May 1, 2010

میرا دوست سلیمان عمر

mera dost- Salman Omer


یوں تو ملتان پبلک اسکول کی تاریخ میں ایک سے بڑھ کر ایک طالب علم گزرا ہے لیکن ان میں سے کچھ ایسے تھے جو اپنے وقت میں صرف کلاس میں میں ہی نہیں بلکہ تمام اسکول میں یکساں طور پر مشہور تھے۔عمرسعید جب میں نہم جماعت میں تھا تو ہیڈ بوائے تھے اور ان پر پر یہ عہدہ خوب جچتا تھا اور تمام اسکول ان کو اچھی طرح جانتا تھا اس وقت اسکول ہیڈ بوائے کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی۔اوپر سے ان کی پر جوش تقریریں۔ذیشان قادر سے آگاہی ہوئی تو پتہ چلا کہ آگ جوش کے علاوہ پیار سے بھی لگائی جاسکتی بشرط یہ کہ مقرر ذیشان قادر ہو۔اویس امین صاحب جنہوں نے بورڈ میں پوزیشن لی اور تمام اسکول میں مشہور ہو گئے کیونکہ اس کے بعد تمام اسکول کو اس روز چھٹی تک کھیلنے کی اجازت دے دی گئی تھی اور ہم دعا مانگتے کہ اللہ کرے اس بار بھی کوئی بورڈ میں پوزیشن لے لے۔کچھ لوگ اور وجوہات کی بنا پر مشہور ہوئے۔محمد علی ملک صاحب پرنسپل کی اختتامی تقریب میں سیٹیاں بجانے کے باعث مشہور ہوگئے ۔ مہر منیر خیر رہنے دیں ان کی وجہ شہرت تو بہت سے لوگ جانتے ہیں۔نظام الدین جنہوں نے ایف ایس سی میں لافانی شہرت حاصل کی تھی۔فہیم چغتائی کو عارف صاحب،لیاقت صاحب اور ہارون صاحب کے علاوہ اس وقت کے پریپ اسکول کے تمام طلبہ بھی بھولے نہ ہوں گے۔نعمان خان جنکو آج بھی لوگ دادا کے نام سے جانتے ہیں۔لیکن آج میں جس نابغہ روزگار ہستی کا ذکر کرنے لگا ہوں وہ اپنے وقتوں میں ہر خاص و عام میں یکساں مقبول میٹرک کے بیچ ۹۹ اور ایف ایس سی کے بیچ ۲۰۰۱ کے اپنی نوعیت کے واحد سلیمان عمر کے بارے میں ہے۔


 ڈرامہ ،پلوٹو اور پھر ایف ایس سی میں ملک پپی کے نام سے مشہور سلیمان عمر اسکول میں وہ پہلا لڑکا تھا جس سے میں نے گفتگو کی تھی۔ہمیشہ بائیں ہاتھ پر سب سے آگے والے ڈیسک پر بیٹھنے والے سلیمان عمر کے ساتھ اس وقت بیٹھنے والا زاہد سعید اس روز اسکول نہیں آیا تھا اور کوئی اور خالی جگہ نہ پا کر میں سلیمان عمر کے ساتھ بیٹھ گیا۔سلیمان عمر اس وقت ہیڈ بوائے ہوا کرتا تھا اور مجھے اپنی خوش قسمتی پر رشک آرہا تھا کہ پہلے ہی روز میں نے اسکول کی انتظامیہ میں نقب لگائی تھی۔سلام دعا سے بات شروع ہوئی اور سلیمان عمر ہیڈ بوائے کا کردار بخوبی نباہنے لگا کہ دل لگا کر پڑھنا ،استادوں کی عزت کرنا،اسکول کا نام روشن کرنا۔لڑکے حالانکہ نہیں کرتے لیکن آپ کوشش کریں کہ انگریزی میں گفتگو کریں یہ اس کے پندرہ منٹ کے بھاشن کا آخری جملہ تھا ۔اس کے بعداس نے پوچھا آپ کی مادری زبان کون سی ہے میں بولا سرائیکی۔وہ بولا ’مریں ول سرائیکی بول اردور کیوں دبی کھڑا ہیں‘۔(تو پھر سرائیکی بولو اردو کیوں گھسیٹ رہے ہو) اور ہم دوست بن گئے۔

سلیمان عمر بڑا ہی تخلیقی انسان تھا۔ایسی ایسی گالیاں نکالا کرتا تھا کہ چودہ طبق روشن ہو جاتے تھے۔پورا سال کیمسٹری لیب میں ریسرچ کرنے کے بعد جو چیز اس نے بنائی تھی ایک روز اس نے اس کی جو تعریف کی تھی وہ میں یہاں لکھنے سے قاصر ہوں۔جب تک وہ نہم میں ہیڈبوائے رہا کبھی بریک کے بعد کلاس میں نہیں آیا اور آخری تین پیریڈ میرا دل جلتا رہتا اور وہ باہر عیاشی کرتا رہتا۔سلیمان عمر نے تو کبھی راز نہیں کھولا وہ ہمیشہ یہی بتاتا کہ وہ ڈیوٹی کرتا رہتا ہے لیکن راز ایک روز میاں نعیم اشرف نے کھولا کہ جب ایک دن وہ طبعیت کی خرابی کی بنا پر آخری پیریڈ میں میں اسکول کی ڈسپنسری جس کو عام زبان میں Casualty بولا کرتے تھے میں گیا تو سلیمان عمر پلنگ پر لیٹا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔

سلیمان عمر مقرر بھی اچھا تھا وہ الگ بات کہ اس کی کبھی پوزیشن نہیں آئی لیکن ہر بار وہ اور میں اکٹھے تقاریر میں حصہ لیا کرتے تھے جو میں نے اس کی حوصلہ افزائی پر پہلی بار کی تھی کہ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ تقاریر سے دو ہفتے قبل ہم باضابطہ طور پر کلاس میں حاضری سے مستشنیٰ قرار پاتے تھے۔لیکن پوزیشن ہمیشہ میرے ہی حصے میں آئی۔ 

سلیمان عمر اور میں نے کوئی محراب (اسکول کا پرچہ) کے ایڈیٹر کا ٹسٹ بھی ضائع نہیں کیا کیونکہ یہ بھی کلاس سے غیر حاضری کا اچھا بہانہ ہو ا کرتا تھا۔اور پرچے کے بعد وہ اڑتی اڑاتی خبریں مجھے باقاعدگی سے سنایا کرتا تھا جب تک کے ایڈیٹر کا باقاعدہ اعلان نہ ہو جایا کرتا تھا جن میں ایک بار کی میری تعریف سے خبر شروع ہوا کرتی تھی اور پھر وہ اپنے منتخب ہونے میں کم نمبروں کی تفصیل دن بہ دن سنایا کرتا تھا کہ آج وہ چار نمبر پیچھے ہے آج ایک نمبر آج وہ اور فلاں لڑکے میں ٹائی ہو گیا ہے۔اور جب نتیجہ آتا تو ہم اساتذہ کے فیورٹ ازم کے رجحان کو میں اپنے انداز میں اور وہ اپنے انداز میں خوب کوستے اور پھر ہم کلاس بنک کرنے کا کوئی اور منصو بہ سوچنے لگتے تھے۔

میٹرک ختم ہوتے ہوتے وہ ہیڈ بوائے کا پٹہ ( جسے وہ اتارنے سے قبل سیش Sash اور اتارنے کے بعد پٹہ کہا کرتا تھا) اتار کر اساتذہ کی ناپسندیدہ فہرست میں شامل ہو چکا تھا۔اور وہ بھی میری طرح سینڈ اپ میں فیل ہو کر ری سینڈ اپ میں دوبارہ امتحان دینے کے بعد اسکول کے ریگولر امیدواروں میں شامل ہو سکا۔ ایف ایس سی میں جب نئے لڑکے آئے تو ہم پرانے طلبہ کی چاندی ہو گئی اور ہم نے ان نئے لڑکوں پر رعب ڈالنا شروع کر دیا۔حالانکہ ہم سب میٹرک میں اپنے اپنے سیکشن کے نکمے لوگ تھے لیکن اب ہم سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ایسے ہی سلیمان عمر نے نئے اور پرانے لڑکوں کو یقین دلا دیا کہ وہ پیدا ہی ہاکی کی اسٹک لے کر ہوا تھا لہذا کپتان اسی کو بنایا جائے۔میں ہوتا تو کچھ بتاتا کیونکہ میٹرک میں میں سلیمان عمر کی کرکٹ اور ہاکی کے دعوں اور حقائق کے بارے خاصا سن چکا تھا۔پر سالِ اول میں میں اسپورٹ ویک (ہفتہ کھیل)میں صرف کرکٹ کھیلنے آیا تھا باقی غیر حاضر رہا تھا۔لیکن باقی لوگ اس کی باتوں میں آ گئے اور اس کو کپتان بنا دیا۔لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ بھی ایک تاریخ ہے۔محض پندرہ منٹ کے بعد میچ ریفری قاسم قریشی صاحب نے میچ ختم کرا دیا کہ ہاکی میچ کھیلنے کے لیے ہاکی کھیلنی بھی آنی چاہیے۔یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اشارہ سلیمان عمر اینڈ کمپنی کے بارے میں تھا۔جب میں نے سلیمان عمر سے پوچھا تو وہ بولا قاسم قریشی صاحب نے اپنا پرانا بدلہ نکالا ہے۔ ویسے تو سلیمان عمر کے پاس ہروقت ہر بات کا جواب ہوا کرتا تھا لیکن اس پرانے بدلے کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے۔دسویں میں سینڈاپ سے پہلے قاسم صاحب نے ٹیوشن پڑھانے کا سلسلہ شروع کر دیا ۔اور جب امتحان کا نتیجہ آیا تو کمپیوٹر میں چند انتہائی قابل لڑکوں کے علاوہ وہ تمام لڑکے جوقاسم صاحب سے ٹیوشن نہ پڑھا کرتے تھے تمام فیل ہوگئے۔جن میں میں اور سلیمان عمر دونوں شامل تھے۔اب جو لوگ سینڈ اپ (اس امتحان میں پاس ہونے والے لڑکوں کا ہی اسکول کی جانب سے داخلہ بھیجا تھا) سے قبل ٹیوشن پڑھا کرتے تھے وہ قاسم صاحب کو پانچ سو فیس دیا کرتے تھے۔میں نے معاملے کی نزاکت سمجھتے ہوئے سینڈ اپ کے فوراً بعد ٹیوشن شروع کر دی اور میں انکو پندرہ سو روپے دیا کرتا تھا۔سلیمان عمر نے ری سینڈ اپ سے ایک ہفتہ قبل ٹیوشن شروع کی اور انکا معاہدہ پچیس سو میں ہوا جو سلیمان عمر نے ہزار ایڈوانس سے پکا کر دیا اور ری سینڈ اپ میں میں اور سلیمان عمر دونوں پاس ہو گئے۔پاس ہونے کے بعد سلیمان عمر نے قاسم صاحب کو باقی پیسے دینے سے انکار کر دیا۔اور بقول اس کے انہوں نے یہ بدلہ ہاکی میچ میں نکال دیا۔لیکن بیچ ۹۹ کے اے سیکشن کے لڑکے سلیمان عمر کا کپتانی کرنا بخوبی سوچ سکتے ہوں گے۔وہ واقعی ایک قابل دید منظر ہو گا جسے قاسم صاحب نے محض پندرہ منٹ تک محدود کردیا۔

 پیسوں کا معاملہ فقط قاسم صاحب تک نہیں رہا بلکہ جب ایف ایس سی کے داخلے جانے لگے تو اس وقت کے کلاس ٹیچر عمران نقوی صاحب نے سلیمان عمر کے پاس پیسے نہ ہونے کے باعث اپنی طرف سے دے دیے لیکن واپسی کے وہ آج بھی منتظر ہیں۔سلیمان عمر اس کے پیچھے بھی ایک منطق بیان کرتا ہے کہ جب سالِ دوم کے شروع میں عمران نقوی صاحب پہلے روز کلاس میں آئے تو انہوں نے کہا سلیمان عمر، فہیم چغتائی اور نعمان خان کون کون ہیں۔یہ تینوں تب اتنے مشہور تھے کہ ان کو ہیڈ ماسٹر کے آفس سے سمجھا کر بھیجا گیا تھا کہ ان تینوں پر خاص نظر رکھنی ہے۔لہذا سلیمان عمر نے وہ پیسے بطور ہرجانہ رکھ لیے تھے۔ لیکن پیسوں کی ایک کہانی حسن شہزاد باجوہ(ہم جماعت)کے پاس بھی ہے کہ سلیمان عمر نے اس سے دوائی کے لیے پیسے لیے ،چلو انکے ساتھ جو کیا سو کیا واپس بھی نہیں کیے۔سنا ہے متاثرین میں ملک صاحب کنٹین والے بھی شامل ہیں لیکن وہ تو اس قابل تھے کہ ان سے ہرجانہ لیے جائے۔لیکن میرا تجربہ اس معاملے میں اچھا رہا ہے کہ اس نے میرے سے لیے تمام پیسے واپس کر دیے تھے۔

سلیمان عمر دل کا بڑا اچھا انسان تھا۔اس کے دو واقعات کا میں خود گواہ ہوں۔دسویں میں ایک بار سلیمان عمر اور ذیشان مشتاق( یہ صاحب بھی کم نہ تھے) میں لڑائی ہو گئی تو دونوں نے ایک دوسرے کو ایسی ایسی گالیاں بکیں کہ ہم اگلے کئی روز تک ان گالیوں کے حتمی نتائج اور معانی پر بحث کرتے رہے۔لڑائی میں پلہ ذیشان مشتاق کا بھاری رہا جس کا مجھے خاصا افسوس تھا کیونکہ دوستی کے ناطے میری تمام ہمدردیاں سلیمان عمر کے ساتھ تھیں لیکن سلیمان عمر نے دل میں کوئی بات نہ رکھی اور اگلے روز دونوں شیر و شکرباتیں کرتے پھر رہے تھے۔اسی طرح سال دوئم میں سلیمان عمر اور مشہورِ زمانہ علی محمد المعروف ادا علی محمد کی لڑائی ہو گئی۔علی محمد نے سلیمان عمر کی بڑھکوں سے تنگ آکر ہاتھا پائی شروع کر دی اور آتے ساتھ ہی سلیمان عمر کے منہ پر دو تین گھونسے رسید کر کے لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کر دی۔پہلے تو سلیمان عمر کو سمجھ ہی نہ آئی کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔پر جب اس کو ہوش آیا کہ اس کے ساتھ زیادتی ہو گئی ہے تواس کا ردِ عمل دیکھنے کے قابل تھا۔سلیمان عمر انتہائی تحمل ،بردباری اور متانت سے بولا ’علی محمد اج تو نیوی بچدا‘ (علی محمد آج تو نہیں بچتا)وہ ٹہلتا جاتا تھا اور یہ جملہ بولتا جاتا تھا۔اس نے بڑے سکون سے استاد صاحب کی کرسی فرش پر دے ماری اور تھوڑی سی جدو جہد کے بعد اس کی ہتھی توڑ کر علی محمد کی طرف بڑھا۔ہم سب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ تھے،سلیمان عمر انتہائی سنجیدگی سے جملہ دہراتا علی محمد کی طرف بڑھ رہا تھا اور علی محمد شش وپنج میں مبتلا تھا کہ یہ سنجیدہ ہے یا مذاق کر رہا ہے۔اس موقعہ پر نعمان خان جیسے کچھ نا عاقبت اندیش لوگ بیچ میں کود پڑے اور سارا مزہ کرکرا کر دیا۔لیکن اسی روز کچھ دیر بعد وہ دونوں ہیڈ ماسٹر کے دفتر سے حاضری کے بعد ایک دوسرے سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔

 سلیمان عمر کی کہانی ایک افسانے یا ایک قسط کے ڈرامے پر نہیں محیط کی جاسکتی بلکہ یہ تو تین ہزار صفحوں والے ناول کی جلد اول اور جلد دوئم میں ہی مکمل ہو سکتی ہے۔یا بھارتی ڈراموں کی طرح ہزار ہزار قسطوں میں۔لیکن میرے پاس اتنی جگہ نہیں۔یوں تو اس کی ہنڈا سوک میں ساٹھ لاکھ روپے والا ڈیک،ٹوائلٹ کی دیواروں پر چھتوں تک پینٹنگ،موٹر سایکل اور اسکوٹر کہانیاں،ہیڈ بوائے سے ڈیڈ بوائے بننے تک کا سفر سب اپنی جگہ الگ الگ کہانی ہے۔لیکن جہاں تک ہم دونوں کی دوستی کا تعلق ہے تو وہ ایف ایس سی میں اس سطح تک نہ بڑھ سکی جس کی میٹرک کے بعد امید تھی کیونکہ اب میں کلاس بنک کر کے کرکٹ کھیلنے والے گروپ میں چلا جاتا اور سلیمان عمر دھوئیں کے ذریعے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کرنے والے گروپ میں چلا جاتا۔

جب میں آخری بار اس سے ۲۰۰۳ میں ملا تھا تو وہ اپنی امریکی لفنگوں والی موٹر سایکل پر سوار تھا اور اس نے بتایا کہ اس نے ایف اے کا داخلہ بھرا ہے۔ایف ایس سی دو سال تک نہ ہونے کی بھی اس کے پاس ناقابل تردید وجہ تھی۔بعد میں پتہ چلا کہ وہ بی بی اے کرنے اسلام آباد چلا گیا ہے اور مجھے اس کی کہی ہوئی بات یاد آگئی کہ آپ ملتان میں بے شک آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھی پڑھ رہے ہوں تو لوگ آپ پر توجہ نہیں دیں گے لیکن اگر آپ گونمنٹ ہائی اسکول بھاٹی گیٹ لاہور میں پڑھ رہے ہوں تو لوگ کہیں گے اچھا آپ لاہور میں پڑھتے ہیں۔

دو سال قبل فون پر بات ہوئی تو اس نے ملتان پبلک کی روایت کے عین مطابق پہچاننے سے انکار کر دیا ۔یہ ہمارے ملتان پبلک والوں کی خصوصی عادت ہے کہ اسکول کا دور ختم ہونے کے بعد وہ کئی ہم جماعتوں کو پہچاننے سے انکار کردیتے ہیں۔لیکن بعد میں لعن طعن پر اس نے پہچان لیالیکن ہم نہ مل نہ سکے۔ مجھے امید ہے کہ کبھی ہماری ملاقات ہو گئی تو اس نے یہی کہنا ہے معاف کیجیے میں نے آپ کو پہچانا نہیں اور میں بھی سوچا ہوا ہے کہ پانچھوں انگلیاں کھول کر اسی کے انداز میں اس کو دکھاؤں گا اور کہوں گا لاکھ دی لعنت(لاکھ میں زیادہ وزن ہے)۔لیکن اس سب کے باوجود کافی عرصہ ہو گیاہے ۔سلیمان عمر کبھی ملیں یار !