Ropiya waqee Ro piya
فرانسیسی کہاوت ہے کہ کرنسی چھاپنے والے پریس کے پیچھے پھانسی گھاٹ ہے۔ فرانسیسی واقعی دور رس نگاہ رکھنے والی قوم ہے جب ہی اتنی صدی آگے دیکھ لیا جب آگے ہمارے حکمران نوٹ چھاپ چھاپ کر گھر لیے جا رہے ہیں اور پیچھے عوام پھانسی گھاٹ پر قطار بنائے کھڑی ہے۔
کرنسی نوٹ سب سے پہلے چھاپنے کا ذمہ چینیوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے آئی ایم ایف IMF اور ورلڈ بنکWorld Bank سے پہلے بلکہ کافی پہلے یعنی حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے بھی پہلے ہی نوٹ چھاپے تھے لیکن تب سیانے لوگ دنیا میں موجود تھے اور ان کا کہا مانا بھی جاتا تھا تو انہوں نے سمجھا بچھا کر نوٹ چھپوانے بند کر دیے۔
دنیا میں شروع میں بارٹر نظام چلا کرتا تھا کہ کسی شے کے بدلے کوئی اور شے۔ اس میں چیز کی قیمت سودا لینے والے اور دینے والے پر منحصر ہوتی تھی یعنی میرے پاس سونا وافر ہے اور کسی ساتھی بلاگر کے پاس انڈے وافر ہیں تو میں خوشی خوشی دس گرام سونے کے بدلے ایک درجن انڈے لے لیا کرتا تھا۔
پھر دنیا نے ترقی کی اور لوگوں کو عذاب میں ڈالا۔ یونانی حکمرانوں نے سکے ڈھالنا شروع کیے۔ گمان غالب ہے کہ اگر اس زمانے میں ٹی وی اور اخبارات ہوتے تو یہ بے وقوفی وہ نہ کرتے لیکن ان کے پاس پبلسٹی کا کوئی اور ذریعہ ہی نہ تھا کہ اپنی تصویر کے سکے چلا دیں۔
سکوں کے ہوتے مہنگائی یا کرنسی کی بے عزتی (روپیہ بمقابلہ ڈالر) نہیں ہوا کرتی تھی کیونکہ سکے سونے کے یا کسی اور دھات کے ہوتے تھے اور قیمت برقرار رکھتے تھے کہ وہ خود سونا یا چاندی تھے۔
محمد بن تغلق ایک بادشاہ گزرا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وقت سے پہلے پیدا ہو گیا تھا اگر وہ سو سال بعد پیدا ہوتا تو کامیاب ترین بادشاہ ہوتا۔ اس کے اہم کاموں میں ایک یہ بھی ہے کہ اس نے اس زمانے میں سونے کے علاوہ دوسری دھاتوں کے سکے بھی چلائے۔ یعنی اگر ایک کلو سونا دو کلو چاندی کے برابر ہے تو اس نے ایک سونے کے سکے کے برابر دو چاندی کے سکے چلا دیے۔ لیکن ہندستانی اس نظام کو اپنا نہ سکے اور انہوں نے جعلی سکے شامل کر دیے جس سے حکومت کو نقصان پہنچا۔ لیکن اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارا کوئی قصور نہیں ہمارے خون میں یہ علتیں شامل ہیں جو ہم اب کر رہے ہیں۔
منگولوں نے نہ صرف جنگ سے مسلم دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجائی بلکہ انہوں نے کرنسی نوٹ بھی دوبارہ چھاپنے شروع کیے جس نے ہماری جمہوری حکومتوں کی اینٹ سے اینٹ بجائی ہوئی ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی مارکو پولو قسم کے نقل خورے یہ نظام یورپ میں بھی لے آئے۔ اور یورپ سے ہوتا ہوا یہ تمام دنیا میں رائج ہو گیا کہ ہلکا ہے، آسانی سے چھپ جاتا ہے، خوبصورت ہے وغیرہ وغیرہ۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد ماہرین اکٹھے ہوئے ایک آئی ایم ایف نامی بلا ہمارے سر ماری جس نے ڈالر اور سونے کی باہمی قیمت طے کی اور سونا کرنسی چھاپنے کا پیمانہ قرار پایا۔
بنک نوٹ اصل میں ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے جس پر حکومت کی مہر لگی ہے باقی اس کا ڈزائن وزائن صرف نقالوں سے ہوشیار رہنے کو ہے۔ اب کرنسی نوٹ سمجھیں یا انگریزی بل bill سمجھیں یا ایک سادے کاغذ پر حکومتی مہر۔ مطلب یہ تھا کہ بھائی مارکیٹ میں ایک گرام سونے کی قیمت سو روپے ہے لہذا یہ ہم ایک گرام سونا جمع کرا رہے ہیں تو آپ سو روپے کے نوٹ دے دیں۔ تو جب سونا چڑھتا تو آپ کا پیسہ بھی مضبوط ہوتا اور گرتا تو پیسے کی مالیت بھی مضبوط ہوتی۔اب جب آپ نے سو کی بجائے دو سو کے نوٹ لے لیے تو آپ کی کرنسی کی قیمت آدھی رہ گئی اور جو کرنسی سونے کے مطابق چل رہی ہے اس کی مالیت آپ کی کرنسی سے خودبخود دگنی ہو گئی۔
کرنسی نوٹ تک تو معاملہ پھر بھی ٹھیک تھا لیکن پلاسٹک پیسہ یعنی کریڈت کارڈ وغیرہ نے معاملہ اور بگاڑ دیا۔ کچھ کہتے ہیں یہ ترقی ہے کچھ کہتے ہیں بربادی ہے فیصلہ خود کرلیں کہ آپ نے دس روپے جمع کرا دیے بنک میں۔ بنک نے وہ دس روپے میں سے دو یا تین جتنا بھی مرکزی بنک نے اس کو کہا بطور ضمانت مرکزی بنک میں جمع کرا دیا اور باقی آٹھ روپے آگے کسی کو پکڑا دیے۔ نہ صرف آٹھ روپے اس کو دے دیے بلکہ اس کو آٹھ روپے کا کریڈٹ کارڈ بھی تھما دیا کہ بھئی عیاشی کر۔ اگلے بندے نے آٹھ روپے دے کر بیس روپے کی کار لے لی اور وہ آٹھ بنک نے دوبارہ کسی اور کو ادھار چلا دیے۔ اب کل آپکے دس روپے ہیں جو گھوم گھام کر 50 روپے مزید بن چکے ہیں۔ دیکھا جائے تو کیا ترقی ہے کہ دس روپے سے پچاس کا کام ہو گیا لیکن جب عمارت گرتی ہے تو بنک دیوالیہ کر جاتا ہے اور 50 روپے کے نکلتے ہیں 2 روپے جو اسٹیٹ بنک نے بطور ضمانت رکھے تھے۔جبکہ سکوں میں یہ کہانی نہیں چل سکتی کہ وہ اپنی مالیت اپنے اندر ہی رکھتے ہیں۔
اب جہاں تک بات ہے مہنگائی کی تو اکنامکس کہتا ہے کہ جب آپ زیادہ نوٹ چھاپیں گے تو لوگوں کی قیمت خرید زیادہ ہو گی اور جب لوگوں کے پاس پیسے کم ہوں گے تو قیمتیں بھی گر جائیں گی۔ مشرف دور میں بنکوں کے آسانی سے ملنے والے قرضوں اور زمین کی قیمتیں بڑھنے سے لوگوں کے پاس بہت سا پیسہ آیا ہے جس وجہ سے پاکستان میں مہنگائی بڑھی ہے ۔ مہنگائی روکنے کے لیے یورپ کا فارمولا ہے کہ بنک انٹرسٹ ریٹ interest rate یعنی شرح منافع یا شرح سود بڑھا دیں پھر لوگ منافع کھانے کی خاطر بنکوں میں پیسے رکھ دیں گے اور نیا بزنس نہیں ہو گا جس سے مارکیٹ میں پیسہ نہیں کم ہو جائے گا۔
یہ سب خیالی اور آئیڈیل دنیا کی باتیں ہیں
ہمارے ملک میں بے وقوف پلاننگ کرنے والے یہ نہیں جانتے ابھی بھی سود کی وجہ سے بہت سے لوگ بنکوں میں پیسہ نہیں رکھتے اور مہنگائی کی اصل وجہ حکومت کے اندھا دھند نوٹ چھاپنے ہیں۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر پاکستان میں تو مافیا ہیں جو ان کا دل کرے گا وہ کریں گے ۔ چینی مافیا، پٹرول مافیا، بجلی مافیا، سبزی مافیا، قانونی مافیا، کار مافیا وغیرہ وغیرہ۔ بھاڑ میں گئی عوام اور بھاڑ میں گیا اکنامکس بمع اصول۔ اور مرکزی بنک کا کام ہماری طرف عوام، ملک یا کرنسی کی دیکھ بال نہیں بلکہ بنکوں کی دیکھ بال ہے کہ کسی طرح ان کا منافع کم نہ ہونے پائے۔
ہماری طرف تو ایسے ایسے شاہکار منصوبے بنے ہیں کہ پہلے پانچ روپے کا نوٹ اس وجہ سے چھپنا بند کیا گیا کہ اس کو چھاپنے کی قیمت سوا چھ روپے پڑ رہی تھی۔ پھر ایک روپیہ اور دو روپیہ کا جو سکہ جاری کیا گیا وہ پتہ چلا کہ اپنی قیمت سے مہنگا ہے کہ جس دھات سے بنا رہے ہیں پاکستان میں وہ مہنگی ہے یعنی ہم وہ عقل مند ہیں جو سوا روپے میں ایک روپے کا سکہ بناتے رہے ہیں۔
باقی جو یہ بات ہے کہ یہ عمارت ہوا میں کھڑی ہے تو بھائی بات یہ ہے کہ اب ایسی ہی عمارت آتی ہے۔ کون اٹھ کر کہے گا کہ ہم پاکستانی روپے کو نہیں مانتے ہمارے پیسے واپس کرو؟ اگر کوئی نہیں مانتا وہ ویسے ہی غیرملکی کرنسی لے کر رکھتا ہے۔اور اگر کوئی پنگہ ہو بھی سہی تو زیادہ سے زیادہ بنک ڈیفالٹ کر جاتے ہیں ملکی کرنسی کہیں نہیں جاتی۔ اور جس یونانی کرنسی کی کہانی سنائی گئی اس کا نام یورو ہے وہ سترہ ملکوں میں چل رہا ہے اور اٹھارہواں اگلے سال جنوری میں اس میں شمولیت اختیار کر لے گا۔ برے دنوں میں بھی وہ ایک سو دس روپے پاکستانی کے برابر تھا۔ اور یہ جو روپیہ گرتا جا رہا ہے اگر آپ ڈالر خود خریدیں گے تو ڈالر مہنگا تو ہو گا ہی ناں۔ اگر مشرف دور میں دو ترقی کے سالوں میں ڈالر اوقات میں رہ سکتا ہے تو اطمنان رکھیں کچھ نہیں ہونے والا۔ صرف امن ہو جائے اور انٹرسٹ ریٹ یعنی شرح سود کم کر دی جائے تو دوبارہ ترقی ہو سکتی ہے۔ انٹرسٹ ریٹ پر پھر کسی دن تفصیل سے روشنی ڈالوں گا تاکہ سارا چکر آپ کی سمجھ میں آ جائے۔ بس دعا کریں اللہ پاکستان کو محب وطن حکمران دے دے بس باقی ہم میں چین اور بھارت سے زیادہ اقتصادی ترقی کی گنجائش ہے یہ میں نہیں کہتا اعداد و شمار کہتے ہیں۔
نظام دین سقہ کو جب ایک دن کی حکومت ملی تو اس نے ہندوستان میں چمڑے کے سکے چلوا دیے۔ اب یہ بطور محاورہ کہا جاتا ہے کہ ان کی حکومت آئی تو انہوں نے چمڑے کے سکے چلا دینے ہیں اور دیکھا جائے تو روپے کی اوقات چمڑے کے برابر لا کر، اپنی ہی برادری کو نواز کر اور عوام کی چمڑی اتار کر اس کے سکے بنا کر ہر طرح سے محاورہ ہماری جمہوری حکومتیں محاورے کا حق ادا کر رہی ہیں۔اور ہماری طرف چمڑے کے ہی سکے چل رہے ہیں۔ تو بھائیو اور بہنو روپیہ رویا نہیں بلکہ رلایا گیا۔
پس تحریر: اوریا مقبول جان صاحب نے چند روز قبل ایک کالم لکھا تھا جس کی سوشل میڈیا پر زور زور سے تشہیر کی گئی۔ یہ بلاگ اس کا جواب نہیں کہ کہاں وہ بڑے دانشور لوگ اور کہاں ہم چھوٹے موٹے بلاگر۔ لیکن وہی پڑھ کر ہی ابو عبداللہ صاحب نے فرمائش کی تھی کہ کرنسی نوٹ پر روشنی ڈالی جائے لہذا یہ بلاگ کی ذمے داری ان پر ہے ہمارا ذمہ نشتہ۔