Serdai (thandai) or jhandon ka bahami taluq
ایسے ہی کسی معزازنہ سی محفل میں کسی نے پوچھ لیا کہ یہ جو سڑک کنارے سردائی والے بیٹھے ہوتے ہیں انکی دکانوں کے گرد اتنے جھنڈے کیوں لگے ہوتے ہیں؟
اب مخاطب میں تھا اور سننے والا میرے بلاگ سا دلچسپ جواب سننے کا متمنی تھا لیکن شاید وہ جانتے نہیں کہ عام طور پر جگت مارنا میرے بس کا کام نہیں یہ بلاگ بازی تو رات کو نیند نہ آنے کا نتیجہ ہے جبکہ عام گفتگو میں لاکھ کوشش کے باوجود بے ساختہ سچائی دبانہیں پایا۔اور تھوڑی دیر سوچنے کے بعد میں نے جواب دیا کہ چونکہ سردائی کا اصل ماخذ یعنی اوریجن Origin مزارات ہیں جہاں پر بھنگ والی سرادئی گھوٹی جاتی ہے لہذا اس بغیر بھنگ والی سردائی کے لیے اسی نسبت سے جھنڈے کھڑے کیے جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں ایسے مزار جو دیہی علاقوں میں ہیں وہاں بھنگ والی سردائی عام ہے، گھروں میں بادام والی سردائی جبکہ بازار سے پانی والی سردائی بھی عام مل جاتی ہے جبکہ اس کو ٹھنڈائی ، ٹھڈائی یا سردائی کے نام سے بلایا جاتا ہے۔
وہ لوگ جو سردائی سے نا آشنا ہیں انکو بتا تا چلوں کہ اس میں چینی اور بادام کو اچھی طرح رگڑ کر بیچ میں پانی ، دودھ یا بھنگ (حسب استطاعت) ملا کر اس کا شربت تیار کیا جاتا ہے جو پینے میں بھی اور تاثیر میں بھی ٹھنڈا ہوتا ہے جبکہ بعض بیچنے والے تو بندہ تو بندہ روح تک ٹھنڈی کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔
پہلے سرادئی ہمارے گھر میں بنتی تھی جب سب سے پہلے بادام توڑے جاتے تھے پھر مٹی کی دوری میں پیسا جاتا تھا پھر آخر میں ململ کے دوپٹے میں چھانی جاتی تھی ۔یہ سرادئی سال میں ایک آدھ بار ہی بنتی تھی لیکن اسکا ذائقہ اگلے سال تک زبان پر رہتا تھا لیکن ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ اب تو گرائینڈر Grinder میں ہی ہِلا ہُلو کر سرادئی بنا کر گھر والے دیتے ہیں جس میں برف نہ ہو تو ٹھنڈک کا پتہ ہی نہ چلے اور بازار میں تو لگتا ہے پانی میں بادام کا ایسنس ملا کر بیچتے ہیں جس وجہ سے میں سرادئی سے تقریباً تائب ہو چکا ہوں۔
یوں تو میں خود بھنگ ، چرس دور کی بات ہے سیگرٹ تک ایک بار پی تھی اور تین دن تک ایسا لگتا رہا جیسے کسی نے گلے میں تمباکو کا لیپ کر دیا ہولیکن سنی سنائی خوب ہے آپ بھی سن لیں۔
جب چھوٹا تھا تو گائوں سے ایک ویگن پر مدرسے جایا کرتا تھا- وہ ویگن گائوں کے ہی ایک بندے کی تھی جو شہر جاتے وقت سواریاں بھی پارٹ ٹائم کے طور پر لیتا جاتا تھا۔ایک روز ڈرائیور صاحب اپنے ساتھ بیٹھے شخص کو گذشتہ شب کا قصہ سنانے لگے کہ جب وہ اور گائوں کے آٹھ دس اور بندے بھنگ کی محفل میں گئے تھے۔ایک صاحب جو خاصے بڑے زمیندار ہیں بھنگ پی کر ذرا ترنگ میں آ گئے اور اپنے سے چھوٹی عمر اور چھوٹے رشتے کے ہم رنگ و ہم بھنگ سے فرمائش کرنے لگے کہ وہ انکے منہ میں پیشاب کریں۔
خدا جانے ان چھوٹے میاں کو بھنگ چڑھی نہیں یا انکا موڈ نہیں بنا یاوہ کسی اور مسئلے پر غور میں مصروف تھے انہوں نے پیشاب کرنے سے معذرت کر لی۔جب بڑے میاں نے دیکھا کہ اتنے بڑے زمیندار کی درخواست رد کر دی گئی ہے تو وہ جلال میں آ کر بھوں بھوں کر کے رونے لگے۔
سننے والے نے ویگن ڈرائیور سےپوچھا حضور آپکو نہیں چڑھی ؟ وہ بولے نہیں جی ہم تو چپ کر کے آئے اور اندر کمرے میں کنڈی لگا کر سو گئے ۔صبح اٹھے تو گرمی نے سب نشہ وشہ اتار دیا تھا۔آپ خود دیکھ لیں بھلا کہیں سے بہکا ہوا لگ رہا ہوں؟پتہ نہیں انکو وہ نشہ میں لگے یا نہیں لگے میں اس روز اپنی منزل تک پہنچتے تک جتنی سورتیں یاد تھیں دوہراتا چلا گیا کہ مجھے انکے گرمی والے فارمولے پر اعتبار نہیں تھا۔
ایک دوست نے بتایا کہ ایک بار غلطی سے اس نے بھنگ پی لی تھی تو وہ بات بے بات ہنس ہنس کر پاگل ہوتا رہا۔
ویسے جھوٹ سچ تو اللہ کو پتہ پر ہمارے علاقے میں مشہور ہے کہ ایک بوٹی ہے جسکا نام ہے دھتورا۔ وہی جسکے بارے میں ہے
گل گئے گلشن گئے ، باقی دھتورے رہ گئے
یہ بوٹی بھی نشے کے لیے استعمال کی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ جو جس حالت میں دھتورا توڑنے جائے وہ اسکو پینے کے بعد اسی حالت میں آ جاتا ہے۔
یعنی کہ اگر کوئی ہنستے ہنستے توڑے گا تو پی کر ہنستا ہی رہے گا، کوئی بلاگ لکھتا ہوا جائے گا تو پی کر بلاگ ہی لکھتا رہے گاالبتہ کوالٹی کے بارے روایت خاموش ہے۔پی تو میں نے کبھی نہیں پر آج کل جس شدت سے بلاگ آ رہے ہیں مجھے کبھی کبھی شک پڑتا ہے کسی نے دھوکے میں تو نہیں پلا دی۔
ویسے آپس کی بات ہے سیاست کی بات میں کرتا تو نہیں کہیں ہمارے سیاست دان بھی تو۔۔۔۔۔پر بیچارے سیاستدانوں کو کیا الزام دینا مجھے تو لگتا ہے ہماری ساری قوم ہی توڑ کر پی چکی ہے۔
جھنڈوں کے بارے میں ہمارا تجربہ کوئی اتنا خاص اچھا نہیں رہا۔ایک تو جس جس 14 اگست پر ہم نے جھنڈے اور جھنڈیاں لگائیں اسی سال بارش نے جشن آزادی ضرور منایا ہے۔
ایک بار اولمپکس کھیلوں سے پہلے کوکا کولا بوتل کے ڈھکن کے اندر جو سفید پلاسٹک کا کور ہوتا ہے اس میں سے مختلف ملکوں کے جھنڈے نکلا کرتے تھے اور مجھے انکو جمع کرنے کا خاصا شوق ہوا کرتا تھا۔اور ساتھ میں ایک بری عادت بھی تھی کہ میں انکو چیونگم کی طرح چباتا رہتا تھا۔ایک بار میں باہر دکان سے کوکا کولا پی کر آیا تو سامنے والد صاحب بیٹھے تھے بولے منہ میں کیا ہے؟ چونکہ ہم پہلے ہی تین چار بار وارننگ وصول کر چکے تھے اس لیے ہکلا کر بولے جی کچھ نہیں۔تاہم اگلے ہی لمحے والد صاحب کے طمانچے نے میکسیکو کے جھنڈے کو منہ سے باہر لا پھینکا۔اور ہم اگلے کچھ دن گولڈ میڈل کا نشان چھپانے کی غرض سے کمرے تک ہی مقید رہے جہاں اولپکس میں شرکت کرنے والے ممالک کے جھنڈوں کا اسٹاک محفوظ تھا۔
تیسرا اکثر اسکولوں کی طرح ہمارے اسکول ملتان پبلک اسکول میں جھنڈے لگے ہوئے تھے اور اتفاق سے ہمیں کبھی اسکول جانے کا شوق نہیں رہا توہم ہر روز صبح اٹھ کر بیداری کی دعا کی بجائے افسوس پڑھتے کہ آج بھی کچھ ایسا نہیں ہوا جس بنا پر ہم اسکول سے چھٹی کر سکیں۔اسکے بعد ہم نہ جانے کہ بہانہ سوچتے اور اکثر ہمارا بہانہ نہ چلنے کی بنا پر ہمیں اسکول جانا پڑتا تو ہم تمام راستہ گنتے جاتے کہ باقی ہمارے اسکول سے خلاصی میں کتنے دن بچے ہیں کہ دو سال آٹھ ماہ تین دن یعنی 365 جمع 365 جمع 240 جمع 3 کل ہوئے 973 اور آج کا نکال کر باقی بچے 972 دن اور۔
بات یہ ہے کہ سردائی ہو بھنگ ہو یا جھنڈے اپنا تجربہ کوئی ایسا اچھا نہیں رہا۔تو اسی لیے میں اس موضوع پر کہنے سے لاچار ہوں ویسے میرے خیال میں جس سوال کے جواب میں یہ سارا بلاگ کھڑا کیا گیا ہے اس کا اصل جواب تو یہ ہونا چاہیے کہ جھنڈے اس لیے لگائے ہوتے ہیں کہ تیز رفتاری سے آنے والا دوکان آنے تک بریک لگا سکے۔باقی اپنی سوچ ہے جہاں تک کھینچے جائیں۔۔۔