Insan muasharti janwar
کل کسی سے ڈارون اور خدا کے وجود پر گفتگو کرتے ہوئے اپنا لکھا ہوا ایک پرانا مضمون یاد آگیا، آپ بھی پڑھیے۔ ارسطو نے کہا تھا کہ انسان ایک معاشرتی جانور ہے man is a social animal ہو سکتا ہے اس زمانے میں معاشرہ نام کی کوئی چیز پائی جاتی ہو دنیا میں مگر آج اس قول میں سے لفط معاشرتی اوردنیا سے معاشرہ غائب ہو چکا ہے اور باقی جو بچتا ہے وہ انسان اور جانور ہیں۔
کسی زمانے میں اسی سوشل کو سوشلسٹ ( کمیونسٹ)سمجھتا رہا اور
حیران ہوتا رہا کہ آخر انکوامریکہ نے چھوٹ کیوں دی ہوئی ہے وہ تو سوشلسٹ کو ویسے ہی جانور سمجھتے ہیں۔چین اور روس کی مثال ہمارے سامنے ہیں۔آخر جو بات میں تب سوچتا تھا وہ امریکہ کی سمجھ میں اب آئی ہے لہذا سب سے پہلے امریکہ سے معاشرہ ختم کر کے انکو سوشلسٹ ہونے سے بچایا گیا اور پھر باقی دنیا کے انسانوں کے ساتھ جانوروں والا سلوک کرنا شروع کیا۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ اگر آج بھی امریکہ کا ویزا ملے تو لینے والوں کی قطار میں میں بھی ہوں گاظاہر ہے جانوروں کے معاشرے میں بقا کے لیے طاقتور کے گروپ میں ہی رہنا پڑتا ہے چاہے وہ گیدڑوں کا ہی کیوں نہ ہو۔
ہم بیچارے تو ویسے ہی شروع سے معاشرہ الاٹ ہونے کے انتظار میں جانور بنے رہے۔اسلام علماء کے حوالے کرنے کے جیسے ہی عقل ہم نے نام نہاد دانشوروں کے سپرد کر دی اور وہ اس کو یوں سنبھال کر بیٹھ گئے جیسے استعمال سے گھس نہ جائے۔ایک نے کہا ہمارا معاشرہ موئن جو داڑو اور ہڑپا کا جانشین ہے ہم ہندو معاشرے( ہندو سے مراد ہندو مذہب نہی بلکہ علاقہ ہند ہے) کے علمبردار بنیں گے دوسرے نے کہا یہ کفر کی باتیں چھوڑو ہمارا ملک اسلام کے نام پر بنا ہے اور ہمارا معاشرہ اسلامی ہوگا(ہو سکتا ان صاحب کو بریکٹ میں ہندو کی تفصیل لکھی نہ ملی ہوں )۔اور صاحب بولے نہ جی عربوں کی معاشرت سے ہمارا کیا لینا دینا ہمارا معاشرہ تو مسلم حکمرانوں اورمغلوں والامعاشرہ ہو گا ایک صاحب قائد اعظم کا حوالہ لائے کہ ہمارا معاشرہ سیکولر ہو گا،پھر فوجی معاشرہ،جمہوری معاشرہ،فلاں معاشرہ، فلاں معاشرہ نتیجہ باقی سب کچھ حاضر فقط معاشرہ غائب اور ارسطو صاحب کا قول ایک بار پھر دو چیزوں کے گرد یعنی انسان اور جانور۔
ڈارون صا حب بھی لگتا ہے ہمارے مسلک کے ہی گرو تھے انکی تحقیق کا نتیجہ نکلا کہ انسان پہلے جانور تھا ہماری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ انسان اب بھی جانور ہے۔شاید ارسطو صاحب کا زمانہ فعل ماضی بعید کا زمانہ ہو جب انسان معاشرتی جانور تھا ڈارون صاحب کی تحقیق محض انسان کے جانور والے سال تک پہنچی تھی معاشرہ وہ بھی تلاش نہ کر پائے اور معاشرہ تب بھی لاپتہ تھا۔بہرحال ایک بات تو طے ہے کہ کارل مارکس (سوشلزم کا بانی)آج زندہ ہوتا تو اسکو تو امریکہ کی شہریت ملی ہوتی اور چکی میں پس وہ رہے ہوتے جنہوں نے اسکا کہنا مانا۔
پرانے زمانے میں بچوں اور بچیوں کے اسلامی نام کی لغت نہ ہونے سے بڑا نقصان ہوا،نقصان انکا کم ہمارا زیادہ ہواکہ ہمیں مشکل مشکل نام یاد کرنے پڑ گئے ارسطو، سقراط، بقراط، جالینوس، فیثا غورث، افلاطون اور نہ جانے کیا کیا۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں تو سجاد ’سجا‘، فہیم ’فیما‘، کلیم ’کلو‘، اور سعید ’شیدا‘ بن جاتے ہیں اور کجا اول الذکر نام۔ کسی ان پڑھ کو بھی کہہ دیا جائے کہ یار تم تو سقراط بنتے جا رہے ہو تو وہ نام سنکر ہی سمجھ جائے گا کہ کسی قابل بندے سے ملایا جا رہا ہے اسے۔اگر یہ لوگ ہمارے زمانے میں ہوتے تو یہ بھی ’سقو‘، ’بکا‘، ’جالو‘ ، ’رستی‘، ’ فیثی‘،او ر ’فیلا‘ ہی بنے ہوتے۔اردو تو خیر اردو انگریزی میں تو انکے نام مزید قابل دید ہیں اور اوپر سے سپیلنگ ۔اگر ایک دن انکی منطق یاد کرنے میں لگتا ہے تو ایک انکے نام ہاد کرنے میں۔ایک اسلامی علما کو دیکھیے ’ابن رشد‘، ’بو علی سینا‘، ’البیرونی‘واہ! کیا مختصر مگر جامع قسم کے نام ہیں۔پس ثابت ہوا کتابیں بڑے کام کی چیزیں ہیں اگر ہم سے پہلے زمانے میں ہوتیں اور آنے والے طالب علموں کے لیے آسانی بھی پیدا کر سکتی ہیں صرف سیلبس میں اضافہ کا باعث نہی۔
بات کہا ں سے کہاں تک پہنچ گئی ۔ انسان اور جانور کا تعلق انسان اور معاشرے کی نسبت زیادہ پرانا ہے۔ایک وقت تھا کہ جانور محض جنگلی ہوا کرتے تھے اور انسان ان کو مار کر گزر بسر کیا کرتا تھامگر بعد میں معاشرے کی دریافت نے انکو دورتو کر دیا مگر ان دونوں نے ایک دوسرے کی عادات اپنا لیں اور آج جانور مہذب اور انسان جنگلی بن گیا
ہے۔ڈارون صاحب نے کہا تھا انسان پہلے بندر تھا لیکن اسکے باوجود آج اسے بندر کی اولاد کہا جائے تو برا مان جاتا ہے سچائی ہمیشہ سے کڑوی رہی ہے۔آجکل کے بندروں کو دیکھ کر یہ پتہ چلتا ہے کہ انسان پہلے بندر تھا۔آجکل کے بندر کیا کام کرتے نظر نہی آتے حتی کہ انہوں نے تمباکو نوشی اور شراب نوشی تک شروع کی ہوئی ہے۔
بعض اسلامی ذہن والے لوگ دعوی کرتے ہیں کہ دراصل بندر پہلے انسان تھا مگر بعد ازاں عذاب کے طور پرانکو بندر بنا دیا گیا،بات یہ بھی ہر دو فریق کی عادات و اطوار کو دیکھتے ہوئے درست لگتی ہے مگر آج کل کے حالات کو دیکھتے ہوئے ڈارون صاحب زیادہ درست لگتے ہیں کہ انسان پہلے بندر تھا۔دوسری بات درست ہوتی تو اب بھی اکثر انسان بندر بننے کی کسوٹی پر پورا اترتے ہیں مگر وہ بدستور انسان ہی ہیں لہذا اس بات میں وزن زیادہ لگتا ہے کہ انکی عادات موروثی ہیں۔ویسے ڈارون صاحب کی داڑھی دیکھ کر انکو مولوی ڈارون کہنے کو دل کرتا ہے پرانے زمانے میں زیادہ قابل اور پڑھے لکھے انسان کو مولوی کہا جاتا ہے جب کہ آجکل جاہل کو مولوی کہا جاتا ہے اور ڈارون صاحب دونو ں شرائط پر پورا اترتے ہیں۔اس زمانے تک بال بھی آبا کی طرز پر رکھنے کا رواج تھا یعنی نہ کٹوانے کا رواج اور جب کاٹنا شروع کیا تو ہر شے کاٹ کر رکھ دی انسانوں سمیت۔
انسان کو مارنے میں یہ عنصر بھی کارفرما ہو سکتا ہے کہ موروثی خون یعنی بندر زاتی کا خون جوش مارتا ہو اور انسان سے نفرت پر اکساتا ہو۔
انسان اور بندر کی بحث میں معاشرہ ایک بار پھر غائب ہو کر رہ گیا ہے۔ہو سکتا ہے اس مضمون کو پڑھ کر کسی ماہر عمرانیات کو ٹھیس پہنچے اور وہ یہ ثابت کرنے پر تل جائے کہ معاشرہ نامی شے اب بھی اس دنیا میں پائی جاتی ہے تو صاحب ایک تو ہم مجلسی آدمی نہی دوسرا بحث ومباحثہ سے جان جاتی ہے تیسرا ہمارا زور تو قلم پر چلتا ہے زبان پر نہی کیونکہ وہاں تو عورتوں کی اجارہ داری ہے اور چوتھا یہ کہ سب کچھ پالنا پر خوش فہمی نہ پالنا اسکے باوجود بھی وہ اپنی بات پر مصر رہیں تو بھائی معاشرہ واقعی پایا جاتا ہوگا جذباتی ہونے کی کیا بات ہے؟بندہ اب بات بھی نہ کرے؟
عمرانیا ت بہت عرصہ تک میرا محبوب مضمون رہا ہے جب تک کہ مجھے پتہ نہی چل گیا کہ اس میں کیا ہوتا ہے وگرنہ میں اسے پہلے علامہ اقبال سے اقبالیات اور مرزا غالب سے غالبیات کی ہی طرح عمران سیریز والے علی عمران سے عمرانیات سمجھتا رہا۔نہ جاننا بھی بہت بڑی نعمت ہے یقین نہ آئے کسی ایسے لڑکے سے پوچھ کر دیکھیں جو تمام رات اپنی دانست میں والدین سے نظر بچا کر گھر سے باہر گزار آیا ہولیکن اسکے والدین کو پتہ چل جائے۔
کہتے ہیں انسان معاشرے کی اکائی ہے مگر معاشرے میں دہائی بھی اسی سے ہے۔لوگوں نے کافی عرصہ پہلے ہی اس بات کا تجربہ کر لیا تھا کہ انسان معاشرے کے بغیر رہ سکتا ہے لیکن معاشرہ انسان کے بغیر نہی حالانکہ دوسری بات کچھ زیادہ دم نہی لگتا کیونکہ اب تو جانوروں نے بھی معاشرے قائم کیے ہوئے ہیں بلکہ جانوروں نے ہی معاشرہ قائم کیا ہوا ہے ہم تو اولین فرصت میں ہی اس بار گراں سے فارغ ہو گئے۔
انسان معاشرہ اور جانور ایک ایسی تکون ہے جو برمودا تکون سے زیادہ پراسرا رہی ہے۔انسان اور جانور تو اس میں ہمیشہ سے موجود رہے تاہم معاشرہ ہمیشہ سے متغیر رہا ہے۔پتہ نہی یہ انسان کی برتری ہے کہ زبان کی ناآشنائی کہ کبھی کسے کتے یا اور جانور کو اپنے ہم ذات کو انسان کہتے نہی سنا گیا۔وہ کہتے ہیں نہ کہ کبوتر بہ کبوتر باز بہ باز تو اکثر دیکھا گیا ہے کہ انسان مختلف جانور پالتا رہا ہے کتا،بلی،بندر،مچھلی وغیرہ مگر کبھی کسی جانور کو انسان پالتے نہی دیکھا گیا۔پس مثالوں اور مصالحوں سے ثابت ہوا کہ انسان پہلے جانورہی تھاتاہم اب کیا ہے اس بارے میں آپ اپنے تخیل کو خود ہی دوڑائیے کیونکہ اخلاقیات اور خوفِ جان مجھے انسان کی موجودہ حیثیت ثابت کرنے سے روکے ہوئے ہے۔