آج مہشور زمانہ اردو بلاگ یعنی یہی بیچارہ بلاگ "اس طرف سے" پانچ سال کا ہو گیا۔ ایسا لگتا ہے گویا تمام عمر سے بلاگ لکھتا آیا ہوں۔ لیکن اب آہستہ آہستہ بلاگ لکھنے سے دل بھرتا جارہا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ بلاگ میری دوہری شخصیت کا عکاس ہے کہ اپنی کہانیوں کی طرح اندر ہی اندر میں سڑا بسا ہوں لیکن باہر میں نے خوش اخلاقی اور مزاح پسند ہونے کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے جس کی ایک شکل میرا بلاگ بھی ہے اور چونکہ ہر بندے نے اپنی اصلیت کی طرف لوٹنا ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ یہ ہنسی مذاق لکھنا چھوٹتا جا رہا ہے جبکہ اسی سال میں جس دوران میں نے پچاس کے لگ بھگ بلاگ لکھے ہیں ستر کہانیاں جن میں سے کچھ چند سطری، کچھ کے مرکزی خیال، کچھ ادھوری، کچھ پوری لکھ چھوڑی ہیں۔ لیکن اتنے سفر کرتا ہوں اس لیے خطرہ رہتا ہے کہ کسی دن ملائیشیا جائے بغیر بھی ٹرجعون ہونے کی نوبت آ سکتی ہے کہ ملائیشیا والوں نے ٹھیکہ تھوڑی لیا ہے جہاز تو کہیں بھی گر سکتا ہے تو اس صورت میں میرا کمپیوٹر چلا کر اس میں ڈی ڈرائیو میں جا کر الا بلا کے فولڈر میں ڈاکیومنٹ پر کلک کر کے مائی ڈاکیومنٹ میں جا کر 22 کھول کر اردو پر کلک کر کے شارٹ اسٹوریز پر کلک کر نامکمل کے فولڈر میں جتنی کہانیاں ہوں ان سب کو آن لائن شائع کردیں تاکہ لوگ پڑھ کر مجھے حتی الوسیع برا بھلا کہہ سکیں اور کچھ بخشش کا سامان ہو۔
پچھلے دنوں ایک صاحب نظر کو کہانی پڑھنے کے لیے بھیجی حالانکہ انہوں نے خود فرمائش کی تھی اگرچہ وہ فرمائش کر کے بھول گئے تھے لیکن میں کیسے ان کی خواہش رد کر سکتا تھا وہ شاعر اور ادیب ہی کیا جو اپنی تخلیق کی تشہیر کا موقع جانے دے تو کہانی پڑھ کر انہوں نے میرے خوب لتے لیے اور کہا اسے کہانی کہتے ہیں؟ ان کا تبصرہ پڑھ کر دل کو ایک گونہ اطمینان ہوا کہ میں نے اپنی تحریر کا معیار گرنے نہیں دیا کہ بلاگ پڑھ کر بھی اکثر لوگ یہی کہتے ہیں کہ اسے بلاگ کہتے ہیں؟ وہ کہانی مشہور مسلمان سائنسدان عباس بن فرناس کے بارے میں تھی اور آج کل میں ایک کہانی احمد خان کھرل کے بارے لکھ رہا ہوں جس کو بلاگ پر شائع کرنے کا ارادہ ہے کہ پہلے جو کام انہوں نے اکیلے سرانجام دیا اب آپ سارے مل کر ادا کر سکیں۔ حالانکہ اللہ جانتا ہے ہمارا مقصد عزت کمانا نہیں بلکہ اپنے ہیروؤں کی مشہوری ہے۔
دوسرا یہ بھی ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ میرے پڑھنے والے بس جتنے ہونے تھے اتنے ہو چکے ہیں اور جب کسی پروڈکٹ کی سیل اپنی انتہا پر پہنچ جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اب اس کے جانے کے دن آگئے۔ بھلے لوگوں کے ہفت واری لاکھ لاکھ وزیٹرز ہو گئے جب کہ ہم اپنے پانچ سالوں میں لاکھ تک پہنچے جس میں نوے بانوے ہزار تو ہم نے خود ہی وزٹ کیے ہوں گے۔
تیسرا یہ بھی ہے کہ کمپیوٹر میں خود کی کھینچی ہوئی اکیس ممالک کی تصاویر پڑی ہیں اور میں اس سوچ میں ہوں کہ کچھ ان کے بارے کروں۔ ویسے بھی اب تک میرا وتیرہ رہا ہے کہ کچھ عرصہ بعد میں ایک چیز سے اکتا کر دوسری تخلیقی چیز کی تلاش میں چل پڑتا ہوں تو اس لیے ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ بلاگ کو چھوڑ کر مستقل کیمرہ ہی نہ تھام لوں۔
چوتھا یہ بھی ایک طرح کا عذر ہے کہ لکھنا اتنا آسان ہے کہ جب دل چاہا کمپیوٹر اٹھایا اور ٹائپ کرنا شروع کردیا جب سفر میں کہیں چلتے چلتے منہ کا ذائقہ تبدیل کرنا چاہا تو موبائل نکال کر کہانی یا بلاگ لکھنا شروع کر دیا۔ جب کسی شے کی اتنی ارزانی ہو جائے تو بندہ تن آسان اور ناشکرا تو ہو ہی جاتا ہے۔
پانچواں ان دنوں اور کچھ آنے والے دنوں میں پہلی بار تعلیمی مصروفیت بھی آئی ہیں پہلی بار اس لیے کے زندگی میں پہلی بار تعلیمی مصروفیت پر توجہ دی ہے وگرنہ ہم تو بورڈ کے امتحانات سے ایک رات قبل تک تمام رات تاش کھیل کر یا میچ دیکھ کر گزار چکے ہیں۔
چھٹا یہ ہے کہ مجھے یہ بھی لگتا ہے میں نے جو بلاگ سے پانا تھا وہ پا لیا۔ اتنے اچھے اچھے لوگوں سے ملاقات ہوئی کہ نہ پوچھیں۔ کچھ نفیس طبع تھے کچھ نفیس قلم۔ کچھ عمدہ اخلاق والے کچھ اچھے مزاج والے۔ کچھ مہمان نواز کچھ اعلیٰ گفتار۔ اور سب سے بڑھ کر سب پیار کرنے والے۔ عمران اقبال صاحب عمرانیت والے اور عمران سیریز کی طرح ہی مزیدر، استاد جعفر حال دل والے، کاشف صاحب جوانی پٹے والے، ریاض شاہد صاحب جریدہ فیم، محمد سلیم صاحب المعروف حاجی صاحب ، وجدان عالم صاحب کام چور، یاسر جاپانی صاحب جو کہ ویسے ہی فیم ہی فیم ہیں، راجہ افتخار صاحب ہم اور ہماری دنیا والے ، عمیر لطیف صاحب وہ پانچویں درویش جو عام درویشی سے کوسوں دور ہیں، مولوی لینکس صاحب جو محض بلاگی تیزابیت تک محدود ہیں وگرنہ ان کی ذات تو وہ نمکین لسی ہے کہ خماری طاری ہونے لگتی ہے، حسیب صاحب المعروف دوہرا ح۔ جس سے ملا اپنے بارے شرمندگی اور لوگوں کی محبت کا بوجھ مزید بڑھتا گیا۔ اب صرف استاد ڈفر سے ملاقات کی خواہش رہ گئی ہے اور وہ ایسی ہے جیسے کوئی بڈھا کہتا ہے پت بس ہن تے ایک ہی خواہش رہ گئی ہے کہ تیری اولاد کو اپنی گود میں کھلاؤں۔ ایسے ہی ڈفر صیب سے ملاقات کی تمنا ہی باقی بچی ہے۔ (ویسے اس سے بھی ہمارے ذہنی توازن درست نہ ہونے کے بارے سوچا جا سکتا ہے کہ لوگ کس سے ملنا چاہتے ہیں اور میں کس سے ملنا چاہتا ہوں)۔
ساتواں یہ ہے کہ پچھلے دو سالوں میں اوسطاً ہر چھ روز میں ایک بلاگ لکھا ہے ۔ جس میں ایک قسط وار ناول بھی لکھ مارا جس پر تو انگریزی فلم بھی بن سکتی تھی اور جو عنقریب ڈیجیٹل کتاب کی صورت میں بلاگ پر آ جائے گا ، خبروں کا پوسٹ مارٹم کر ڈالا، بہانے بہانے سے سیاست کا تڑکا لگایا، تمام دنیا جہان کی سیر کرا دی، ایسی ایسی باتیں لکھ دیں کہ اگر میرے دوست یار پڑھ لیں تو اتنے جھوٹ لکھنے پر میرا جلوس ہی نکال دیں لیکن مجال ہے جو کہیں سے حوصلہ افزائی ، شاباشی، تعریف یا تنقید پڑھنے کو ملی ہو۔ بس وہی دس بارہ بندے ہیں جو پڑھتے ہیں اور واہ واہ کرتے ہیں اب تو مجھے شک پڑتا ہے کہ کہیں یہ بھی پتہ لگے کسی مخلص دوست نے فرضی آئی ڈیاں بنا رکھی ہوں کہ بیچارہ بچہ مایوس نہ ہوجائے لیکن ادھر تو یہ حال ہے کہ کوئی نیا بندہ کمنٹ کردے بے اختیار وہ لطیفہ یاد آجاتا ہے کہ ایک تو میرا ووٹ تھا دوسرا میری بیگم کا یہ تیسرا کون تھا۔ حد تو یہ ہے کہ آج تک کسی نے ہمارا بلاگ ہماری بات چوری تک کرکے اپنے نام سے نہیں لگائی اس سے آپ ہماری مقبولیت اور معیار کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
آٹھواں یہ ہے کہ پانچ سال کی بلاگی عمر میں پہنچ کر نہ ہم نئے بلاگرز میں رہے ہیں کہ حوصلہ افزائی کے نمبر ملیں نہ بزرگ بلاگر ہیں کہ لوگ عزت سے پیش آئیں کیونکہ ہم سے پرانے ہزارہا سال پرانے بلاگر موجود ہیں ۔ ادھر نہ ہم سیاسی بلاگر ہیں کہ ہر موسم سر سبز رہے نہ کوئی تکنیکی دماغ کہ سافٹ وئیر بنا ڈالیں یا سافٹ وئیر کے استعمال بتاتے پھریں۔ نہ سنجیدہ موضوعات پر قلم کشائی کرتے ہیں کہ چار بندوں میں عزت بن سکے نہ مذہب پر لکھتے ہیں کہ محفل میں اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر عزت کما سکیں نہ عمر سے ایسے ہیں کہ بچے ہمیں انکل یا بابا بلا سکیں نہ اتنے بچے کہ بڑے ہماری غلطیوں پر درگزر کرسکیں، نہ ہم فیس بک پر کاپی و نیم کاپی شدہ اسٹیٹس لکھ سکتے ہیں نہ ٹوئیٹر پر لگاتار 'مجھے بھوک لگی ہے'، 'میں کھانا کھا رہا ہوں'، قسم کی باتیں لکھ سکتا ہوں، نہ ہم سیاسی بحثوں کے قابل ہیں نہ ہم سے لکھنے تو لکھنے بولنے میں گالی قابو آئے۔ اگر کرکٹ میں دلچسپی ہوتی تو قاری مل جاتے لیکن فٹ بال ان کو پسند ہے جنکو انگریزی آتی ہے اور جہاں انگریزی آتی ہے وہاں ہماری جان جاتی ہے تو جب بندہ ایسے مقام پر پہنچتا ہے تو اس کے لیے آنا جانا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
نواں یہ کہ المختصر اور الجامع بندہ کیا ہر بار سالگرہ پر لکھے تو جو آیا دماغ میں حاضر خدمت ہے۔ اس بار کا ارادہ ابھی تک یہی ہے کہ ہر پیر کو بلاگ لکھا جائے لیکن ہر پیر کا وعدہ پکا نہیں۔ اب تو بس بہانہ ہی ڈھونڈیں گے کہ اس بار کیوں نہ لکھا جائے لیکن یہ طے ہے لکھنا جاری رہے گا کہ اپنے اندر کی سڑاند سے بھاگنے کا یہی واحد راستہ معلوم ہے کہ کچھ نہ کچھ تخلیقی کام کیا جائے۔ پانچ سال تو بلاگ لکھا ہے دیکھیں آگے کہاں تک چلے۔