Main aur Gorian
عمر کے پچیسویں سال میں میری بھی قسمت کھلی اور میں گوریوں کے دیس پہنچ گیا۔وہ پہلی گوری جس کے روبرو مجھے جانے کااور گفتگو کرنے کا اعزاز حاصل ہوا اس سے کچھ زیادہ ہی انکساری اور خوش اخلاقی سے بات کرنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ پہلی گوری تھی جس سے میں بات کر رہا تھا بلکہ
اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ فرینکفرٹ ایر پورٹ پر امیگریشن کا کام کر رہی تھی اور میرا یورپ میں داخلہ اس کے ہاتھ میں تھامی مہر پر منحصر تھااور میں ایسا نہیں کرنا چاہ رہا تھا جس سے وہ برا منا جائے اور مجھے واپسی پاکستان جانے والے جہاز پر سوار کرا دے۔
پاکستان میں تو خیر جو ہوا سو ہوا پر وارسا آکر دل میں بڑی خواہشیں تھیں کہ یوں ہو جائے ووں ہو جائے۔وارسا پہنچنے پر ہر ملنے والے نے ایک بندے نےصلاح دی کہ ایک سہیلی بنا لو بس اس کے بعد تمام مشکلیں ختم ہو جائیں گے گویا گوری نہ ہوئی الہ دین کے چراغ کا جن ہو گئی۔پر مجھے وارسا پہنچنے کے بعد دو سب سے زیادہ مشکلیں پیش آئیں ان میں ایک تو کتوں کی بہتات اور دوسرا لوٹوں کی کمی تھی۔تفصیلاً عرض یہ ہے کہ بچپن سے ہی مجھے کتوں سے اتنا ڈر لگتا ہے فوبیا کہلایا جا سکتا ہے۔کتا کیا کتے کا بچہ بھی ہو تو میرے اوسان خطا کر نے کو کافی ہے اور دوسرا معاملہ لوٹوں کا، ویسے تو سیاستدان جہاں کہیں بھی ہوں لوٹے لازمی ہوں گے فرق یہ ہے کہیں زیادہ کہیں کم اور کہیں تمام کے تمام پر یہاں ان کی نہیں بلکہ اصلی لوٹوں کی بات ہے جو ہمارے غسل خانوں میں پائے جاتے ہیں اور یہاں فراغت سے قبل ہم کو پلاسٹک کی بوتل تلاش کرنا پڑتی ہے ، گویا ایک مجبوری سے فراغت کے لیے ایک اور رکاوٹ آڑے آ جاتی ہے۔مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی اگر کوئی سہیلی بن بھی جاتی تو یہ دو مشکلات کیسے حل ہوتیں یار لوگ جانتے ہوں گے امید ہے کسی دن کوئی نہ کوئی یہ معمہ بھی حل کر دے گا۔
وارسا میں وہاں ہم سے دو ہفتہ قبل پہنچے ہمارے ایک دوست نے ہم پر سینیارٹی جماتے ہوئے راز کی بات بتائی کہ یہاں لڑکیوں کو تاڑنے میں خیال رکھا جائے کہ یہ پاکستان نہیں یہاں تو لڑکیاں خود آ کر کہہ دیں گی
Hi, you dont have words to say
?why you are looking at me
سچ پوچھیے تو یہ بشارت سن کر دل باغ باغ ہو گیاکہ ہم بے کسوں کی بھی سنی گئی ہے۔
جب وارسامیں میرے پہلے دوست کی سہیلی بنی تو اس نے بڑی کوشش کی کہ ہم کو پتہ نہ چلے پر دیکھنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں اور جس جس کو پتہ چلا اس نے اس کو ایسے آکر مبارک باد دی جیسے اس کا آکڑے میں نمبر لگ گیا ہو۔میرا دل ایسا مسرور ہو ا جیسے اس کو نہیں بلکہ مجھے سہیلی مل گئی ہو اصل میں یہ خوشی اس بات کی تھی کہ ہمارا نمبر بھی لگنے والا ہے۔پر جب سب سے آخری دوست کو بھی سہیلی مل گئی تو بظاہر اس کو ہنستے ہوئے مبارکباد دی پر دل شدید جھنجلاہٹ کا شکار تھا کہ ایک میں ہی رہ گیا۔لیکن جب دوستوں نے پہلی چھوڑ دوسری اور تیسری اور چوتھی اور کئی تو افق سے بھی پار جانے کی کوشش میں لامتناہی سہیلیاں بنانے لگے اور ان کی شروع شروع کی شرم دور ہو گئی اور وہ اپنی سہیلیوں کو ناموں کی بجائے نمبروں سے زیرِ بحث لانے لگے تو میں نے بھی اپنے موقف میں یو ٹرن لیا اور دل میں اسلام، اخلاقیات اور حیا جگا کر میں سہیلیاں بنانے کی مذمت میں جٹ گیا اور اب اپنے اسی موقف پر قائم ہوں۔
ایسا نہیں ہے کہ میں نے ایسے ہی بیٹھے بیٹھے ہمت ہار دی ۔جب میں نیانیا وارسا آیا تھا تو کچھ عرصے بعد مجھے احساس ہوا کہ لڑکیاں بڑی بری طرح گھورتی ہیں ۔بات سمجھ میں نہ آئی کہ ایسا کیوں ہے ۔شروع شروع میں تو میں سمجھا کہ شاید پہلی بار پاکستا نی دیکھا ہے یا پاکستانیوں کا نقش ان کے دلوں پر اچھا نہیں لیکن بعد میں میرے دوست تصور(الو کا پٹھہ فیم)نے مجھے یقین دلایا کہ یہ نظر پہلی دفعہ دیکھنے والی یا برا نظریہ رکھنے والی نہیں بلکہ یہ تم پر مرتی ہیں۔تصور کی بات سن کر میں نے اس کا خوب مذاق اڑایااور کہا کہ بھائی پورے پولینڈ میں ٹانگ کھینچنے کے لیے ایک میں ہی ملا ہوں پر یقین مانیے دل ہی دل میں ایسی راحت محسوس ہوئی جو ناقابلِ بیان ہے دل چاہا کہ تصور ایسے ہی اصرار کرتا رہے اور میرے دل میں ایسے ہی لڈو پھوٹتے رہیں اور آخر میں تصور کی بات پر ایمان لے آؤں اور کہیں سے ایک گوری آن ٹپکے اور کہے کہ ہاں تصور سچ کہتا ہے اور میں اس کا عملی ثبوت ہوں مگر تصور نے یہ کہہ کر بات ختم کردی مانو یا نہ مانو پر حقیقت یہی ہے۔بھلا دوست ایسے بھی ہوتے ہیں۔ہونہہ مطلبی۔
پر اس میں تو کوئی شک نہیں کہ لڑکیاں گھورتی تھیں اور ایسے گھورتی تھیں کہ میرے جیسا کھویا کھویا شخص بھی چونکنے پر مجبور ہوجاتا۔لیکن بات آگے نہ بڑھ سکی اور زیادہ سے زیادہ بات یہاں تک ہی پہنچ سکی کہ میں اور گوریاں ایک دوسرے کو گھورتے رہے اور وہ اپنے سٹاپ پر اتر کر چلی جاتی اور میں اپنے سٹاپ۔جبکہ میرے نزدیک اس بات میں ذرہ بھر بھی مبالغہ نہیں کہ یہاں لڑکی سے تعلق بنانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ کو وہ اپنی طرف متوجہ نظر آئے تو اتنا جا کر کہہ دیں۔
Can you speak English?
اور بس۔
پر سچ پوچھیں تو کبھی ہمت ہی نہیں ہوئی اور اپنی اعلان کردہ پارسائی سے پہلے اور بعد کے تمام عرصہ میں اس بات کا انتظار کرتا رہا کہ کوئی تو ایسی ہو گی جو خود آکر گلے پڑ جائے گئی اور کہے گی ’علی شاہ میں تو تم پر رہ گئی‘۔پر انتظار جاری ہے دیکھیے۔
پہلے پہلے تو میرے دوست بھی میری حوصلہ افزائی کرتے رہے اور میری ٹھنڈی آہیں سن سن کر مجھے مختلف قیمتی مشوروں اور تجربات سے نوازتے رہے تاکہ میری بھی سہیلی بن جائے اور میرے ٹھنڈی آہوں سے ان کو نجات مل سکے لیکن میری پارسائی کے اعلان کے بعد میرے دوست انتقام پر اتر آئے اور مجھے مزید شدومد سے مشورے دینے لگے تاکہ میری سہیلی بن جائے اور وہ کسی قسم کی شرمندگی محسوس نہ کرسکیں اور اس حمام میں سب ننگے ہو جائیں۔تنگ آکر وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے اور مشوروں کی بجائے کچھ اس قسم کی باتیں کرنے لگے۔
او شاہ،تیرے پانی ہی نہیں ہے۔
جا او شاہ ہم جانتے ہیں تیرے ایمان کو ۔
جب دم نہیں ہوتا تو پھر بندہ مومن ہی بن جاتا ہے۔
شرم کر اور کچھ پھنسا پھنسو لے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ میں وہ جوں ہی تلاش کرتا رہ گیا جو میرے کان پر رینگ سکے۔
مزے کی بات یہ ہے پولش میں ڈارلنگ کو ’کوخانیے‘ کہتے ہیں اور جس دن سے میں نے یہ لفظ سنا ہے اس کا صوتی اثر ہمیشہ مجھے قل خوانی لگتا ہے ۔اور کئی لوگوں کی قل خوانی معاف کریں کوخانی دیکھ کر محرومی کے احساس کے باوجود اطمنان سا ہوتا ہے کیونکہ میرے ایک دوست نے بڑی معرکتہ الآ را بات کی تھی جب اس سے میں نے پوچھا یار کتنی سہیلیاں بنا چھوڑی ہیں تو وہ بولا ’چھوڑو یار ! ایک تو یہ کام کتا ہے دوسرا اکیلے بندے کا کام بھی نہیں‘۔
جب میں پاکستان میں یونیورسٹی میں داخل ہوا تو میرے دوست میاں نعیم نے مجھ سے کہا تھا دیکھ لینا ہم جیسے آئے تھے ویسے ہی یونیورسٹی سے نکلیں گے۔ ہمیں کوئی لڑکی نہیں ملنے والی۔جب یونیورسٹی ختم ہوئی تو نعیم نے کہا دیکھا شاہ جی میں نے کہا تھا ناں۔اب یورپ چلیں وہی ایک جگہ رہ گئی ہے جہاں شاید کوئی ہم ہر نظرِ کرم کر سکے۔اب یہاں آکر میں اپنے دوست نعیم کو بتا نا چاہتا ہوں کہ میاں صاحب یہاں بھی اپنی دال نہیں گلنے والی ،چاند پر چلیں سنا ہے وہاں ایک عورت رہتی ہے جو کافی عرصے سے اکیلی ہے۔