ایک خاصا مشہور لطیفہ ہے کہ ایک بار ایک شخص کو عدالت میں پیش کیا گیا جس پر الزام تھا کہ اس نے گھونسا مار کر دوسرے شخص کی ناک توڑ دی تھی۔ جج نے پوچھا کہ بھئی کیوں ناک توڑی تو وہ شخص بولا کہ اس نے دو سال قبل مجھے گینڈا کہا تھا۔ جج نے تعجب کا اظہار کیا کہ اس نے تو دو سال قبل کہا تھا ناک تم نے اب توڑی- وہ شخص بولا کہ حضور میں نے پرسوں ہی چڑیا گھر میں پہلی بار گینڈا دیکھا ہے-
مولوی حمداللہ اور ماروی سرمد کے قضیے کے بعد نجانے مجھے یہ لطیفہ کیوں یاد آگیا حالانکہ یہ لطفیہ اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے کہ آج کے سوشل میڈیائی زمانے میں کس نے کیا کچھ نہ دیکھ رکھا ہے اور آج کل کا زمانہ ہوتا تو فیس بک، ٹوئیٹر کے زریعے ہی وہ بھڑاس نکال کر شیر و شکر ہوچکے ہوتے اور گینڈا کے نام سے ہینڈل ہونے والا ٹوئیٹر اکاؤنٹ صفائیاں دیتا پھر رہا ہوتا۔
بات یہ ہے کہ ہمارا سارا معاشرہ اس معقولے پر عمل پیرا ہے کہ "تم ہمارا ایک مہمان قتل کرو گے ہم تمھارا دو مہمان قتل کرے گا۔امارا نام بھی پاکستان خان ہے" تو ایسے ہی ہم سب بھی ایک گالی دینے والے دو گالیاں دے کر کہتےہیں ہم بھی پاکستانی ہیں کوئی مذاق تھوڑی ناں ہیں۔
ویسے تو قصہ کب کا چل رہا ہے اور اب چلتا ہی رہے گا لیکن اصل شور تب مچا جب وزیر با تدبیر نے شریں مزاری کو "ٹریکٹر ٹرالی" کہہ دیا۔ اب شریں مزاری کے حمائییوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ وزیر صاحب کے اپنے الفاظ میں "کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے" اور وزیر صاحب کے یعنی نون لیگ کے حمائیتیوں نے کہا کہ یہ تو جو بویا ہے وہ کاٹا ہے کہ عمران خان صاحب خود کنٹینر پر اؤئے شوئے اور ابے تبے کرتے رہے تب تو کسی نے ان کی زبان نہ پکڑی تو اب انہوں نے ٹریکٹر ٹرالی کہہ دیا تو غصہ کیا۔ گویا کہ اگر آپ ہماری خواتین کو چھیڑیں گے تو ہم بھی آپ کی خواتین کو نہیں بخشیں گے۔ بہت خوب انصاف کی بات کی۔
ابھی معاملہ گرم تھا کہ مولانا حمد اللہ اور ماروی سرمد کا قضیہ منظر عام پر آ گیا۔ ٹی وی پروگرام میں بیٹھ کر مولانا اور ماروی سرمد کی زبان سے ایسے پھول جھڑے کہ بس پوچھیے مت۔ اب ایک بار پھر حمائیتی میدان میں اترے اور مبینہ لبرل مولانا کو لام کاف اور مذہب پسند ماروی سرمد کے لتے لینے اور مولانا کو درست ثابت کرنے میں لگ گئے۔ اور دونوں کی کوشش یہ رہی کہ کسی طرح ان کا کتا ٹومی ہو جائے۔
ویسے پاکستان میں سوشل میڈیائی بڑے مقابلے انصافیوں بمقابلہ نونیوں اور لبرل بمقابلہ مذہب پسندوں میں درپیش رہے ہیں۔ چلو نون اور تحریک کی پھر سمجھ آتی ہے لیکن آپ کسی مذہب پسند کے سامنے تھوڑا بحث کیجیے وہ آپ کو لبرل کہہ دے گا اور لبرل کے سامنے مذہب کی بات کریں تو مولوی قرار پائیں گے۔بس خود کو بچائے رکھنے کی ایک صورت ہے کہ فیس بک پر ان فالو کا بٹن استعمال کرتے جائیں۔
یہ سب کہنے کا مقصد اتنا ہے کہ برائی چاہے کوئی کرے برائی ہی ہے۔ صرف اس بناپر کہ وہ آپ کا عشق ہے پاکیزہ نہیں ہو سکتا اور دوسرے کا عشق ہے تو ہوس قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر عمران خان نے کسی سے بدتمیزی کی ہے تو برا کیا ہے اور کسی نے شریں مزاری اور ماروی سے بدتمیزی کی ہے تو دوہرا برا کیا ہے کہ خواتین کی عزت بہرحال لازم ہے۔ اور خواتین کا اپنی عزت کرانا بھی ضروری ہے۔
مجھے یاد ہے کہ میری کمسنی میں جو خاتون کے ساتھ بدتمیزی کرتا تھا نامرد کہلاتا تھا لیکن ایسے ہی جو خواتین گالیاں یا خرافات بکتی تھیں ان کو بھی انتہائی بری نگاہ سے دیکھاجاتا تھا اور ان کو بھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جاتا تھا۔
آپ بھلے نون کا چاہیں یا میم کو دین کو پسند کریں یا دنیا کو لیکن حقیقت یہی ہے کہ گالم گلوچ، خواتین سے بدتمیزی، بد اخلاقی ہر حال میں برائی ہی رہے گی باقی سرائیکی میں کہتے ہیں " یا ہنگدے کوں حیا یا لنگھدے کوں حیا"
Moulana or Marvi- kis ka kutta Tomy
Moulana or Marvi- kis ka kutta Tomy