احمد رضا قصوری اپنی کتاب "ادھر ہم ادھر تم" جو اسی کی دہائی میں شائع ہوئی تھی میں لکھتے ہیں کہ پنجاب پولیس ایسی ہے کہ اگر اس کو کہا جائے کہ اپنے والد کو گرفتار کرو تو یہ ہتھکڑی لیے والد کے پاس پہنچ جائیں گے کہ "ابا جی گرفتاری دے دیو تہاڈے پتر دی ترقی ہو جائے گی"۔ اگر اس زمانے میں جو پاکستان کا نسبتاً اچھا دور تھا یہ حال تھا تو سوچیں بعد میں کیا کچھ نہ ہوا ہوگا- اس تنزلی کو پڑھنا ہو تو سابق آئی جی پنجاب سردار محمد چوہدری کی الٹی میٹ کرائم Ultimate crime (جہان حیرت : اردو ترجمہ) پڑھ لیں کہ وہ کیسے فخر سے نواز شریف حکومت بچانے اور برقرار رکھنے میں مدگار رہنے کی کہانیاں بیان کر رہے ہیں-
ہم لوگ سندھ کی لاقانونیت کا ذکر تو بڑے زور سے کرتے ہیں، کے پی کے کے علاقہ غیر کو بھی سر پراٹھائے پھرتے ہیں بلوچی سرداروں کے قصے بھی زبان زدعام ہیں لیکن پنجاب پولیس کے کارناموں سے ہم ہمیشہ سے آنکھیں بند کیے رہے ہیں- کہانی بھٹو کی ایف ایس ایف سے شروع ہوئی جس کے جرائم آج بھی لوگوں کو یاد ہیں، پھر ایلیٹ فورس کا دور آیا اور پرانی اخباریں اٹھا کر دیکھیں تو کئی بے گناہ انکی پھرتیوں کی بھینٹ چڑھے اور ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا- ایلیٹ کے بعد ڈولفن آ گئی ، سی ٹی ڈی آئی اور پھر رہے نام اللہ کا-
ضیا مارشل لا کے بعد کی جمہوریت کئی لحاظ سے منفرد تھیں اور اس کی ایک خوبی اراکین اسمبلی کو کوٹوں کی الاٹمنٹ بھی تھی جس میں ایک کوٹہ پولیس بھرتی کا تھا جس میں چن چن کر اپنے قریبی لوگ بھرتی کرائے گئے اور پنجاب پولیس کا بیڑہ ہمیشہ کے لیے غرق کر دیا گیا-
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بہت سے لوگ شہباز شریف کی تعریف کرتے نہین تھکتے تھے جب ان کے پہلے دور میں ماورائے عدالت قتل شروع ہوئے- کہ فوری انصاف ہو رہا ہے- کون جانتا ہے ان میں کتنے گناہ گار تھے کتنے بے گناہ- پاکستان کا آئین تو کسی بے گناہ کو سزا دینے سے بہتر ہے دس گناہ گار چھوڑ دیے جائیں تو یہ کونسا طریقہ کار تھا- انگریزی کا محاورہ ہے کہ جو لوگ عفریت کے شکار کو نکلتے ہیں وہ ایک دن خود عفریت بن جاتے ہیں اور عابد باکسر مارکہ ایک ایسی نسل تیار ہوئی جس کا حتمی نتیجہ ماڈل ٹاؤن اور ساہیوال سانحہ ہیں-
پولیس سے ہمارا تعارف تب ہوا جس زمانہ میں ہم ملتان میں طالب علم تھے- اس وقت شہر میں چند ایک پولیس چوکیاں ہوا کرتی تھیں لیکن وہ چند ایک ہی شہریوں کا ناک میں دم کرنے کو کافی تھیں تو جہاں ہم ٹیوشن پڑھنے جاتے تھے وہاں ایک پولیس چوکی تھی جو ہر آتے کا جیب کا وزن ہلکا کرنے میں انتہائی مستعدی کا مظاہرہ کرتی تھیں- کچھ عرصے بعد وہاں کسی ذاتی دشمنی کے نتیجے میں فائرنگ کرکے کسی نے چند پولیس اہلکاروں کو ہلاک (شہید؟؟) کر دیا تو اہل علاقہ نے زیر لب شکر ادا کیا کہ چلو اسی بہانے جان چھٹی اللہ ان کی مغفرت فرمائے- چونکہ سوشل میڈیا کا زمانہ نہ تھا اس لیے لوگ ایسی باتیں زیر لب ہی کہا کرتے تھے-
بھائیو،خلاصہ یہ ہے کہ یہ پاکستان ہے، یہ صرف امیروں کا ملک ہے، وڈیروں کا ملک ہے، سیاستدانوں کا ملک ہے۔ عام آدمی کو یہاں جینے کا کوئی حق نہیں – آج وہ لوگ مر گئے کل ہماری باری ہے جیسے آج عمران کل شریفوں کی باری ہے – فرق یہ کہ ہماری خواری اور انکی عیاشی کی باریاں ہیں-
لیکن ان سب لوگوں سے بڑھ کر، پنجاب پولیس سے بڑھ کر ہم خود گناہ گار ہیں کہ جب ایف ایس ایف بندے مار رہی تھی تو جیالے انکا دفاع کر رہے تھے، نواز و شہباز دور میں پولیس کلنگ کو نون کے ووٹران حضرات نےجائز قرار دیا اور اس کے فوائد بھی گنوائے، اب جب ساہیوال سانحہ ہوا ہے تو عمران مخالفین کو سخت آگ لگی ہے اور عمران کے حامی حضرات اس آگ پر پانی ڈال رہے ہیں اور اگر انصافی اسکو غلط کہہ بھی رہا ہے تو تو حکومت کو اس میں سے بالکل الگ گردان رہا ہے۔
لہذا ایسے واقعات پر غصہ کرنے سے پہلے دانشور لوگ اس سے ملتے جلتے حادثے پر جو انکی پسند کی حکومت کے دور میں ہوا تھا اپنا ردعمل دیکھ لیں اور پھر مناسب سمجھیں تو احتجاج بھی کریں اور نوحہ خوانی بھی-
ہمارے نزدیک تو پولیس کاتو کسی پر ہاتھ اٹھانا بھی جرم ہے خواہ وہ کوئی بھی ہو اور خواہ کسی کے بھی کہنے پر ہو- ہمارے نزدیک تو سابقہ و موجودہ سارے حکمران ایک ہی صف میں کھڑے ہیں اور سب عوام کے دینے دار ہیں-
بہرحال ابھی کے لیے ایک پرانا اقتباس پڑھیں اور پنجاب پولیس کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دی گئی ایک تجویز پر غم غلط کریں-عرض کیا تھا
" دہشت گردی پر قابو پانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پولیس چوکیوں میں اضافہ کر دیا جائے۔ آپ سوچیں گے یہ کونسی ایسی نرالی تجویز ہے تو جناب عرض یہ ہے کہ کبھی کسی پولیس والے کو آپ نے کسی دہشت گرد کو پکڑتے دیکھا ہے؟ دہشت گرد چھوڑیں اب تو ان سے چور ، اچکے نہیں پکڑے جاتے۔ تو مقصد یہ ہے کہ ہر گلی ہر محلے میں پولیس کا ناکا ہو۔ جب دہشت گرد دہشت گردی کرنے نکلیں گے تو ہر ناکے پر ان کو گزرنے کو پیسے دینے پڑیں گے اور جب تک وہ منزل پر پہنچیں گے ان کی جیبیں خالی ہو چکی ہوں گی اور ابھی مزید ناکے باقی ہوں گے لہذا وہ تنگ آ کر عام آدمی کی طرح کہیں گے دفع کرو اس زندگی کو کہ جگہ جگہ بےعزتی کرانے سے موت ہی اچھی اور اپنی ہی جان لے لیں گے۔
ایسا ہی ایک فارمولا لاہور میں بھی لگایا گیا کہ جو لوگ لاہور کے باہر سے لاہور اپنی گاڑی پر آتے ہیں وہ ٹھوکر نیاز بیگ پر بنا ہدیہ دیے نہیں آ جا سکتے۔ اس طرح لوگ انتہائی ضروری کام سے ہی جاتے ہیں اور لاہور کی ٹریفک میں اضافے کا باعث نہیں بنتے دوسرا لاہور کا بڑے شہر اور دارالحکومت کا رعب بھی بنا رہتا ہے۔ اس تجربے کے بعد حکومت اس پولیسی چوکی سسٹم کو گلی محلے کی سطح پر نافذ کر سکتی ہے کہ لوگ گھر میں ہی بیٹھے رہیں گے اور دہشت گردی کرنے نکلے بھی سہی تو جتنے پیسوں کی بم بندوقیں لیں گے اس سے زیادہ ڈھول سپائی اس نے مروڑ لیں گے۔ یوں دہشت گردوں کو بھی مہنگائی کا احساس ہوگا بلکہ وہ ممالک اور ادارے جو دہشت گردوں کی مالی مدد کرتے ہیں پاکستان پر دباؤ ڈالیں گے کہ مہنگائی کا خاتمہ کیا جائے یوں کسی بہانے عوام کا بھی بھلا ہو جائے گا۔"