September 17, 2016

کراچی کی نا سیر


کراچی ہوائی اڈے پر اترا تو لینے آئے میزبان سے تصدیق چاہی کہ کراچی ہی آیا ہوں کہیں جہاز واپس ملتان تو نہیں لے گیا-جواب نفی میں ملا لیکن دل کو تسلی نہ ہوئی گرمی اور تپش ان کی بات کی تردید کرتی تھی۔ تمام دن کا پروگرام شام تک منسوخ کر کے گھر بیٹھے رہے اور ان کے پی ٹی سی ایل سمارٹ ٹی وی PTCL smart TV کی تعریفیں سنتے سنتے فٹ بال کا ایک بور سا میچ دیکھنے لگے- 


شام کو نکلے تو پوچھا کہ کہاں جائیے گا- تمام کراچی میں ایک جا سفاری پارک معلوم تھی جہاں انسانوں نے پرندوں کے لیے کچھ جگہ چھوڑی تھی وگرنہ سمندر تک میں انسانی سر ہی نظر آتے تھے- جیسے اچھے انسان ناپید ہیں ویسے ہی پرندوں کے معاملے میں یہ اہتمام کیا گیا کہ کوے اور چیلوں کو رہنے دیا گیا ہے باقی خال خال اپنی جان بچاتے چھپتے پھرتے ہیں۔

سفاری پارک کا رخ کیا جہاں چھوٹا بگلہ Little egret، جل کوا Great cormorantاور پلیکان Pelican مل جاتے ہیں- میزبان بولے عید کا آج تیسرا دن ہے آج تو رش کم ہو چکا ہوگا- ہمیں سفاری پارک کا گزشتہ بار والا دورا یاد آیا جب تپتی دوپہر کو ٹکٹ والا بھی ہمیں بے یقینی سے دیکھ رہا تھا کہ کچھ ہو جائے تو پاگل خانے والوں کو بلاؤں یا پولیس کو۔ حسب معمول اوور ہیڈ برج سے غلط مڑ کر ون وے کی خلاف ورزی کرتے واپس آئے اور سفاری پارک میں داخل ہوئے- موڑ نہ بھی بھولتے تو بھی تھوڑی سی ون وے کے الٹ جانا پڑتا اور ویسے بھی ہم قانون کے پابند نہیں اور پھر ایسی باتوں سے تو ہی احساس ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں گھوم رہے ہیں۔ 

سفاری پارک کے دورازے پر یوں لگا جیسے جمعہ بازار لگا تھا یا شاید کوئی لنگر بٹ رہا تھا- پتہ چلا یہ سب لوگ سفاری پارک گھومنے آئے ہیں- جی چاہا کہ واپس لوٹ جائیں لیکن میزبان کے اصرار پر اندر چلے گئے اور اندر جا کر افسوس ہوا کہ چلے جاتے تو اچھا تھا کہ اندر موجود لوگ باہر موجود لوگوں سے بھی بڑی تعداد میں تھے- ہمارے میزبان نے اپنے ایک دوست کو فون کیا جو فوٹوگرافی کرتے ہیں اور پوچھا ایک دوست آئے ہیں کہاں لے جائیں جہاں وہ پرندوں کی تصویر کشی کر سکیں- فون سننے والے صاحب نے پرندوں کے لفظ کی ادائیگی ایسی اٹک اٹک کر کی جیسے کسی بوائز کالج میں پڑھنے والے سے پوچھا جائے لڑکی کیسی ہوتی ہے۔ مجھے یقین آ گیا کہ انہوں نے کبھی پرندے دیکھے نہیں ہیں اگر کم از کم سن بھی رکھے ہیں- انہوں نے مشورہ دیا کہ میری ٹائم میوزیم Maritime Museum چلے جائیں اور وہاں پر ایک جھیل بھی ہے جس میں بطخیں تیرا کرتی ہیں- 

سفاری پارک سے میری ٹائم یعنی سمندری عجائب گھر کو چل دیے- وہاں پہنچ کر ایسا لگا کہ ہمارے بعد ان دوست صاحب نے آدھے شہر کو فون کر کرکے میری ٹائم میوزیم جانے پر مجبور کر دیا تھا- ادھر ایسا ہجوم تھا کہ سفاری پارک کسی گورا قبرستان کی تصویر نظر آنے لگا- 

میری ٹائم میوزیم سے عزت افزائی کے بعد ہمارے مہیزبان نے پی اے ایف میوزیم PAF Museum چلنے کا مشورہ دیا- مشورہ کی تفصیل یوں ہے کہ وہ موٹر سائیکل چلا رہے تھے اور جہاں جانا ہوتا وہاں موٹر سائیکل اور ہماری طرف گردن موڑ کر کہتے ہیں کیوں نہ وہاں چلیں اور موٹر سائیکل اس طرف اڑان بھرنے لگتا۔ پی اے ایف میوزیم یعنی پاک فضائیہ کے عجائب گھر پہنچے تو اطلاع ملی کے یہ صرف فیملیز کے لیے ہے- اب یورپ ہوتا تو فیملی کا ڈھونگ رچا جا سکتا تھا کہ یورپ میں مرد مرد یا عورت عورت کا جوڑا بھی قبول کر لیا جاتا ہے دوسری صورت برقع تھی لیکن نہ مجھے موٹر سائیکل چلانا آتا تھا اور نہ ہی برقع اوڑھنا آتا تھا اور آتا بھی ہوتا تو کسی پولیس فرار میں بھی ہم برقع اوڑھنے سے گریز کرتے۔ ہمیں ابرار الحق کے گانے کے بولے اس دن سمجھ آئے کہ 'رناں والیاں دے پکن پراٹھے تے چھڑیاں دی اگ نہ بلے'۔

پی اے ایف سے ہم نے وہی پرانے طریقے والا صلاح مشورہ کیا اور اب ہماری منزل پورٹ گرانڈ Port grand تھا- پورٹ گرانڈ پہنچے تو احساس ہوا کہ سارے کراچی میں شاید فیملی ڈے چل رہا ہے یا جہاں جاتے ہیں پچھلے مخبری کردیتے ہیں کہ آ رہے ہیں دو۔۔۔ دھیان سے۔۔۔ اور وہاں پر بھی گارڈز نے ہماری شکل دیکھتے ہی اعلان کردیا کہ صرف فیملیز جا سکتی ہے حالانکہ ہماری شکل بھلے جتنی اعلی ہو اس وقت اس کو چار چاند کراچی میں دھوئیں اور مٹی نے لگائے ہوئے تھے وگرنہ ہم اتنے حسین نہ تھے جتنے تب نظر آتے تھے۔ 

آخر میں نے کہا کہ یار مزار قائد پر ہی چلتے ہیں کہ اتنی بار آئے کبھی سلامی نہیں بھری اور اسی بہانے ڈھلتی شام کو کچھ مزار کی تصاویر بھی اتار لی جائیں- مزار پر پہنچے تو ایسا لگا وہی سارے لوگ جو سفاری پارک، پی اے ایف میوزیم اور میری ٹائم میوزیم ملے تھے یہاں بھی پہنچے ہوئے تھے- ایک پولیس والے انکل سے پوچھا کہ پارکنگ کہاں ہے تو بولے کس لیے؟ جواب دیا مزار پر جانے کے لیے اور آپ کے خیال میں یہاں ڈیٹ مارنے آئے ہیں اور ڈیٹ ہوتی تو ہم اس وقت اور نہیں تو پی اے ایف میوزیم میں جہازوں سے دل بہلا رہے ہوتے- پولیس والے انکل نے ہمیں تمسخر بھری نگاہ سے دیکھا اور بولا مزار بند ہو چکا ہے۔ 

میں نے اپنے میزبان سے پوچھا کیا آپ کے گھر میں بغیر فیملی داخل ہونے کی اجازت ہے؟ انہوں نے طوعاً و کرہاً اثبات میں سر ہلادیا اور ہم ان کے گھر واپس پہنچ کر ان کے پی ٹی سی ایل سمارٹ ٹی وی PTCL smart TV کی تعریفیں سنتے سنتے فٹ بال کا ایک بور سا میچ دیکھنے لگے-