ہماری قوم جیسے بھیڑ چال کی عادی ہے تو جب کوئی ایک شخص کریانے کی دکان کھولتا ہے تو چند ہی دنوں میں اس سے اردگرد کئی کریانے کی دکانیں مزید کھل جاتی ہیں، ایک بندہ بس میں معجون اور چورن بیچنا شروع کرتا ہے تو ساری قوم ہاتھ میں بکسا پکڑے معجون بیچنا چالو کر دیتی ہے، ایک لڑکا ڈاکٹر بنتا ہے تو پیچھے لائن لگ جاتی، ایک ون ویلینگ کرتا ہے تو باقی قوم ایک کیا آدھ ویلنگ کرنے پر تل جاتی ہے ایسے ہی آج کل قوم کو جس چیز کا دورہ پڑا ہے وہ ہے فیس بکی دانشور بننے کا۔
فیس بکی دانشور ہونے میں سب سے بڑی آسانی یہ ہے کہ آپ کے پاس فقط انٹرنیٹ ہونا ضروری ہے باقی عقل، سوچ، تعلیم، وغیرہ جیسی تمام اشیا ثانوی رہ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر، انجینئر ، استاد بننے کے لیے آپ کو کچھ ڈگری چاہیے کسی شے میں مہارت چاہیے جبکہ فیس بکی دانشور کے لیے تو آپ کو اردو لکھنا نہیں آتی تو خیر ہے رومن اردو میں آپ قارئین کا دل اور جگر دہلا سکتے ہیں۔
چونکہ میں اس وقت سے بلاگر ہوں جب بلاگر ہونے کی لہر شروع بھی نہیں ہوئی تھی اس لیے سوشل میڈیا کے اتار چڑھاؤ پر نظر رکھنے کے باعث ہم خود کو فیس بک کے ماہر گردانتے ہیں اور اسی لیے ایسے لوگوں کے لیے جو فیس بکی دانشور بننا چاہتے ہیں اور بن نہیں پا رہے یااپنے تئیں دانشور ہیں لیکن شہرت نہیں حاصل کر پارہے کے لیے ایک آسان سادہ ہدایت نامہ نما بلاگ پیش ہے ہدیہ فقط یہ ہے کہ خاکسار کو ٹیگا نہ جائے اور گروپوں میں ایڈا نہ جائے کہ آپ جانیں آپ کی دانشوری جانے ہم لنڈورے ہی بھلے۔
سب سے پہلے اپنے اصلی اور اچھے نام محمد عمران، کامران خان، شفیق علی وغیرہ کو بھول کر کوئی نیا نام رکھیں- یاد رہے نام اصلی زندگی میں نہیں رکھنے بلکہ فیس بک پر رکھنے ہیں۔ آپ یا تو کچھ ایسا رکھ سکتے ہیں اللہ ڈتہ، اللہ ودھایا، انجیر بی بی یا پھر ذات پات بھی رکھ سکتے ہیں کہ لال بیگ، خان جی، وڈا جٹ، موٹا بٹ وغیرہ – ایک اور طریقہ عرفیت رکھنے کا بھی ہے کہ شیدا ٹلی، مودا ٹیں پٹاخ، سجا لہوری یا پھر ایسے ہی کچھ بھی مثلاً چھتر پریڈ، چیں چاں، بونگا بندھو وغیرہ- جتنا نام عجیب ہو گا اتنا اس کا اثر ہو گا اس لیے سب سے پہلے فیس بک پر ایک نئے، نرالے (جس کو عام زندگی میں چول کہا جاتا ہے) نام سے اکاؤنٹ بنائیں اور آپ کے فیس بکی دانشور بننے کی پہلی منزل سر ہو چکی۔ یہاں یہ بات ایک بار پھر نوٹ کرنے کی ہے کہ اگر نام یا اکاؤنٹ زنانہ بنایا جائے تو سمجھیں سو پچاس فالوئرز تو مفت میں 'ترسی ہوئی مخلوق' قسم کے ہاتھ آ جائیں گے-
اب مرحلہ آتا ہے پوسٹنگ کا – یہاں آپ کے پاس چوائس ہے کہ آپ کس قسم کے دانشور بن سکتے ہیں-
1- قوم کے غم خوار (جو آخر کار سیاہ سی نکلتے ہیں)
2- محبت کے خدائی خوار
3- مذہبی نمک خوار
4- سائنسی شیر خوار
5- اخلاقی پنشن خوار
6- سازشی پکوڑے خوار
قوم کے غم خوار وہ ہیں جن کو دن رات، اٹھتے بیٹھتے قوم کا درد کھائے جائے رہا ہے اور ان کو پاکستانی قوم کی پستی و ذلت مٹانے کی خاطر دن رات ہندی و انگریزی فلمیں دیکھ کر غم غلط کرنا پڑتا ہے- اگر کوئی برا کام کرے تو ان لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے اور اگر کوئی اچھا کام کرے تو بھی ان کو تکلیف ہوتی ہے کہ یہ اچھائی میں سے برائی نکالنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ قوم کے غم خواروں کو ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ قومی مسائل میں با آسانی سیاسی مسائل گھسیڑ کر خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
محبت کے خدائی خوار وہ لوگ ہیں جن کو سارا سال دسمبر ہوا رہتا ہے اور عشق محبت میں تڑپ تڑپ کر یہ آس پاس والوں کی جان لینے میں مہارت رکھتے ہیں- ان کو کئی الٹے سیدھے ایسے شعر یاد ہوتے ہیں اور اس سوز میں سناتے ہیں کہ عام حالات میں آپ پڑھیں یا سنیں تو آئندہ زندگی شیر کو شعر پر ترجیع دینے لگیں۔
مذہبی نمک خوار وہ لوگ ہیں جو رات دن مذہبی بحثیں کرتے رہتے ہیں اور اچھی خاصی بات میں بھی مذہب کا تڑکا لگانے سے نہیں چوکتے- چونکہ موضوع حساس ہے اور میں فیس بکی دانشور نہیں اس لیے بقیہ معاملات خود سمجھ جائیں۔
سائنسی شیر خوار وہ ہیں جو دو چار کتابیں پڑھ کر ہر معاملے کو سائنسی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نتیجے میں عام اشیا دیکھنے سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ بھلے یہ اپنے میٹرک میں فزکس اور کیمسٹری میں سپلیاں لے چکے ہوں لیکن کبھی ان سے روشنی کی ماہیت اور نیوٹن کے قوانین بارے پوچھ کر دیکھ لیں کانوں سے دھوئیں نہ نکلیں تو مشورہ واپس- ویسے ان لوگوں کو ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اکثر اوقات یہ مذہب سے انتہائی بیزار ہوتے ہیں اور پاکستان کی بجلی کا مسئلہ بھی مذہب کے نام تھوپنے سے گریز نہیں کرتے۔
اخلاقی پنشن خوار وہ لوگ ہیں جنہوں نے لوگوں کے اخلاق سدھارنے کا خود ساختہ ٹھیکہ لیا ہوتا ہے۔ویسے تو یہ قوم کے غم خوار کے نزدیک ترین گروہ ہے جیسے اونٹ کا قریبی رشتہ دار لامہ لیکن ان کا تمام فوکس اخلاقیات پر ہوتا ہے اور بھلے یہ عام زندگی میں کسی سے ہنس کر بات نہ کریں فیس بک پر خوش اخلاقی کو پوسٹتے پوسٹتے نہیں تھکتے۔
آخری قسم ہے سازشی پکوڑہ خوار کی- اللہ کا شکر ہے پاکستان میں یہ انواع ابھی تک کم ہے اور جو ہیں وہ زیادہ تر انگریزی میڈیم ہیں لیکن جتنے ہیں وہ بھی کم نہیں کہ کچھ بھی ہو اس میں سے یہ کوئی نہ کوئی سازش کا عنصر ضرور ڈھونڈ لائیں گے اور آج کل سیاسی ماحول میں ان کی بڑی مانگ ہے کہ اچھی بھلی بات کو گھماتے گھماتے بندہ تک گھما دیں گے۔
اب آپ نے یہ طے کر نا ہے کہ آپ کیسے دانشور بننا چاہتے ہیں
آج کل سب سے زیادہ مانگ قوم کے غم خواروں کی ہے جو سب سیاسی چھری کانٹے لیے بیٹھے ہیں یعنی قوم کے غم خوار انصافی اور نونیوں میں بٹ چکے ہیں– فیس بکی سیاسی دانشور بننے کا بڑا آسان طریقہ ہے- سب سے پہلے تحریک انصاف کی حمایت کریں اور جب ہزار پانچ سو بندہ ہو جائے تو نونی بن جائیں- اس سے وہ ہزار پانچ سو مزید ہزار پانچ سو لائے گا تاکہ آپ کو لعن طعن کر سکے یوں آپ دن دگنی رات چوگنی ترقی کر سکیں گے- دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بس تحریک کے ہی حامی رہیے لیکن اس میں آپ کو نون کی مخالفت میں جدت لانی ہو گی وگرنہ انقلابی کسی اور دانشور کی طرف چل دیں گے۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ شروع سے آخیر تک نونی رہیں یہ سست رفتار رستہ ہے لیکن آپ نے استقامت دکھائی تو ادھر بھی کامیابی کے خاصے چانسز ہیں- ایک اور طریقہ یہ بھی ہے کہ بچھے کھچے گروہ کی نمائندگی کی جائے جیسے جماعت اسلامی، اے این پی، مولانا فضل الرحمن تو ایسی صورت میں بس یہ ہے کہ کوئی بھولا بھٹکا ڈھونڈتا ڈھانڈتا آپ کو فالو کر لے گا اور خوب گزرے گی جو مل بیٹھں گے دو چار۔۔۔
محبت کے خدائی خوار بننے کے لیے آپ کو جلے سڑے شعر، لڑکیوں کی نیم فحش تصاویر، چند الٹے سیدھے ناولوں کے اقتباسات چاہییں جو کہ آپ اس رفتار سے پوسٹیں جس رفتار سے ساون میں ہیضہ پھیلتا ہے۔
مذہبی معاملات کے لیے دو راستے ہیں- یا ماڈرن بن جائیں یا پرانے خیالات کے- جو بھی گروہ میں شمولیت اختیار کریں اس کے لیے لازم ہے کہ گاہے بگاہے دوسرے گروہ کو چھیڑتے رہیے۔ اس سے زیادہ کہنا ہمارے لیے ممکن نہیں مزید معلومات کے لیے ان باکس میں رابطہ کیجیے۔
سائنسی شیر خوار بننے کے لیے دو چار سائنسی نظریات و تھیوریاں فیس بک پر دیکھیں اور جو بھی بری بات ہو اس کا ناطہ سائنسی تعلیم و نطریات کی کمی سے جوڑ دیجیے۔
ریل حادثہ ہوا- سائنسی آلات کا نا ہونا
آگ لگی۔ سائنسی نظریات کا نہ ہوتا
فوتیدگی ہوگئی- سائنس کا اپنے اوپر استعمال نہ کرنا۔
الغرض سائنسی کا نہ ہونا اسم اعظم ٹھہرا- وہ لوگ جو مذہب کو بھی سائنس کی آڑ میں رگیدنا چاہتے ہوں ان کے لیے پیشگی مفت مشورہ ہے کہ کسی ملک میں پہلے سیاسی پناہ پکڑ لیں۔
اخلاقی پنشن خوار بننا تو انتہائی آسان ہے اپنے محلے/ کالونی کے کسی بوڑھے / بوڑھیا کو دیکھ لیں کہ کیسے وہ نوجوانوں کی ہر بات میں با آسانی اخلاقیات کا فقدان پیدا کرسکتے ہیں۔
سازشی پکوڑے خوار بننے کے لیے تھوڑی محنت کرنا پڑتی ہے اس لیے ہمارا مشورہ ہے کہ بس جو کر رہے ہیں ان کو ہی کرنے دیں اور اگر زیادہ شوق بھی ہے تو ان کے کام پر ہاتھ کی صفائی دکھائیں اور ان کا کاپی کر کے پیسٹ کرنا شروع کر دیں۔باقی جو کر رہے ہیں ان سے گزارش ہے کہ باگیں ڈھیل دے کر رکھیں۔
چند ضروری ہدایات۔
• کبھی مناسب اور متناسب بات نہ کریں بلکہ ہر معاملے میں انتہائی حد کو چھو لیں۔
• خود کبھی ہار نہ مانیں اور اگر جواب نہیں مل رہا تو فوراً ذاتیات پر اتر آئیں۔
• آپ یہ بات قطعی طور پر سمجھ لیں کہ آپ ہی عقل کل ہیں اور باقی سارے پاغل (پاغل پاگل سے بھی اگلا درجہ ہے) ہیں اور آپ ایک خدائی فوجدار ہیں جس نے ڈنڈے کے زور پر بقیہ دنیا کو سیدھا کرنا ہے
• کبھی نہ مانیں کہ آپ کسی ایک خاص گروہ (مثلاً تحریک انصاف/ نون) کی حمایت کرتے ہیں بلکہ دوسرے گروہ کو گالیاں نکالتے ہوئے کہیں کہ آپ تو غیر جانبدار ہیں- یوں آپ کے فالوئر کہیں گے یہ دیکھو یہ غیر جانبدار بندہ ہماری طرف لے رہا ہے اور آپ کے فالوئرز مزید بڑھتے جائیں گے۔
• گالم گلوچ، فحش کلامی کھیل کا حصہ ہیں لہذا استعمال کرنے سے کبھی نہ چوکیں اور اگر کوئی دوسرا آپ کے بارے کرے تو فوراً اسکرین شاٹ محفوظ کر لیں تاکہ آئندہ اس کو یہ احساس دلایا جا سکے کہ وہ مہذب گفتگو کرنے کے قابل ہی نہیں یوں وہ مستقبل میں کوئی اچھی بات بھی کرے تو سکرین شاٹ فوراً پیش کر دیں
• اسٹیٹس جتنے زیادہ اور جتنے کٹر (باالفاظ دیگر گٹر) ہوں گے کامیابی کا امکان اتنا بڑھتا جائے گا۔
• فیس بک پر خود کو معزز دکھانے کو ساتھ ٹوئیٹر کا کھڑاگ بھی کھڑا کر لیں-
• جب کوئی نئی بات ہو تو کہیں دیکھا میں نے کہا تھا ناں ایسا ہوگا، کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ پوچھے کہ بھائی کب کہا تھا اور کوئی پوچھ بھی لے تو اسے باتوں میں اڑا دیں۔
لیں جی جو ہمارے بس میں تھا ہم نے آپ کے پیش کردیا- مستقبل کا فیس بکی دانشور بننے کے لیے ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔
Facebook per danishwar banny ka asan tareqa