اگر آپ یورپ یا کسی اور ایسے ملک جہاں انصاف اور عام آدمی کی قدر ہے میں رہ کر آئیں تو پاکستان آتے ہی ہر شخص کے انفرادی و اجتماعی افعال دیکھ کر سر پیٹنے کو دل کرتا ہے کہ آخر ہم کہاں جا رہے ہیں؟ پاکستان میں رہنے والے عام طور پر اس شے کو محسوس نہیں کرتے بلکہ کچھ لوگ تو ایسی باتوں کو پاکستان کے خلاف مغربی پراپگنڈہ تک کہہ دیتے ہیں لیکن جب آپ کے پاس تقابل کرنے کو کوئی مقابل موجود ہو تو حقیقت آشکار ہو جاتی ہے-
انسانیت، دوسروں کا مال و عزت کا خیال ہمیں چھو کر نہیں گزرا جس کا اسلام نے واضح حکم دیا ہے- ایسا محسوس ہوتا ہے ایک بغیر انجن کے گاڑی اندھا دھند دوڑے جا رہی ہے اور ہر سگنل ہر ہر پھاٹک پر مختلف چیزوں سے ٹکراتی چلی جا رہی ہے-
برسوں پہلے پڑھا تھا کہ “جب معاشرہ ٹکڑے ٹکڑے اور روح عصر فگار ہو تو جان لیجئے کہ انتشار مکمل ہو چکا ہے”- ایسے موقع پر معاشرے کے تین ٹکڑے ہو جاتے ہیں ‘‘جابر اقلیت، بیزار عوام اور نامہرباں ہمسائے’’۔---اور اگر زوال کی ساری وجوہات کو اکٹھا کیجیے تو صرف ایک وجہ بنتی ہے جو ہے "ملک میں اتفاق اور یک جہتی کا فقدان"۔ کیا پاکستانی حالات پر مزید کچھ کہنے کی گنجائش بچتی ہے؟
درج بالا الفاظ مختار مسعود نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف 'آواز دوست' میں لکھے تھے جو کہ 1972 میں چھپی تھی- اگر پاکستان کو دیکھا جائے تو صورتحال ایسی نظر آتی ہے گویا یہ کتاب آج کے حالات کو دیکھ کر تحریر کی گئی ہے- اگر ان کو ستر کی دہائی میں قحط الرجال اور بے سمت حرکت لگ رہی تھی تو اب کا تو اللہ ہی حافظ ہے-
اگر آج پاکستان کو دیکھیں تو ہر شعبہ میں انفرادی و اجتماعی ناکامیاں، تباہیاں منہ چڑاتی نظر آتی ہیں- باقی باتوں کو چھوڑیے اقربا پروری، اخلاقی زبوں حالی، رشوت خوری، بد عنوانی، اختیارات کا نا جائز استعمال جو چند عشرے قبل چھپ کر کیے جاتے تھے اب زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کے ذرائع ہیں-
حدیث مبارکہ ہے کہ "عبدالله بن عمر نے روایت ہے فرمایا رسول اللهﷺنے تم میں سے ہر شخص اپنے زیردستوں کا راعی اور نگہبان ہے ہر شخص سے اس کی ماتحت رعیت کی بابت باز پرس ہوگی" ادھر اسلام کے قلعے میں یہ حال ہے کہ ہر شخص کرسی پر بیٹھتے ہی خود کو فرعون سمجھنے لگتا ہے اور اپنی رعایا کا خدا بن بیٹھتا ہے- کچھ عرصہ قبل بھلے لوگ رشوت یا سفارش پر بھرتی ہوتے تھے لیکن اپنے ذمہ کام بھی سر انجام دیتے تھے لیکن اب میرٹ کا قتل کرنے والے یہ سوچ کر بھی آتے ہیں کہ 'ہم آئے ہی مفت کھانے ہیں-جو کرنا ہے کرلو'۔
اقربا پروری کا یہ حال ہے صرف یونیورسٹیوں (یاد رہے یہ ان اداروں میں سے ہیں جنکو مقدس گائے سمجھا جاتا رہا ہے) کی پچھلے چند سالوں کی اسکالر شپ کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں کہ کامیاب امیدواروں میں کتنے یونیورسٹیوں کے ملازمین (تعلیمی و غیر تعلیمی اسٹاف) کے رشتہ دار نکلتے ہیں-
رشوت یہاں تک پہچ گئی ہے کہ کوئی بھی مسئلہ ہو پیسے سے حل ہو سکتا ہے بلکہ اب تو رشوت کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے اور پیسہ لینا و دینا دفتری معمول کے حصے سے زیادہ کچھ نہیں-
لوگ یا خوش گمانی میں گم ہیں یہ وقت کے ساتھ، جمہوریت کے تسلسل سے، گلوبلائزیشن سے ، سی پیک سے حالات سدھر جائیں گے یا بدگمانی میں گم ہیں کہ تباہی کے سوا ہمارا مقدر کچھ نہیں- اس موقع پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاکستان کا ہوگا کیا؟
اگر ہم ماضی میں جھانکیں تو اس سے قبل جن تہذیبوں یا ممالک نے پستی (اخلاقی، مالی یا کسی بھی قسم کی) کا سامنا کیا ان کو مختلف قسم کی سزائیں سہنی پڑیں- پہلے پہل تو ایسے ممالک پر دوسرے ممالک نے قبضہ کر لیا اور اکثر نے ایسے علاقوں کو خدائی عذاب کے طور شہروں کو تہس نہس کر دیا ، عوام و خواص کو غلام بنا لیا-
وقت تبدیل ہوا تو ایک اور طریقہ شروع ہوا کہ اندر سے عوام یا خواص ہی آزادی کی لہر پیدا کرتے اور ملک مختلف ٹکڑوں میں بٹ جاتا یا پھر انقلاب لا کر نیا بادشاہ لایا جاتا-
اب آج کے پاکستان کو دیکھیں تو یہ دونوں مرحلے بعید از قیاس لگتے ہیں کہ ایک تو دنیا اتنی گلوبلائز ہو چکی ہے کہ پاکستان کی بھارت یا کسی اور ملک کی جنگ کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے- بھارت یا کسی اور نے حملہ کر بھی دیا تو ایٹمی جنگ کے خطرے سے یا کسی اور وجہ سے دنیا بھاگم بھاگ 'تھوڑا لے تھوڑا دے' پر صلح کرا دے گی-
آزادی کی کچھ دبی دبی تحاریک ابھریں بھی سہی جو بلوچستان اور سندھ میں وجود رکھتی تھیں لیکن بدقسمتی یا خوش قسمتی سے وہاں آزادی کے نعرے باز اتنے ہی راستی سے دور تھے جتنے باقی پاکستان کے سیاستدان- بلکہ یہ کہیں تو غلط نہ ہو گا کہ پاکستان کے بگاڑ میں وہ بھی اتنے ہی حصہ دار ہیں جتنے دوسرے کہ وہ بھی اسی اقلیتی اشرافیہ میں شامل ہیں جنہوں نے پاکستان کو یہاں تک پہنچایا-
دوسرا یہ بھی کہ سی پیک سے پاکستان کا کوئی اور بھلا ہو یا نہ ہو یہ ضرور ہے کہ بلوچستان و سندھ کی آزادی تحریکیں ضرور اپنی موت آپ مر جائیں گی کہ فی الحال کمزور پاکستان ہمارے ہمسائے (چین) کے مفاد میں نہیں-
تیسرا راستہ انقلاب میں بھی یہی رکاوٹ حائل ہے کہ کوئی ایسا شخص نہیں جو قوم کی راہ نمائی کر سکے – خود مثال بن سکے کہ ہم نے نرے میاں فصحیت ہی پیدا کیے ہیں
جیسا کہ بانو قدسیہ نے راجہ گدھ میں لکھا تھا کہ
میں کھڑا ہو کر بولا ـ 'سر ایک بات ہے
'
'سگریٹ مت بجھاؤ ہم دوست ہیں پوچھو۔ اور بیٹھے رہو
'
' سر آپ ہر روز ہمیں بتاتے ہیں کہ روپیہ تھرڈ ورلڈ ذلت کی جڑ ہے پھر آب اپنی کا ر بیچ کر معمولی موٹر سائیکل کیوں نہیں خرید لیتے؟'۔۔۔
پروفیسر تنویر کا چہرہ لال ہو گیا۔ انہوں نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہا 'یہ بالکل پرسنل سوال ہے بیٹھ جاؤ ۔۔۔'
جب قیوم نے کیمونسٹ پروفیسر کو سائیکل پر آنے کا مشورہ دیا تو جواب ملا کہ 'ایک دانشور انٹلیکچوئل سائیکل پر آئے جائے--- اور تمھارے کارخانے دار---دو کوڑی کے نو دولتیے کاروں پر گھومیں- مرمر کر تو جگہ ملی ہے معاشرے میں---- برسوں کی جد و جہد کے بعد گریڈ بڑھے ہیں- ہم بھی عزت دار زندگی گزارنے کے قابل ہوئے ہیں ‘۔
ایسے ہی ہم سب معاشرے کو کوستے رہتے ہیں لیکن خود کو سیدھے راستے پر چلانے پر کوئی تیار نہیں-
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنی ذاتی نا اہلی سے قطع نظر ہر شخص معاشرتی بگاڑ سے نالاں ہے کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ نوجوانوں میں اندر ہی اندر لاوا ابل رہا ہے- بہت سے لوگ ایسے پھر رہے ہیں جنکے پاس سفارش، پیسہ کچھ نہیں کہ وہ اپنے حالات بہتر کر سکیں- ترقی کا دائرہ فقط ایک حلقے تک محدود ہے- میرے ذاتی خیال میں عمران خان کے آنے سے جو تبدیلی یا ردعمل ممکن تھا اس کو کچھ عرصہ کے لیے بریک لگ گئی ہے- لیکن اب الیکشن اور سسٹم کی ناکامی (یا عمران جیت گیا تو وعدوں کی ناکامی جو کہ ملکی حالات میں عین ممکن ہیں) عوام (خاص طور پر نوجوانوں ) کو ایک بار پھر کسی دوسرے راستے کی طرف دھکیل رہے ہیں-
سوال بدستور موجود ہے کہ ہوگا کیا؟
ایسا نہیں کہ بہتری نہیں آ سکتی- صرف انصاف و عدل کی فوری اور بلا تفریق فراہمی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی لا سکتی ہے- لیکن ایسا نہ ہی ارباب بست و کشاد کا ارادہ ہے اور نہ ہی سسٹم عام آدمی کے بھلے کی شے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے-
تاہم سب ممکنات کو سامنے رکھتے ہوئے میرے مطابق پاکستان میں کوئی بڑی تبدیلی آنے کا امکان نہیں—انتہائی حالات میں ایک بڑے پیمانے پر غیر منظم ہنگامہ ہی ممکن ہے- کسی دور اندیش رہنما کی غیر موجودگی میں زیادہ سے زیادہ یہی ممکن ہے جو سندھ میں بے نظیر کی وفات پر ہوا- اگر حکومت نے اس موقع پر مشرف حکومت کی پالیسی اپنائی کہ چپ رہو تو عوام اپنی بھڑاس نکال کر ہفتے دس دن میں ملک کی اچھی خاصی بربادی کر کے واپس گھروں کو چلے جائیں گے لیکن اگر حکومت نے اس موقع پر مداخلت کی تو زیادہ بڑا خلا پیدا ہونے کا امکان ہے کہ جلاؤ گھیراؤ کی زد میں حکومت و حکومتی اراکین بھی آ جائیں گے اور جب ایک ہجوم بپھر جائے تو اس کو قابو کرنے سے سیلابی پانی یا جنگلی کی آگ کو قابو کرنا زیادہ آسان ہے اور یہاں تو ہر چیز کا ایک ہی فارمولا ہے کہ 'پولیس گردی'۔
اگر خلا پیدا ہو بھی گیا تو اس کو ایک بار پھر فوج کو ہی پر کرنا ہوگا- اس کے علاوہ میری نظر میں مستقبل قریب میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی کہ ہماری انفرادی گناہوں اور نااہلیوں کی یہی سزا ہے کہ ہمارے بچے بھی اسی پاکستان میں پلیں بڑھیں جو ہم نے خود اپنے لیے تعمیر کیا ہے-
پاکستانیوں کو اسی پاکستان میں ہی رہنا ہوگا۔
Mustaqbil