January 16, 2010

جب مجھے انجمنِ شبانہ جانا پڑا۔


 کچھ لوگوں کو عجیب عادتیں ہوتی ہیں جیسے مجھے اگر آپ کہیں نہ لے کر جانا چاہتے ہوں اور صاف انکار بھی نہ کرنا چاہتے ہوں تو مجھے اتنا ہی کہہ دیں کہ "وہاں بہت سے لوگ ہوں گے"۔میں خود ہی جانے سے منع کر دوں گا۔مجھے جن چیزوں کا کبھی شوق نہیں رہا ان میں انگریزی فلموں سے رغبت کے باوجود نائیٹ کلب جانا بھی ہے۔ 

 میں کوئی ایسا حاجی یا ملا نہیں ہوں۔ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اس کے پیچھے بھی وہی وجہ رہی ہو کہ وہاں بہت سے لوگ ہوں گے۔پاکستان میں تو خیر یہ ویسے ہی ممکن نہیں ہے کیونکہ وہاں ایسے چھوڑیں ویسے کلب بھی نہیں بنتےلیکن کچھ دوست جو لاہور،اسلام آباد مزیدپڑھنے کے لیے چلے گئے تھے بتاتے ہیں کہ وہاں پر ایسے کلب نیم خفیہ طور پر کام کرتے ہیں اب سچ جھوٹ انکا ۔پر دبئی جا کر بھی اور بابا کے اصرار پر بھی کبھی میرے دل میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ جا کر دیکھنا تو چاہیے کہ آخر یہ ہے کیا بلا۔

 وارشاوا آکر یار لوگ اکثر نائیٹ کلب جاتے رہے لیکن ان کے کہنے کے باوجود کبھی دل میں ایسی خواہش نہ جاگی۔پر بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی(میرا ویسے بکروں سے خاص تعلق ہے کیونکہ میرا برج جدی ہے جسکا نشان بکرا ہے)آخر ایک دن ایسے پھنسے اور ایسے لوگوں میں پھنسے جنکو انکار کیا ہی نہ جا سکتا تھااور چارو ناچار دس زووتی بھر کر ہتھیلی ایک خوبرو حسینہ کے آگے کر دی کہ لگاؤ بھئی کلب میں داخلے کا ٹھپہ کہ آج ہم بھی رندوں میں ہیں۔ 

اند رداخل ہو کر سب سے پہلے اپنا سب کچھ اتار کر کوٹ دار کے حوالے کر دیا۔یہاں دو باتو ں کی وضاحت کرتا چلوں کہ ایک تو تھانیدار ، حوالدار کی طرح وہ بندہ جس کو ہم اند ر آکر اپنے کوٹ جیکٹیں جمع کراتے ہیں میں اس کو کوٹ دار بلاتا ہوں دوسرا سب کچھ سے مرا مطلب محض کوٹ ، جیکٹیں، سوئیٹر وغیرہ ہیں۔پولینڈ کوئی سیکس فری ملک نہیں جہاں خاص کلبوں میں داخلے کے وقت سب کچھ اتارنا پڑتا ہے۔نہ میں خاص کلب میں تھا نہ ہی خاص ملک میں اور سب سے بڑھ کر میں خود ایک عام سا بندہ ہوں یہ خاص لوگوں والے کام ہمارے بس کے کہاں۔

 اپنی اکثر چیزیں باہر چھوڑ کر اند پہنچے تو کیا دیکھا کہ کچھ لوگ اتنے بلند آواز میوزک پر کہ جتنا بلند آواز پر وہ بج سکتا ہے پر تھرک رہے ہیں۔ناچنا لکھنا انکے لیے مجھے مناسب نہیں لگا اس لیے تھرکنا ہی بہتر رہے گا۔وہاں پہنچ کر ایک بات تو واضح ہو گئی کہ کم از کم یہاں گفتگو تو نہیں ہو سکے گی۔جتنا مرضی آئے چیخ لیں مجال ہے جو دوسرا بندہ آپکی بات سمجھ لیں اس لیے کچھ چیخ کر کچھ اشاروں میں اور باقی اپنی چھٹی حس کو کام میں لاتے ہوئے بات سمجھنا پڑ رہا تھا اور میرے جیسے بندے کو تب بھی سمجھ نہ آئی تو اپنا پرانا نسخہ کہ ہر بات پر مسکراتے رہیں۔

پہلے تو سب لوگ بیٹھے ان تھرکنے والے جوڑوں کو دیکھتے رہے اور پھر دو دو کرکے اس بھیڑ میں شامل ہوتے گئے اور میں وہیں اپنی جگہ پر بیٹھا سوچتا رہا کہ میں کیا کروں؟میرے ساتھ آئے سب سے آخری جوڑے نے میری مشکل حل کر دی اور اٹھنے سے قبل مجھے بہت ساری اشیا تھما دیں جن میں لیڈیز پرس،سیگرٹ کی ڈبیاں،سوئیٹر،کیمرے اور بٹوے شامل تھے۔اور میں نے اپنی سوچ میں تھوڑی تبدیلی کرتے ہوئے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ چوکیداری کے علاوہ اورکیا کیا جائے جس سے وقت کٹ سکے۔ میں نے ایک کہانی کے پلاٹ پرسوچنا شروع کر دیا اور آدھے گھنٹے میں اس کو مکمل شکل دے دی۔اب کیا کیا جائے؟ابھی تو بارہ بھی نہ بجے تھے اب میں نے کہانی کا تنقیدی جائزہ لینا شروع کیا اور پندرہ منٹ کی دماغی مشقت کے بعد تمام کہانی مسترد کر دی۔ میں اسی طرح کی سوچوں میں الجھا رہا اور کچھ دیر بعد جب میرے ہمراہ آئے کچھ لوگ تھرکنے سے تھک گئے تو میری خدمات کے اعتراف میں مجھے ایک عدد ریڈ بل اور ایک گلاس جس میں برف کے ٹکڑے پڑے تھے سے نوازا گیا۔

ویسے تو مجھے ریڈ بل کبھی اچھا نہیں لگا لیکن اس رات گویا ریڈ بل میں دنیا کی تمام تر شرینی ،ذائقہ اور لطف سما گیا تھا۔ اور میں حتی الامکان احتیاط سے اس کو پینے لگا ۔یعنی جتنا کم ایک گھونٹ میں پی سکتا تھا اتنا پیتا کیونکہ اس سے بڑھ کر اور مشغلہ ہاتھ کیا آناتھا بعض اوقات تو پانچ منٹ بعد گلاس اٹھاتا اور ہونٹوں سے چھو کر واپس رکھ دیتا۔جبکہ یاد رہے کہ ہم تو ان لوگوں میں سے ہیں جنکا ایمان ہے بے شک پیٹ بھرا بھی ہو تو ملائی سرہانے رکھ کر سونا گناہ ہے۔ بہرحال اس کے بعد کے واقعات کچھ زیادہ قابلِ ذکر نہیں ہیں۔

نہیں نہیں یہ نہ سمجھیں کہ یاروں نے ریڈ بل میں کچھ ایسا ویسا ملا دیا تھاجس کی وجہ سے مجھے کچھ یاد نہیں۔ بس ہوا یہ کہ اس بے ہنگم میوزک کے کان عادی ہو گئے اور ایسے عادی ہوئے کہ باہر نکل کر بھی میں کافی دیر بات کرنے کے لیے بولنے کی بجائے چیختا رہا۔ بادلِ نخواستہ مجھے بھی اس تھرکنے والے ہجوم میں کچھ دیر کے لیے شامل ہونا پڑا جہاں میں نے جو کچھ کیا اس کو تھرکنے کے بجائے ورزش کا نام دینا مناسب رہے گا۔ میرے سامنے بیٹھی ایک بیہودہ لڑکی مجھے اس بری طرح سے گھورتی رہی کہ مجھے لگا کہ میں کوئی باعصمت دوشیزہ ہوں جو بدقسمتی سے بغیر پردہ مردانہ کالج میں چلی گئی ہے۔بعد میں دوستوں کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ بے وقوف یہی تو موقع تھا اس کو جا کر ڈانس کے لیے ہاتھ بڑھانا تھااور پھر بات نکلتی تو دور تک جاتی۔اور ایسی ہی چھوٹی چھوٹی باتوں سے بات دور تک جایا کرتی ہے۔لیکن یار وہ تو سیگرٹ پر سیگرٹ پھونکے جا رہی تھی اور تمھیں تو پتہ ہے میں ان بندوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا جو سیگرٹ پیتے ہیں کجا لڑکیاں۔میرے یار مجھے ایسے گھورنے لگے جیسے وہ لڑکی میرے سامنے شرما رہی تھی اور میں اس کو گھور رہا تھا اور سیگرٹ پر سیگرٹ پھونک رہا تھا۔ 

جب باہر نکلے تو رات عروج پر تھی۔یہاں شام چار بجے رات ہو جاتی ہے اور صبح سات بجے کے بعد سورج نکلتا ہے تو تین بجے رات عروج پر ہی تھی۔ ہر طرف برف کی سفیدی پھیلی ہوئی تھی اور برف باری کے منہ پر پڑنے والے زروں نے تمام تھکاوٹ، کوفت اور پشیمانی دور کر دی۔میں تمام باتیں بھول کر برف کا لطف اٹھانے لگا۔ قصہ مختصراگر آپ نائیٹ کلب کا پوچھیں تو ایک بار دیکھا ہے اور بار بار توبہ کی ہے۔دیکھیں اب کہ بکرے کے برج والا کب تک خیر مناتا ہے۔