ایک بار پہلے بھی مجھے پاکستان سے محبت کا مروڑ اٹھا اور میں نے سوچا کہ میرا فرض بنتا ہے کہ قوم کی خدمت کی جائے اور جو پڑھا لکھا ہے وہ ملک کو لوٹایا جائے اور تب کی بات یاد کر کے نئے مروڑ کو دبانے کی کوشش کرتا ہوں۔
اب چونکہ میری پی ایچ ڈی کس اس طرز کی رہی ہے کہ میرے سارے رشتہ دار اس بارے متفق ہیں کہ یہ سب فراڈ ہے کہ ہماری یونیورسٹی نے کلاسیں ہر تین ماہ بعد ایک ہفتہ مسلسل رکھ دی ہیں جس کی وجہ سے آپ کو تمام سمسٹر فقط دو ہفتے تالِن میں موجود ہونا ضروری ہے اور پھر پی ایچ ڈی میں اصل کام ریسرچ ہے جس کے لیے انٹرویو میں نے دو ماہ لگا کر پرتگال اور اسٹونیا سے مکمل کر لیے تھے- اب مرحلہ فقط لکھنے کا تھا جو کہ کہیں سے بھی بیٹھ کر کیا جا سکتا ہے اور ہمارے حاسدین طنزیہ انداز میں کہتے رہے کہ یار کوئی ہمیں بھی ایسی پی ایچ ڈی کرا دو-
بہرحال حاسدین کا کام ہے حسد کرنا اور ہمارا فرض ہے ان کو حسد کروانا تو اس کو چھوڑیں اور اصل بات کی طرف آتے ہیں کہ پاکستان میں اسی دوران ہمارا دل چاہا کسی یونیورسٹی میں مفت ہی جا کر پڑھا آتے ہیں کہ آخر ہمارے ملک کا ہمارے اوپر احسان ہے اور اس کو کسی طور اتارنے کی سبیل کرنی چاہیے- بس ہم نے پاکستانی یونیورسٹیوں میں سی وی بھیجنا شروع کردیا۔
ایک یونیورسٹی جس کا نام سمجھ لیں اے بی سی اینڈ ای ایف سمجھ لیں کی طرف سے فون آ گیا کہ بھائی صاحب فلاں تاریخ کو آپ انٹرویو کے لیے آجائیں۔ میں نے کہا ضرور اور بھلا ہم نے سی وی بھیجی کیوں تھی۔ اب یونیورسٹی بس نچلے درجے کی سمجھ لیں کہ سب کیمپس لے کر ایک کرایے کی عمارت میں کھول رکھی تھی۔ میرا خیال تھا کہ مجھے ہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ اس سے ان کی یونیورسٹی کا نہ صرف نام ہو گا بلکہ رینکنگ بھی اچھی ہو گی- یہی سوچتے سوچتے جب میں نے گوگل پر تفصیل دیکھی تو میرا دل بجھ گیا- ادھر لکھا تھا کہ یونیورسٹی کے ریکٹر صاحب جناب محترم پی آر آغا صاحب ہیں-
اب ہر وہ شخص جو ملتان میں یونیورسٹی میں پڑھ چکا ہے یا اس کا یونیورسٹی سے کسی طور لینا دینا رہا ہے پی آر آغا صاحب سے بخوبی واقف ہے- آپ یونیورسٹی کے ان پروفیسروں میں سے ہیں جنہوں نے یونیورسٹی کو برباد کرنے میں کوئی دقیقہ وگزار نہیں رکھا۔ بھلے خواتین طلبا کو ہراساں کرنا ہو، مالی و انتظامی بے قاعدگی ہو یا پھر طلبا تنظیمیں- آپ ہر جگہ پیش پیش رہے- ویسے یہ کوئی اکلوتے ایسے نہ تھے بلکہ پانچ چھ سینئر پروفیسر جن سب کی ڈگریاں سوالیہ نشان تھیں یونیورسٹی کو ایسی جونکوں کی مانند چمٹے کہ سب اسی ڈگر پر کام کر کے باعزت ریٹائر ہو کر یہ بیماریاں نئے آنے والوں میں منتقل کر کے روانہ ہوئے۔
بس اس صبح پہنچ گئے- اب میں تو آغا صاحب کو بخوبی جانتا تھا لیکن وہ میرے سے واقف نہ تھے کہ یونیورسٹی کے دنوں میں ہماری چند سرسری ملاقاتیں تھیں اور ویسے بھی ہم طالب علم کے گھٹیا درجے پر فائز تھے اور تب وہ پروفیسری کی براہمنی پر- آغا صاحب کے ساتھ ایک اور صاحب براجمان تھے جنکا نام شاید ڈاکٹر شہناز تھا۔
اب یورپی قانون کے مطابق میری سی وی میں سب سے نمایاں میرے مقالے یعنی ریسرچ پیپر تھے کہ وہاں پی ایچ ڈی کا مطلب ہی ریسرچ ہے- اللہ جانے آغا صاحب کو کیا ہوا کہ ان کو میری سی وی پسند نہ آئی، میری ریسرچ پڑھ کر غصہ کر گئے یا مجھے پہچان گئے کہ ہم یونیورسٹی میں انٹی اسٹیبلشمنٹ کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے اور اسی لیے اپنی ماسٹرز کی ڈگری کا آخری سمسٹر بھی قربان کرنا پڑا ( یا عرف عام میں 'سڑ' گئے)- سی پڑھ کر کہنے لگے میں نے تو بیس پچیس پی ایچ ڈی حضرات کا مقالہ سپر وائز کیا ہے- میں ان کے اس کمنٹ پر حیران رہ گیا کہ حضور آپ نے مجھے منتخب کرنا ہے میں نے آپ کو نہیں- میں انٹرویو کی ٹون سمجھ گیا اور جواباً یہ تبصرہ کر مارا کہ حضور آپ کو کون نہیں جانتا۔ اللہ جانے وہ کیا سمجھے –
ادھر دوسرے پروفیسر صاحب جو باقاعدہ پی ایچ ڈی تھے میری سی وی پر نثار ہو چکے تھے اور مجھے سے پوچھنے لگے کب پڑھانا شروع کرسکتے ہو؟ کتنی تنخواہ لو گے؟ ایم فل کو پڑھا لوگے؟ میں نے جواب دیا تنخواہ کا کچھ سوچا نہیں باقی پڑھانا کونسا مشکل کام ہے- اب ڈاکٹر شہناز صاحب اچھا بھلا سوال پوچھیں لیکن بیچ میں آغا صاحب پر سوال کا فالودہ کر دیں کہ وہ سوال پوچھیں ، بیچ میں آغا صاحب اپنی گسھیڑیں اور اس کے بعد میں سوال کا جواب دوں مثلاً
ڈاکٹر شہناز: کیا آپ پی ایچ ڈی کو پڑھا لیں گے؟
آغا صاحب: ڈاکٹر صاحب (ڈاکٹر شہناز کو متوجہ کرتے ہوئے) یہ دیکھیں انہوں نے کوالیٹیٹو Qualitative ریسرچ کی آپ نے، کوانٹیٹیٹٹو Quantitative تو زیادہ اچھی ہے۔
میں: جی جی کیوں نہیں پڑھانا کونسا مشکل کام ہے
ڈاکٹر شہناز: آپ تنخواہ کتنی لیں گے
آغاصاحب: یہ سپورٹس مارکیٹنگ کا تو پاکستان میں کوئی اسکوپ نہیں ڈاکٹر صاحب
میں: جی تنخواہ کا تو سوچا نہیں جب ہو گی تب دیکھیں گے
بس ایسا تین طرفہ انٹرویو جب ختم ہوا تو ڈاکٹر شہناز بہت خوش نظر آئے اور بولے ہم آپ کو پھر بتائیں گے کونسی کلاس دینی ہے آپکو اور آغا صاحب ان کے بعد بولے کچھ دنوں تک سوچ کر پھر ہم آپ سے رابطہ کریں گے۔
میں نے سوچا جان بچی سو لاکھوں پائے اور کرو ملک کی خدمت- اور گھر آ گیا۔
کچھ دنوں بعد اسی یونیورسٹی سے ایک بار پھر فون آیا کہ آپ پرسوں انٹرویو کے لیے آئیں- میں نے کہا بی بی میں تو انٹرویو دے چکا ہوں۔ وہ بولیں اچھا۔۔ اور فون رکھ دیا۔ کچھ دیر بعد دوبارہ فون آیا کہ اب آپکو دوسری بار انٹرویو دینا ہو گا یہ فائنل انٹرویو ہے اور ویسے بھی پچھلی بار کمیٹی کے ایک رکن بی اے عالمگیر صاحب موجود نہ تھے۔
اب ہر وہ بندہ جو ملتان میں سپوکن فرنچ کی کلاس کر چکا ہے بی اے عالمگیر سے بخوبی واقف ہے اور میں بھی ان کے چرنوں کو چھونے کی عزت اٹھا چکا ہوں- سوچا چلو ایک بار پھر سہی-
اس روز صبح نو بجے کا ٹائم دیا گیا اور میں نو بجے پہنچ گیا- آگے گیا تو تیس چالیس بندے بندیاں آئے بیٹھے تھے، کچھ میری طرح دوسرے اور کچھ تیسرے چوتھے انٹرویو کے لیے آئے ہوتے تھے۔ کچھ کو بارہ بجے کا وقت دیا گیا تھا وہ آٹھ بجے کے آئے بیٹھے تھے آٹھ بجے والے سات بجے کے آئے ہوئے تھے- مجھے احساس ہوا کہ بیروزگاری اپنی جگہ احساس اور انسانیت کا احترام تو ہماری قوم کو چھو کر نہیں گزرا کہ کمیٹی اراکین نے آخر کار گیارہ بجے انٹرویو شروع کیے-
لائبریری میں بیٹھے تھے میں نے ایک انگریزی ناول پڑھنا شروع کردیا- جب ناول بور ہونے لگا تو وقت دیکھا اساڑھے
گیارہ بجے تھے۔ میں اٹھ کر رابطہ خاتون کے پاس گیا اور بولا "بی بی نو بجے بلایا تھا اساڑھے گیارہ ہو رہے ہیں کچھ تو خدا خدا کرو"-
بولی "بی اے عالمگیر صاحب کو ایک ضروری میٹنگ میں جانا پڑ گیا تھا اس لیے آٹھ بجے والے لوگ اب بلائے جارہے ہیں"۔
بس یہ سن کر میں نے کہا "بی بی صرف ایک عالمگیر صاحب کو ضروری میٹنگ میں جانا پڑ سکتا ہے میری بھی ایک ضروری میٹنگ ہے میں جا رہا ہوں آپ میرا نام لسٹ سے خارج کردیں"-
وہ ہکا بکا رہ گئی کہ بھلا نوکری ڈھونڈنے والا بیچارہ ایسے کیسے کہہ سکتا ہے-
وہ آگے کچھ کہنے لگی تو میں نے کہا "بھئی ضروری میٹنگ تو منسوخ نہیں کی جا سکتی ناں" اور اس کو حیرانی سے دیکھتا چھوڑ کر پاکستان کی خدمت کے خواب وہیں رکھ کر واپس آگیا۔
نوٹ: اس اصلی واقعے کے تمام کردار حقیقی ہیں تاہم ان سب کے نام اتا پتہ وغیرہ بدل دیے گیے ہیں
Aik interview jo nokri na hony k liye diya gaya