April 7, 2010

بنام ہاسٹل

banam hostel


چونکہ میرے پاس کیمرہ ہے اور بہت سا فارغ وقت بھی ہے اس لیے میں اکثر تصاویر کھینچتا رہتا ہوں۔ایسے میں ہی کھینچی گئی میرے ہاسٹل کی تصاویر دیکھ کر بہت سے لوگوں نے کہا اچھا عیاشی ہو رہی ہے اور جو نہ کہہ سکے دل میں انکے بھی یہی بات تھی۔حالانکہ ان سب کہ بہتیرا سمجھایا کہ بھائیو،بندو مانا کہ جگہ خوبصورت ہے پر ایسی بھی نہیں کہ عیاشی کا گمان ہونےلگے۔اصل کمال نائیکون کے D3000 کا ہے لیکن وہ بندہ ہی کیا جو کسی کی بات مان لے۔آخر یہی سمجھ آئی کہ ولائیت کی عیاشی کا لیبل اپنے ماتھے سے اتارنے کے لیے ہاسٹل کے اندرونی حالات بھی بیان کیے جائیں تاکہ یار لوگوں کو یقین آ جائے کہ نہیں عیاشی نہیں کر رہے۔

کہتے ہیں انسان رونا ماں کے پیٹ سے سیکھ کر آیا ہے میں کہتا ہوں رونے کے ساتھ ساتھ ہنسنا ،کھانا اور حوائج ضروریہ سے فراغت بھی سیکھ کر آتا ہے ۔مجھے بھی بہت سے لوگوں کی طرح عادت ہے کہ صبح اٹھ کر سب سے پہلے بیت الخلا کی حاضری بھرتا ہوں۔لیکن جب کا ہاسٹل میں آیا ہوں اس انتہائی ضروری اور انتہائی سہل کام میں بھی رکاوٹیں پڑ جاتی ہیں۔سب سے پہلے تو تمام ہاسٹل میں دو بیت الخلا لڑکوں کے لیے اور دو ہی لڑکیوں کے لیے ہیں۔گویا چالیس افراد کے چار۔قطار میں لگ کر یا کبھی کبھی اس کے بغیر آپ اندر پہنچ گئے تو سب سے پہلا کام بوتل تلاش کرنا ہوتا ہے۔نہیں سمجھے؟وہ بوتل جس کو آپ بطور لوٹا استعمال کرتے ہیں۔اگر تو آپ کی قسمت اچھی ہے تو صفائی کرنے والی اماں نے مہربانی کی ہو گی اور بوتل کموڈ کے پیچھے رکھ دی ہو گی تو آپ وہاں سے اٹھا کر باہر لگے بیسن سے پانی بھر کر فراغت حاصل کرسکتے ہیں لیکن اگر بوتل نہیں ہے تو دوبارہ اپنے کمرے میں جائیں اور بوتل لے کر آئیں۔کچھ لوگ ایسی صورت حال میں ٹشو سے کام چلاتے ہیں لیکن اپنا دل نہیں مانتا ۔ویسے تو ہم خالی بوتل کا اکثر اہتمام رکھتے ہیں لیکن کبھی کبھار نہیں بھی ہوتی۔ایسے ہی ایک دن کی بات ہے کہ میرا ہم کمرہ دوست صبح صبح مجھے ڈیڑھ لیٹر والی پانی کی بوتل کو منہ لگا کر غٹا غٹ پیتا دیکھ کر بولا پانی آہستہ آہستہ پینا چاہیے۔میں نے بوتل سے منہ ہٹا کر جلدی سے جواب دیا چاہے جتنے زور کا پیشاب آیا ہو؟

اگر آپ ہمارے ہاسٹل میں رہ رہے ہیں اور آپکو بھی روز نہانے کی بیماری ہے تو میرا مشورہ ہے کہ آپ صبح آٹھ بجے سے پہلے نہا لیں۔کیونکہ تمام ہاسٹل میں ایک ہی غسل خانہ ہے جہاں آپکو نہانا بھی ہے اور کپڑے بھی دھونے ہیں۔ویسے تو آسانی کے لیے باہر کیل لگے ہوئے ہیں جن پر نمبر لکھے ہیں یعنی وہاں جا کر آپ اپنا تولیہ لٹکا دیں تو اگلا نمبر آپکا ہوگا لیکن یہ صرف تب ہی ممکن ہے جب آپ غسل خانے کے دروازے کے باہر موجود ہوں ورنہ جیسے ہی دروازہ کھلا جو باہر ہو گا وہ اندر چلا جائے گا اور تولیہ بدستور پہلے نمبر پر لٹکا رہے گا۔پہلے ہمیں بتایا گیا تھا کہ پولش لوگ کم کم نہاتے ہیں جو کہ عقل کو لگتا بھی تھا کہ اتنی سردی میں کسی کو نہانا پڑ بھی جاتا ہو گا تو وہ اپنی انگلی پانی میں ڈبو کر کہتا ہو گا میری انگلی نہائی سمجھو میں نہایالیکن اب پالا پڑا ہے تو پتہ چلا ہے کہ پولش نہاتے ہیں اور بے تحاشہ نہاتے ہیں۔مجھے تو تمام ہفتے میں بمشکل ایک آدھ دن ہی غسل خانہ خالی ملتا ہے۔لڑکے لڑکیاں قسم قسم کے صابن ،تیل اور شمپو ہمراہ لے جا کر نہاتے ہیں۔ایک موٹی لڑکی اکثر اس وقت نہانے جاتے ہے جب میرے ہم کمرہ کو نہانا ہوتا ہے یا میرے ہم کمرہ کو اکثر اس وقت نہانا ہوتا ہے جب ایک موٹی لڑکی نہانے جاتی ہے۔اس لڑکی اور اس کے ساتھ جانے والے سامان کی تفصیل کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ہم نے اس کا نام ڈائیو رکھ چھوڑا کہ یار ابھی ڈائیو کی سروس ہو رہی ہے گھنٹہ انتظار کرو۔

 ایک اور الزام یہ ہے کہ لڑکیوں کے ساتھ رہتے ہو۔اس میں تو خیر کوئی جھوٹ نہیں کہ چالیس میں اور نہیں تو کم از کم پندرہ تو لڑکیاں ہیں۔اور آتی جاتی اس کے علاوہ۔لڑکیاں تو ہیں لیکن کیسی؟اگر میری یاداشت مجھے دھوکا نہیں دے رہی تو عمر شریف کی فلم چاند بابو کے لیے نرگس کو اس شرط پر کاسٹ کیا گیا تھا کہ وہ فلم میں گنجی ہو گی ۔پہلے تو نرگس نے بڑھ چڑھ کر اخباری بیان داغے کہ فن کی خدمت کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہے لیکن جب بال کٹوانے کا مرحلہ آیا تو نرگس نے فلم نے نام کٹوانا زیادہ آسان سمجھا۔اس کے بعد اس وقت کی مشہور امبر ایوب نے حامی بھری اور چند روز میڈیا کی زینت بنے رہنے کے بعد اس کی حامی بھی وعدہ بے وفا نکلا اور آخر میں ایک غیر معروف اداکارہ جس کا نام مجھے یاد نہیں رہانے یہ کردار ادا کیا۔سارے قصے کا مقصد یہ ہے کہ وہ کام جو اسوقت ہائی سوسائیٹی میں معیوب تھا اب یہاں عام لوگوں کا فیشن ہے۔لڑکیاں گنجی ہوئی پھر رہی ہیں ۔مکمل نہیں تو چوٹی چھوڑ کر باقی اردگرد سطح سر ہموار کر چھوڑتی ہیں۔اب آپ ہی بتائیے ایسی لڑکیوں کو کس کافر کا دیکھنے کا دل کرتاہوگا۔جب ہم چھوٹے ہوتے تھے تو جس کے والدین اس کو پکڑ کر گنجا کروا دیتے تھے(کیونکہ اپنی خوشی سے تو پیسے لینے کے باوجود نرگس راضی نہ ہوئی وہ الگ بات کہ بعدمیں عابد باکسر صاحب نے وہ کام بغیر پیسوں میں کر دیاتو عام بندہ اپنی خوشی سے گنجا کیسے ہو سکتا ہے، ہماری طرف یہ کام والدین یا اہلِ علاقہ ہی انجام دیتے ہیں) ہم اس کو گنجی کبوتری کے لقب سے نوازا کرتے تھے ۔لیکن ان گوریوں کو دیکھیں تو یہ پھبتی ان پر صیح بیٹھتی ہے۔

 اور یہ راز بھی ہاسٹل میں آ کر کھلا کہ وہ میوزک میوزک نہیں جو اونچی آواز سے نہ چلایا جائے،وہ پارٹی پارٹی نہیں جو روز نہ ہو اور وہ پولش پولش نہیں جو بے تحاشا پیتا نہ ہو۔چھوٹے ہوتے اخباروں میں پڑھا کرتے تھے پی کر غل غپاڑہ کرتے ہوئے اتنے شرابی گرفتار۔لیکن پی کر غل غپاڑہ کرنے کا مطلب یہاں آکر سمجھ آیا۔لڑکیاں بوتلیں اٹھا کر گیلری میں ٹانگیں لمبی کر کے بیٹھ جاتی ہیں اور آپ کے گزرنے کی راہ مسدود ہو جاتی ہے۔کسی وجہ سے گزرنا پڑ بھی جائے تو مجال ہے کہ اپنی جگہ سے ہل جائیں۔سب آپ کی مشاقی پر منحصر ہے کہ آپ انکے درمیان سے قدم جما کر انکی چمکتی چندیا سے پھسلے بغیر کیسے گزرتے ہیں۔اور اگر بات لڑکوں کی کی جائے تو وہ غل غپاڑے کا صیح حق ادا کرتے ہیں۔ایک روز صبح کے چار بجے ایک لڑکے کو جب شدید قسم کی دستک سے دروازہ ٹوٹتا محسوس ہوا تو اس کو کھولنا پڑا تو غل غپاڑہ گروپ نے اس سے سو روپے کا مطالبہ کر ڈالا کہ وہ مزید شراب لا سکیں اور پی سکیں۔رات چار بجے تک اونچے میوزک کے باعث نہ سو سکنے کے باوجودصبح چھ بجے میری آنکھ کھلی تو پتہ چلا شرابیوں کا گروہ کرسیوں کو دروازوں پر مار مار کر دل پشوری کررہا تھا۔

قصہ مختصر یہ سمجھے کہ ہمارے جیسوں کے لیے رات کو ہاسٹل میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ ہوتا ہے۔ امید ہے عیاشی کے طعنے مارنے والوں کہ یہ سب کچھ پڑھ کر خاطر خواہ افاقہ ہوا ہو گا۔ان سے امید ہے کہ وہ اب اللہ میاں سے دعا کریں گے کہ وہ ہماری جان اور ایمان دونوں کی حفاظت فرمائے ویسے بھی ہاسٹل اور ہاسپٹل میں ایک ’ پ‘ کا ہی فرق ہے۔