پس تحریر: قصور تو محض استعارہ ہے ہر ظلم کا۔۔۔۔
کیمرہ مین نے کہا "ایکشن"! اور فلم میں ریکارڈنگ شروع ہو گئی۔۔۔
پہاڑ انتظار کرنے لگے کہ ابھی وہ روئی کی مانند اڑتے پھریں گے-
سورج تمام ایندھن جمع کر کے سوا نیزے پر آنے کو تیار ہو گیا۔
ہوا اپنی ہولناکیاں بکھیرنے کا سوچنے لگی۔
بادلوں نے سمندر سے پانی کا ایک ایک قطرہ چوسنا شروع کر دیا کہ آج اتنا برسیں گے کہ زمین کی پیاس بجھ جائے پانی ختم نہ ہو-
مٹی نے سوچا آج بارش ہونے پر ایک قطرہ جو جذب کروں تو حرام-
سمندر اور دریا طغیانی بھری لہروں کی ہمت جٹانے لگے۔
بے زبان مخلوق نے اپنے کان کھڑے کر لیے جیسے صور پھونکا چاہتا ہو-
ستارے اور چاند سوکھے پتوں کی مانند آسمان سے جھڑنے کو تیار ہو گئے۔
آتش فشانوں نے لاوا جمع کر کے پومپائی دوہرانے کی تیاری شروع کر دی-
چرند پرند، جمادات نباتات، سب ایک آخری اشارے کے منتظر رہے لیکن رحمان رحمت نہ کرے تو کیا کرے---
اتنی دیر میں خدا کے دو نائب باہر سیگرٹ پینے کو نکلے، دونوں ایک درخت کے نیچے چھاؤں میں ٹھہر گئے –
پہلے نے سیاہ دھواں منہ سے خارج کرتے دوسرے کو کہا، "آج کی فلم سے تو ملک صاحب خوش ہو جائیں گے"،
دوسرے نے برا سا منہ بنایا اور جواب دیا ' وہ تو لاکھوں ڈالر لے گا ہمیں کیا ملے چند ہزار؟"۔
پہلے نائب نے دوسرے کو خوش کرنے کی غرض سے اس کے سر کے گرد بازو حائل کیا اور اپنی طرف پیار سے کھینچ کر کہا، "بھلے ڈالر ملک استعمال کرے، بچے تو ہمارے زیر استعمال ہیں"۔
اللہ کے دونوں نائبوں کے چہروں پر شیطانیت، باتوں میں خباثت، انداز میں شہوت اور چال میں خدائی تھی---
جس درخت کے نیچے ٹھہر کر وہ سیگرٹ پی رہے تھے وہ درخت اس کائنات کے خلفا کے چلے جانے کے بعد شق ہو کر سجدے میں گر گیا، اسکے پورے وجود پر لرزہ طاری تھا اور کانپتی زبان پر تسبیح تسبیح جاری تھی ٗ"غیر المغضوب علیھم"۔۔۔
Qasoor