہذا بس اردو پر ترس کھاتے ہوئے لکھ ہی ڈالتا ہوں۔ باقی جہاں تک چھوٹے ادیب کی بات کی ہے تو کر دی ناں چھوٹی بات۔ ہم تو بھائی بڑے بڑوں کو خاطر میں نہیں لاتے ادب میں کہ میں ادب میں واحد بے ادبی کی آواز ہوں۔ اور جن کو پسند نہیں ان کے لیے عرض ہے کہ وہ سکون کریں میں ایسی کہانیاں لکھتا رہوں گا آپ اپنا انتظام کر لیں۔ میں پہلے بتائے دیتا ہوں۔
"لکھنے میں مشکل نہیں آتی کہ کبھی بد مزاح بلاگ کبھی بے ادب کہانی"؟ ہمیں گھورا اور مروت میں چپ کرگئے اور بولے کہ "لکھنا تو بس جان کے ساتھ ہے۔ بلاگ نہ لکھوں تو کہانی لکھ ڈالوں، ایک زمانے میں شاعری کی ٹانگ توڑا کرتا تھا، کالم لکھے تھے، مضامین لکھے تھے، ڈرامے لکھے تھے، ایک بار تو ناول لکھنا شروع کر دیا تھا تو بلاگ وغیرہ اس لیے اچھے ہیں کہ خطرہ ہے فارغ بیٹھے گالیاں شالیاں ہی لکھنا نہ شروع کر دوں"۔
"اچھا آپ نے یہ کیمرے کا ذکر چھیڑ دیا ہے تو یہ پرندوں کا شوق کیسے پڑا اور کب ان کی تصاویر اتارتے ہی؟"، " پتہ نہیں کونسا منحوس لمحہ تھا کہ اس چیز کا شوق پڑا اور کب کھینچتا ہوں؟ میرے گھر کے سارے بندے اٹنشن ہیں جس کو کوئی اسکی دانست میں نیا پرندہ نظر آئے گا اس نے آواز دینی ہے اور میری دوڑ دیکھیں پھر، گرمی سردی، بارش وارش سے بے پرواہ بس میں ہوں گا اور کیمرہ ہوگا۔" اور ایسا ہی ہوا کہ اندر سے آواز آئی بھائی جان پرندہ اور جناب صاحب یہ جا وہ جا اور پانچ منٹ بعد آگئے کہ "یار کوا تھا ۔"
" ہم نے پوچھا ایک کوے کی فوٹو کھینچ کھینچ کر تنگ نہیں آجاتے؟" بولے "کوا اپنی فوٹو کھینچوا کھچنوا کر تنگ نہیں آتا تومیں کیوں آؤں۔"
"اچھا یہ بتائیں کہ آپ سیاست سے دور کیوں رہتے ہیں؟"
" میرے خیال میں تو بلاگ پر ٹریفک لانے کا سب سے آسان طریقہ ہے سیاست پر لکھیں، مذہب پر لکھیں اور متنازعہ لکھیں روز پچاس سو لوگ تو گالیاں لکھ ہی جائیں گے آپ کے بلاگ پر لیکن سیاست بھی کسی ٹیم کی پسندیدگی کی طرح ہے آپ کسی طرح دوسرے کو اسکی پسند بدلنے پر مائل نہیں کر سکتے اگر آپ کو آفریدی پسند ہے تو میں صرف آپ کی پنسد پر افسوس کر سکتا ہوں اس کو بدلنے پر قادر نہیں ، تو کیا فائدہ مفت کی بک بک کا اور ویسے بھی ہمارے لکھنے سے کونسے سیاستدان سدھرنے والے ہیں تو جب ان کو ہماری پرواہ نہیں ہم کیوں انکی پرواہ کریں"۔
"سنا ہے کہ آپ بڑے کھلے دل کے اور بات ماننے والے شخص ہیں؟"
"کسی دشمن نے اڑائی ہوگی۔ آف دی ریکارڈ بات ہے کہ اصل میں کوئی مجھے اپنے آپ سے متفق نہیں کر سکتا اور میں کسے کے سامنے اپنا موقف بدل لوں تو سمجھ لیں کہ بس مروت میں چپ کر گیا ہوں"۔
ہم نے پوچھا یہ تو کھلی منافقت ہوئی
جواب ملا کھلی کہاں سے ہوئی؟ کیا اگلے کو پتہ لگا۔ اگلا خوش ہوگیا ہمارا کیا گیا"۔
اتنی دیر میں کھانے کا وقت ہو گیا۔
کھانا لگا تو ذرا دیر میں ہی بس کر کے بیٹھ گئے؟ ہم نے پوچھا "بس اتنا" ؟
بولے "چار روٹیاں تو کھا چکا ہوں اور کتنا کھاؤں"؟
ہمارے اصرار پر ہمارے ساتھ دوبارہ کھانا شروع کیا اور ہمارے دو روٹیاں کھاتے کھاتے چار روٹیاں مزید کھا گئے۔ ہم ان کی میزبانی اور معدے کے قائل ہو گئے۔
ہم نے پوچھا "جو کوئی بھی باہر جاتا ہے خواہ دبئی سے ہو آئے، دبئی کیا لاہور یا کراچی سے ہی ہو آئے وہ گفتگو میں موقع بے موقع انگریزی لازمی ڈالتا ہے۔ آپ ایسا کم کرتے ہیں کیا یہ آپکی اپنی زبان سے محبت ہے"؟
بولے "نہیں اصل بات یہ ہے کہ انگریزی آتی ہی نہیں تو بولوں کہاں سے۔ ادھر یاداشت کا یہ حال ہے کہ اردو لفظ بھولے جاتے ہیں کجا انگریزی"۔
"آپ کا لباس اور انداز و اطواربھی بڑی سیدھے سادے ہیں ماشااللہ سے بڑے سادہ مزاج کے ہیں آپ
ہیں؟" "اپنی طرف سے تو بھرپور فیشن کرتا ہوں یار پر بات ہی نہیں بنتی کیا کروں"۔
"جب آپ لکھتے ہیں تو آپ کے دماغ میں کیا ہوتا ہے"؟
"کچھ ہو تو ایسا لکھا جائے جیسا لکھتا ہوں؟" ۔ ہم نے سوچا لکھتے وقت ہی نہیں بولتے وت بھی موصوف کے دماغ میں کطھ نہیں ہوتا کہ جو منہ میں آیا دے مارا یہ سوچے بغیر کہ اپنی بے عزتی ہو رہی یا سامنے والے کی۔
"آپ کی کوئی ایک خواہش"۔ "پاکستان کا سب سے بڑا ادیب بن جاؤں پاکستان کا کیا دنیا کا مشہورادیب بن جاؤں اور اتنی کتابیں بکیں کہ روٹی پانی سے بے نیاز ہو کر دنیا بھر میں پرندوں کی تصاویر کھینچتا پھروں"۔
ہم نے پوچھا "بھائی جان کوئی رعایت نہیں مل سکتی"؟
بولے "آپ نے خود پوچھا تھا آپ کا قصور ہے میں کیا کر سکتا ہوں"۔ ہم نے پوچھا "جیسے بلی کو چھچھڑوں کے خواب آتے ہیں کوئی ایسا پرندہ بھی ہے"؟ تھوڑی دیرسر کھجا کر سوچتے رہے اور بولے "سمجھا نہیں"۔ ہم نے کہا "دماغ پر زور نہ ڈالیں بس وہ آپ کی خواہش پر طنز کیا تھا"۔
ہنس پڑے اور بولے "اچھا اچھا میں سمجھا نہیں تھا مذاق آپ بڑا اچھا کر لیتے ہیں، باقی زور وور کی فکر نہ کریں ہو گا تو زور پڑے گا ناں"۔
ہم نے سوچا آئی کیو مستقل گئی کیو ہے ادھر۔
"ہم نے پوچھا ماشااللہ سے آپ تو بلاگروں میں بڑے ایکٹو ہیں کبھی کس سے مل کبھی اس سے مل"۔
بولے" بھائی پتہ نہیں کیا ہے جو ایک بار ملتا ہے دوسری بار بے حد اصرار کے باوجود کنی کترا جاتا ہے۔حالانکہ ابھی تو میں بولتا بھی کم ہوں، تمیز کا دامن ہاتھ سےنہیں چھوڑتا وغیرہ وغیرہ"۔ ہم نے دعا کی کہ" اللہ کرے بس کم ہی بولیں تو اچھا ہے"۔
شام کو ہم جانے لگے تو یاد آیا ہم نے کہا "آپ نے کپڑے استری کرائے تھے پر نہائے نہیں" بولے بس صبح اٹھ کر نہ نہاؤں تو پھر نہانے کا دل نہیں کرتا ، "اب کل کوشش کروں گا نہانے کی اور نہانے کا پہلا مرحلہ تو طے ہو گیا ناں کہ کپڑے استری ہو گئے ایک ٹنشن تو ختم ہوئی"۔ ہم نے ان کو ایک ٹنشن ختم ہونے پر مبارکباد دی اور ان کو الوداع کہا اور طوعاً و کرہاً ہاتھ ملایا کہ بندہ اتنا غلیظ بھی نہ ہو۔
نوٹ: اس انٹرویو کے تمام واقعات حقیقی ہیں، کسی قسم کی غیر مطابقت محص اتفاقی ہو گی۔
Aik din mere sath