August 6, 2011

ایک نصیحت

 Aik Nasihat


 یوں تو نصیحت کے بارے میں میں ہمیشہ سے میرا ایک ہی اصول رہا ہے، کوئی موقع دیکھ کر نصیحت کرنے سے چوکو ناں اور کوئی کرے تو قطعاً سنو ناں ، اسی کا نتیجہ ہی ہو سکتا ہے کہ آج تک کسی کے زبان سے وہ نصیحت جنم نہ لے سکی جو میرے کان پر رینگ سکتی- پر کچھ باتیں اتنی یادگار ہوتی ہیں کہ ناخوشگوار اور ناپسندیدہ ہونے کے باوجود ذہن میں کلبلاتی رہتی ہیں۔ کیونکہ ہر وہ نصیحت جو آپ کو کی جائے نا خوش گوار ہوتی ہے اسی لیے ایسی ہی ایک ناخوشگوار بات آپ کی نظر ہے۔

 پولینڈ رہنے کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ دنیا سے بے خبر ہیں جب تک آپ نیٹ پر خبریں نہ پڑھنا شروع کر دیں، اور چونکہ آپ تو جانتے ہیں کہ ذہنی سکون سب سے قیمتی شے ہے لہذا ہم اخباروں اور خبرناکیوں سے پولینڈ میں ذرا فاصلے پر رہتے ہیں۔پاکستان آکر ایک دوست صاحب نے ایک خبر سنائی جس سے وہ نصیحت یاد آ گئی۔ تفصیل سے پہلے بتا دوں اس خبر پر تمام تبصرہ میرے دوست کا ہے میں فقظ راوی ہوں ، کسی کی دل آزاری کی صورت میں میرا دوست قابل دست اندازی ہو گا مجھے معصوم ہی سمجھا جائے۔  

ایک روز دوستوں کی محفل میں ایک دوست صاحب ترنگ میں آکر لطیفے سنانے لگے۔بولے وہ لطیفہ تو سنا ہی ہوگا آپ نے جب ایک بچے نے اپنی ماں سے پوچھا امی میں کیسے پیدا ہوا تھا تو ماں حسب روایت اخلاق باختگی کے ڈر سے بچے کو کہتی ہے کہ بیٹا ہم نے ایک گھڑا مٹی میں دبا دیا تھا اور تین ماہ بعد جب نکالا تو اس میں آپ تھے۔بچے نے کہیں سے گھڑا لیا اور اس کو مٹی میں دبا دیا اور لگا دن گننے۔تین ماہ بعد جب کھولا تو بیچ میں ایک مینڈک پھدک رہا تھا ۔بچے کا خون کھول اٹھا وہ تھوڑی دیر اس کو گھورتا رہا اور پھر بولا جی تو چاہتا ہے تیری دونوں ٹانگیں توڑ کر تیرے ہاتھ میں دے دوں پر کیا کروں تو میرا اپنا خون ہے۔ اس پر دوسرے دوست بولے میں اب آپکو ایک ایسا سچا قصہ سناؤں گا جس پر یہ لطیفہ فٹ بیٹھتا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ ایک اور لطیفہ بھی لیکن وہ میں آخر میں کہانی کے سبق کے طور سناؤں گا۔

قصہ یوں ہے کہ ایک چوہدری صاحب (ذات بدل دی گئی ہے) بسلسلہ تعلیم کنیڈا گئے اور وہاں انکی ملاقات ایک بھارتی ناری سے جسکا نام روشنی ڈیسائی تھا سے ہوگئی۔آپ تو جانتے ہیں کہ بھائی کیوپڈ کا کوئی دین دھرم تو ہے نہیں بس آنکھوں ہی آنکھوں میں ایسا اشارہ ہو گیا کہ دونوں اکٹھے رہنے لگ گئے۔ماشاء اللہ ٹیلی ویژن پر اشتہارات دیکھ دیکھ کر آپ بھی جان چکے ہوں گے کہ احتیاط واحد علاج ہے ۔تو احتیاط نہ کرنے کا نتیجہ مذکر کی صورت میں نکلا جس کا نام اذان رکھا گیا۔اب دو تین سال اور گزر گئے -خدا جانے چوہدری صاحب کے دل میں کیا سمائی کہ انہوں روشنی بی بی سے کہا کہ وہ اذان کو لے کر عمرہ پر جانا چاہتے ہیں۔آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ ہم جیسے نکمے بہانے بازی میں قابل ہوتے ہیں اور قابل طلبا کے کچے بہانے استاد نظر انداز کر دیتے ہیں اب یہ تو روشنی بی بی ہی جانیں کہ چوہدری صاحب پڑھائی میں قابل تھے یا بہانوں میں بہرحال روشنی کی باہمی رضامندی سے وہ اذان کو لے کر کنیڈا سے چل پڑے۔

اب یہاں سے مسئلہ شروع ہوتا ہے کہ چونکہ روشنی بی بی ہندو تھیں اور دینِ اسلام سے بے بہرہ تھیں وہ سمجھیں چوہدری صاحب ان سے دھوکہ کر آئے ہیں کیونکہ چوہدری صاحب سعودی عرب جانے کی بجائے پاکستان آ گئے پر آپ اور ہم تو جانتے ہی ہیں کہ والدین کا دیدار بھی حج اور عمرے کے ثواب کے برابر ہے۔ادھر چوہدری صاحب ثواب کمانے میں لگے ہوئے تھے اور ادھرروشنی بی بی پوچھتی پوچھاتی پاکستان آ پہنچیں۔یہاں معاملہ خراب ہو گیا۔انہوں نے چوہدری صاحب کو سمجھایا کہ چلو واپس چلیں لیکن چوہدری صاحب کے بقول ان کا پاسپورٹ ان کے والد نے کھینچ لیا ہے۔ روشنی بی بی نے کہا شادی کر لو تو اسلام میں ہندو سے شادی ہو ہی نہیں سکتی۔

پر روشنی بی بی ان باتوں کو نہ سمجھ سکی کہ بچہ تو ہو سکتا ہے پر شادی نہیں اور اس نے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیاکہ ان کا بچہ ان کو واپس کر دیا جائے۔ادھر چوہدری صاحب بڑے چوہدری صاحب اور چھوٹے چوہدری صاحب کے درمیان پس کر رہ گئے کہ نہ وہ والد کی حکم عدولی کر کے اپنے لیے جہنم کمانا چاہتے تھے اور نہ پدرانہ شفقت انکو چھوٹے چوہدری صاحب کے ماں کے حوالے کرنے دیتی تھی۔ادھر بڑے چوہدری صاحب بضد تھے کہ بچہ چونکہ ناجائز ہے لہذا وہ اس کی ماں کو دے دیا جائے اور وہ یہاں چوہدری صاحب کی اپنی مرضی کے گھر شادی کریں گے۔پر اولاد بڑا فتنہ ہے اتنا کہ بڑے چوہدری صاحب چوہدری کے تمام تر کارناموں کے بعد بھی اس سے ناراض نہ تھے ہاں بن بیاہی بہو اور چوہدری کابیٹا انکو قابل قبول نہ تھے۔ چوہدری صاحب بڑے چوہدری صاحب کی مرضی کے برخلاف عدالت میں بچے کے حق میں مقدمہ لڑنے لگے اور روشنی جی اس بات پر راضی ہو گئیں کہ بچہ بے شک اسلامی تعلیمات حاصل کرے اور وہ خود بھی اسلام کا مطالعہ کریں گی۔
لیکن بڑے چوہدری صاحب جب سماج کے ولن کے طور اپنی بات پر قائم رہے کہ "اے شادی نہیں ہو سکدی" تو تو روشنی جی کے باریش وکیل صاحب نے عدالت میں یہ ثابت کر دیا کہ بچہ ناجائز ہے لہذا اس کا ایک مسلمان کے گھر میں جانا ٹھیک نہیں۔پس روشنی جی کے حصے میں اذان ، بڑے چوہدری صاحب کے پاس چوہدری کا پاسپورٹ اور چوہدری کے حصے میں شہرت آئی اور یوں قصہ تمام ہوا۔

اس کے بعد وہ دوست بولے پہلا لطیفہ تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے دوسرا یہ تھاکہ جے اڈنا نئی آندا سی تے فیر پنگا کیوں لتا سی؟ جب ہم نئے نئے پولینڈ گئے تھے تو ہم کو ایک ہمدرد نے بڑی محبت سے نصیحت کی تھی کہ بھائی صاحب لڑکی ڈھونڈ لیں ۔لڑکی بڑی آسانی سے مل جاتی ہے،ایک بار لڑکی مل گئی تو سب مسائل حل،اس کے ساتھ رہنے لگ جاؤ، زبان، رہائش، کھانے پینے، نوکری کی مشکل ختم۔اور شادی کر لو تو تین سال بعد پاسپورٹ الگ۔ بس ایک دھیان کرناجی ، بچہ نہ بنانا، بچہ ہو گیا تو پھر پھنس جاؤ گے،جی پھر آپ کہیں کے نہیں۔

یا تو چوہدری صاحب کو ایسا کوئی مشورہ نویس ملا نہیں تھااور اگر ملا تھا تو چوہدری صاحب اس کی آخری بات سن نہیں سکے یا چوہدری کو اپنے پروں پر خاصا گمان تھا وگرنہ چوہدری ایک بار پھر اتنے مشہور نہ ہوتے۔

 لیکن آپس کی بات ہے کچھ خطرات کے کھلاڑی ایسے بھی ملے ہیں یہاں یورپ میں جو شادی سے پہلے ہی بچہ بنا لیتے ہیں اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ شادی فوراً ہو جاتی ہے اور انکو شادی کی تاریخ کے لیے لمبا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔
 اللہ کی قسم میرا اشارہ چوہدری صاحب کی طرف نہیں تھا۔