Asal, Naqal
ہم تین دوست تھے۔۔۔ تینوں ایک ہی گاؤں سے تعلق رکھتے تھے۔گاؤں تو خیر بڑے شہر والے کہتے ہیں لیکن اصل میں یہ ایک چھوٹا شہر ہے۔ ایک غیر معروف تحصیل ہے۔اور ہم تینوں سولہویں کرنے ایک بڑے شہر کی
یونیورسٹی میں آئے تھے۔چھوٹے شہروں سے آنے والے عام طور پر اس پانی کے ریلے کی مانند ہو تے ہیں جو مٹی اور پتھر کے ڈالے گئے بند سے ٹکراتا پھر رہا ہوتا ہے اور جہاں پشتہ کمزور ہوتا ہے وہاں سے بہہ نکلتا ہے۔ہم
تینوں کو کلچر اور ثقافت کے دامن میں پناہ ملی اور ہمارا یونیورسٹی میں کم اور ادبی ثقافتی محفلوں میں اُٹھنا بیٹھنا زیادہ ہو گیا۔
گلوکاری،شاعری،طبلہ نوازی،کہانی نویسی و مکالمے اور ا ن کو بولنے کا ڈھنگ۔یہی کچھ ہمارا اُوڑھنا بچھونا تھا۔
معاشرتی سائنس میں ماسٹرز کرنا ویسے بھی کوئی ایسا محنت طلب کام نہیں۔۔۔ اور ہوتا بھی سہی تو ہمیں کون صحیح
غلط کی تلقین کرنے والا تھا۔ لہٰذا پڑھائی اور شوق ساتھ چل پڑے اور آہستہ آہستہ ہم پر یہ راز منکشف ہوگیا کہ عام طور پر لوگوں کے دلوں میں ادب و ثقافت کی بڑی چاہ ہے۔۔۔ ان لوگوں کو دل ہی دل میں بڑی عزت دی
جاتی ہے جو اس شعبے سے منسلک ہوتے ہیں۔دل میں طلب مزید بڑھ گئی۔
طلبا عام طور پر کھانا کھانے کی ایسی جگہیں تلاش کرتے ہیں جہاں ان کے پیسے بھی کم لگیں اور کھانا بھی پیٹ بھر کر مل جائے،ایسی جگہیں عام طور پر اندرونِ شہر بکثرت پائی جاتی ہیں۔