November 1, 2016

قمر وزیر کی مس عافیہ سے محبت


پیش لفظ: اس کہانی کے تمام کردار و واقعات فرضی ہیں کسی بھی قسم کی مطابقت محض اتفاقیہ ہو گی۔ اور اگر قمر وزیر خود یہ اردو بلاگ پڑھ لے جو کہ مشکل ہے اور سمجھ لے کہ اس کے بارے لکھا گیا ہے جو کہ ناممکن ہے تو میں اس کو کہنا چاہتا ہوں کہ بھائی ایک تو یہ میں نے لکھا نہیں ، دوسرا یہ جھوٹ ہے ، تیسرا جانے دے ناں دوست نہیں پھر۔۔۔۔ 


ایک روز قمر وزیر نے کلاس میں اعلان کیا کہ اس کو مس عافیہ سے محبت محبت ہوگئی ہے- ہم ملتان پبلک اسکول کی گیارہویں جماعت میں تھے اور اسکول میں ایف ایس سی کے اکثر طلبا آپے اور اوقات سے باہر ہی رہتے تھے کہ سینئر موسٹ تھے۔ مس عافیہ مڈل اسکول جس کو پریپ سکول کہا جاتا تھا میں کمپیوٹر پڑھایا کرتی تھیں۔ یہ اعلان سن کر قمر وزیر کے پاس بیٹھے لڑکوں نے ایسا شور و غوغا مچایا جیسا پچھلے سال ہمارے اسکول کے لڑکے کے بورڈ میں پہلی پوزیشن لینے کے بعد پرنسپل صاحب کے چھٹی کے اعلان پر ہم نے مچایا تھا میں جو قمر وزیر سے دو ڈیسک پیچھے بیٹھا تھا مزید دو ڈیسکیں پیچھے کھسک گیا۔ 

چھوٹے ہوتے میں اتنا سادا ، سیدھا اور شریف تھا جتنا جھوٹ بولا جا سکتا ہے- عشق معشوقی تو دور کی بات میں تو افسانے ناول میں جہاں ہیرو ہیروئین کی ذاتی گفتگو شروع ہوتی احتیاطاً ایک کی بجائے دو صفحے الٹ دیتا۔مفت کی شرم تو مجھ میں ایسی کوٹ کے بھری ہوئی تھی کہ ایک روز والد صاحب جو کہ خود مطالعے کے شوقین تھے کو کہنے لگا 
"بابا ایک بڑی اچھی غزل ہے سناؤں؟" 
اثبات پر رسالہ جس میں غزل چھپی تھی اٹھائی اور سنانے لگا 
"میں تیرے سنگ کیسے چلوں۔۔۔ تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا"۔ 
چلوں کے آگے "سجنا" پر پہنچ کر میں سوچنے لگا یہ کیا واہیتاگی ہے؟ اتنا برا لفظ والد صاحب کے سامنے کیسے پڑھوں۔ لہذا سجنا چھوڑ کر آگے بڑھ گیا اور پہلے شعر کے بعد آگے سنانے کی ہمت نہ رہی۔ اب میں یہ نہ جانتا تھا کہ یہ غزل نور جہان صاحبہ گا چکی ہیں اور خاصی مشہور ہے- بابا گنگنانے لگے میں تیرے سنگ کیسے چلوں سجنا--- تو ساحل ہے میں سمندروں کی ہوا--- اور میں سوچنے لگا یہ شاعر ادیب بڑے واہیات ہوتے ہیں کوئی ڈھنگ کی چیز لکھنا ان کے بس کا روگ نہیں۔ 

اب کجا عشق اور محبوب کا لفظ پڑھتے شرم آنا کجا کسی کا اپنی استانیوں استادوں پر عاشق ہوجانا۔ بھلے ہم اپنے تلخ تجربوں کی بنا پر استادوں کو والد کا درجہ دینے کے قائل نہ رہے ہوں لیکن عشق کو ہر حال میں گناہ ہی سمجھتے تھے اور یہ تو پھر استانیوں کا معاملہ تھا اور ویسے بھی ہماری زندگی کا اصول رہا ہے کہ گناہ صرف ہم ہی کریں باقی کوئی کرے تو قابل لعن طعن ہے۔ 

میری اور قمر وزیر کی کوئی ایسی گہری دوستی نہیں تھی بس ہم جماعت ہونے کے ناطے اور میرے دوستوں کا دوست ہونے کی بنا پر سلام دعا ہو جاتی تھی لیکن اس واقعے کے بعد میں اپنے دوستوں سے جب وہ قمر وزیر کے ساتھ ہوتے سے بھی کنی کترا جاتا۔ 

جب مس عافیہ کا قصہ طول پکڑ گیا تو ہم بھی ایک بار فرمائشی مس عافیہ کو دیکھنے گئے کہ دیکھیں تو سہی آخر کیا حسن ہے جس نے قمر وزیر کو قابو کر لیا ہے- لیکن مس عافیہ کو دیکھ کر قمر وزیر کی پسند پر افسوس ہوا حالانکہ تب تک ہم نے گنتی کی چند نا محرم لڑکیوں سے گفتگو کی تھی اور ایسی صورت میں ہمیں مس عافیہ اچھی لگنی چاہیے تھی لیکن اس کے باوجود مجھے قمر وزیر پر حیرت ہوئی جو کہ اسکول کا ہیڈ بوائے تھا، اپنی کار پر آتا تھا، جج کا بیٹا تھا، پیسے کی ریل پیل تھی، استاد اس سے دبتے تھے، کلاس کا وہ لیڈر تھا۔ آخر کس چیز کی کمی تھی؟ (ایک دوست کے بقول ادھر کمی آئیوڈین کی نہیں جوتوں کی تھی جو کہ ہماری ساری نئی نسل کو ہے)۔ ویسے تو قمر وزیر بھی مس عافیہ اور میری طرح ماشااللہ خوبرو اور خوش شکل تھا اور رنگ بھی میرے اور افریقیوں کے رنگ سے ملتا جلتا تھا لیکن پیسہ تو ہر عیب چھپا دیتا اور یہ بات میں تب بھی جانتا تھا۔ 

لیکن اللہ کا کرنا یہ ہوا مس عافیہ نے اس کو گھاس کیا چنوں کا بھاڑ تک نہ ڈالا جس سے کسی کو فائدہ ہوا ہو نہ ہوا ہو قمر وزیر کے دوستوں اور مس عافیہ کی گلی کے دکانداروں کو خاصا ہوا۔ اگر مس عافیہ راضی ہوجاتیں تو سرمایہ داروں کی چاندنی ہوتی کہ روز کسی بڑے ہوٹل میں دعوت اڑائی جاتی لیکن مس عافیہ غریب پرور اور پرولتاری ثابت ہوئیں جنہوں نے پیسے کو ٹھکرا دیا کہ اب جناب قمر صاحب اور انکے دوست روز کلاس میں پراکسی لگواتے، کنٹین پر قمر وزیر کے خرچے پر دعوت چلتی جس میں مس عافیہ کو منانے سے اغوا کرنے تک کے منصوبے زیر بحث آتے۔ چھٹی کے بعد جب باقی لوگ ٹیوشن پڑھنے جاتے قمر وزیر مس عافیہ کی گلی میں موجود دو دکانیں جہاں سے اس کی کھڑکی نظر آتی تھی حجام اور پرچون فروش کے پاس اس طرح وقت گزارتا کہ وہاں پہنچتے ساتھ شیو کرائی جاتی، پھر پرچون فروش سے لگاتار بوتلیں اور سیگرٹ اس طرح پییے جاتے کہ کہ مثانہ محبت کا افسانہ بن جاتا اور اس کو بہلانے کو ایک بار پھر حجام کے پاس جایا جاتا جہاں عشق سے بھی بڑا غم یعنی حاجت کا غم نمٹایا جاتا اور پھر سے شیو کرا کر قمر وزیر پرچون فروش کے پاس پہنچ جاتا کہ چاچا ایک بوتل اور سیگرٹ دینا۔ یہ مشق روز تین سے چار بار دوہرائی جاتی اور شام ہونے پر قمر وزیر گھر کی راہ اور مس عافیہ سکون کا سانس لیتے۔ 

قمر وزیر جو اچھا یار باش بندہ تھا اب عشق کے چکر میں پھنس کر زود رنج ہوگیا اور بات بات پر روٹھ جاتا- کبھی اسکو دوست مناتے کبھی خود ہی من جاتا۔ ایسے ہی ایک بات والی بال کھیلتے کہنے لگا "یار اگر مجھے عافیہ نہ ملی تو میں خود کشی کر لوں گا"۔ اس پر میں بولا " آپ کا مطلب مس عافیہ؟" اس نے گھور کر مجھے دیکھا اور چپ کرگیا- لیکن ایک اور دوست چپ نہ رہ سکا اور بولا " ہاں واقعی بوتل اور سیگرٹ پی پی کر دس پندرہ سالوں میں تجھے کینسر ہو جائے اور گا اور تو فوت ہو جائے گا "۔اس پر ایک اور نے لقمہ دیا " یا پانچ دس سال مسلسل دن میں تین بار شیو کرانے سے تیری جلد گھس جائے اور تیرا گوشت سڑنے لگے" اس پر وہ تلتما گیا اور اس نے پاس پڑی پیپسی کی بوتل سے پندرہ سال انتظار کرنے کی بجائے بوتل ہاتھ پر مار کر بوتل اور اپنے بازو دونوں کا ستیا ناس کر لیا۔ 

اس پر کچھ دوستوں نے جنکو بڑا بننے کا ویسے بھی شوق تھا سوچا کہ معاملہ بہت سیریس ہے- وہ ایک وفد لیکر مس عافیہ کے پاس گئے۔ مس عافیہ نے کہا اگر آپ کہیں تو میں پیپسی پر پابندی کی مہم چلا سکتی ہوں کہ وہ دوبارہ خود کو زخمی نہ کرلے بہ نسبت اس کے اس سے پیار کی پینگیں بڑھاؤں (مطلب شادی کے بارے سوچوں)۔ 

ایک رات دوستوں کے ہمراہ قمر وزیر نے خود کو بلیڈ سے کٹ لگایا اور مس عافیہ کو فون کردیا- شکر ہے اس زمانے میں موبائل کی لعنت نہیں تھی وگرنہ تو کیا ہوتا اللہ جانے- بہرحال مس عافیہ نے کوئی مثبت جواب نہ دیا بس یوں سمجھ لیں کہ کہا اپنا سر کھاؤ، اب قمر وزیر صاحب پر بھوت سوار ہو گیا اور اس نے ہر گھنٹے بعد کٹ لگانا اور مس عافیہ کو فون کرنا شروع کردیا۔ مس عافیہ بھی شاید اسی امید میں فون اٹھا لیتیں کہ شاید یہ اطلاع مل جائے کہ زیادہ خون بہنے سے مس عافیہ کی قمر وزیر سے جان چھوٹ گئی لیکن نہ قمر وزیر کے کٹ ختم ہوئے، نہ مس عافیہ کا فون اٹھانا۔ آخر کار رات ہی ختم ہوگئی اور اور تماشہ اختتام پذیر ہوا۔ 

اب فرسٹ ائیر کے نتائج آئے تو نئے پرنسپل صاحب نے اعلان کیا کہ وہ تمام لڑکے جو فرسٹ ائیر میں دو یا دو سے زیادہ مضامین میں فیل ہیں ان کا نام اسکول سے خارج کیا جاتا ہے حالانکہ بہت سے لڑکے خود سے فرسٹ ائیر میں مضامین چھوڑ دیتے ہیں کہ اگلے سال اکٹھے دیں گے – بہرحال کچھ لڑکے چھوڑ گئے اور کچھ لڑکے عدالتوں کے زور پر واپس آگئے لیکن واپس آنے والوں میں قمر وزیر نہ تھا۔ 

اللہ جانے اس کے بعد کیا ہوا کیا نہ ہوا کہ ہم تو تب بے خبر رہتے تھے جب وہ ہمارے ساتھ موجود تھا اس کی غیر موجودگی میں کہا پتہ رکھتے بس پتہ یہ چلا کہ قمر وزیر اور مس عافیہ کی شادی ہوگئی اور وہ دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے اپنے اپنے نصف بہتر کے ساتھ ۔ یعنی قمر وزیر اور مس عافیہ کی شادی تو ہوئی لیکن ایک دوسرے کے ساتھ نہیں-

Qamar Wazeer ki miss aafia se muhabbat