September 18, 2019

اگر تبریز نہ باشد - 2



اگلے روز اٹھے ، وقت دیکھا تو ناشتہ کھایا جا چکا تھا – تیار ہوا اور لیکچر دینے کانفرنس ہال میں پہنچ گیا جو اسی ہوٹل کی نچلی منزل پر تھا۔ جب وہاں پہنچا تو میری مترجم صاحبہ غائب تھیں میں نے شکر ادا کیا کہ اس معاملے میں مدعی ہی چست رہا ہے۔ مترجم صاحبہ کو یاد کرنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ میں لیکچر دینے کو بے قرار ہوا تھا بلکہ میرا لیپ ٹاپ ان کے پاس تھا اور مجھے اسکی فکر کھائے جارہی تھی- ان فروعی مسائل سے نکل کر پروگرام شروع ہوا- اب چونکہ میرا پہلا لیکچر تھا تو اس سے پہلے تلاوت، قومی ترانہ، تعارف وغیرہ ہوئے اور پھر مائیک میرے حوالے کر دیا گیا- میں نے شروع کیا کہ "سب سے پہلے تو آپ لوگوں کا شکریہ کہ آپ نے دعوت دی، خرچ اٹھایا اور سننے کو چلے (خرچ والی بات ظاہر ہے دل میں کہی)، دوسرے نمبر پر پیارے بچو اگر تو آپکو لگا اچھا اور آگئی سمجھ تو میری علمیت کی داد دیجیے گا اگر سمجھ نہ آئی تو پھر مترجم بی بی کو مورد الزام ٹھرائیے گا کہ اب آپ تک بات ہی صیح نہیں پہنچی تو میرا کیا قصور؟" 



اس کے بعد تین گھنٹے سے زائد بچوں کو سپورٹ برانڈنگ Sport branding پر لیکچر دیا انکے سوالات کے جوابات دیے اور جب مقررہ وقت سے بھی ایک گھنٹہ زیادہ گزر گیا اور ظہرانہ کا وقت آن پہنچا تو منتظمین نے اعلان کیا کہ اب کھانے کا وقت ہو چلا ہے لہذا پہلا سیشن اختتام پذیر ہوا-  بعد کی تالیوں کی گونج اور سلفیوں selfies کی فرمائش سے احساس ہوا کہ لیکچر اتنا برا نہیں رہا- 


سمر اسکول
کچھ سمر سکول کی یادیں




ظہرانہ ہوا اور ڈٹ کر ہوا- اسکے بعد میرے ہم کمرہ ڈاکٹر مجاہد کی باری تھی- انہوں نے لیکچر دیا جو میں نے اونگتے، نیم سوتے سنا کہ پچھلے دن کی تھکاوٹ، لیکچر کی مشقت اور شکم کی سیری کے بعد اپنا وہی حال تھا کہ "ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے"۔ ڈاکٹر مجاہد کا لیکچر ختم ہوا جو اسپورٹ والینٹئیر Sport Volunteer یعنی کھیلوں کے رضاکاروں پر تھا – اسکے بعد چا/کافی کا وقفہ ہوا اس میں کچھ کیک، پیسٹریاں، چا، کافیاں اندر انڈیلیں تو کچھ آنکھ کھلی۔ 

اب جب میں تعلیمی کانفرنسوں میں شرکت کیا کرتا تھا تو وہاں جو دن مقررہ ہوتا تھا ہم اپنا مقالہ پڑھتے تھے اور باقی کے دو دن شہر کی سیر کیا کرتے تھے (عام طور پر تعلیمی کانفرنس سہ روزہ ہوا کرتی ہے) تاقتیکہ کوئی دوست ہو جس نے مقالہ پڑھنا ہو تو اس کو سننے پہنچ جاتے تھے-اب اپنا لیکچر دے کر وہی پرانی کھسکنے والی فیلنگ کی آمد آمد ہونے لگی لیکن میں نے دل پر قابو رکھا کہ "بھائی بس اب بڑے ہو جاؤ"۔ 

 لیکن کیا بڑے لوگوں کے سینوں میں دل نہیں دھڑکتا؟ کیا ان کی دل نہیں کرتا کہ وہ قہقہے لگائیں، گلیوں میں گھومیں، بے فکر عمر بتائیں، نتائج سے عاری زندگی جیئیں-ریڑھیوں سے گول گپے کھائیں، الٹی پلٹی سلفیاں اتاریں- بالکل کرتا ہے لیکن ان کا بڑا پن آڑے آ جاتا ہے اور وہ اسی بڑے پن کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹنا شروع کر دیتے ہیں- لیکن ہمارا ایسا کوئی موڈ نہیں تھا کہ ہم تو ہمرائیوں کے ڈر سے چپ تھے کہ اگر ہمیں 'معتبر' قرار پانے کا اتنا ہی شوق ہوتا تو آج ہم بھی یورپ کی کسی یونیورسٹی میں پروفیسری کرتے فیس بک پر علمیت جھاڑ رہے ہوتے – لیکن شکر یہ رہا کہ ہمارے دوست بھی ہم جیسے ہی نکلے اور کافی کے دوران انہوں نے سرگوشی کی کہ اب ہم زرا شہر نوردی کو نکلیں گے- 

یہاں پر ڈاکٹر مجاہد کے ایک اور مجاہد حامد اپنے بیگم کے ہمراہ آئے ہوئے تھے۔ بیگم صاحبہ نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور انکی معیت میں ہم تبریز نوردی کو نکل پڑے- تبریز ایک پہاڑی شہر ہے جہاں موسم نسبتاً ٹھنڈا یا معتدل رہتا ہے- میرے آنے سے ایک ہفتہ قبل تک یہاں درجہ حرارت بیس سینٹی گریڈ تھا لیکن ہمارے ساتھ کسی طرح ملتان کی گرمی بھی ساتھ آ گئی تھی اور بتدریج موسم گرم ہونا شروع ہو گیا تھا- حالانکہ میرا بستہ کسٹم والوں نے 'میرے ناپسندیدہ ترین ہوائی اڈے' لاہور پر دو تین بار تلاشا تھا اور بیچ میں کچھ ایسا ویسا نہ پایا تھا - 

ہماری پہلی منزل امام زادہ سید حمزہ بن موسی کاظم کا مزار و مسجد تھی- یہ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے امام موسی کاظم کے بیٹے تھے- مسجد خوبصورت تھی اور مرقد کی آرائش ایک بھڑکیلی تھی کہ آنکھیں چندھیائی جاتی تھیں۔ اب ویسے تو میں اپنا کیمرہ ساتھ لے گیا تھا لیکن اس روز تکلفاً اس کو ساتھ نہیں لے گیا کہ خدا معلوم کیسا ماحول ہے ایران کا- لیکن آہستہ آہستہ اجنبیت دور ہوتی چلی گئی اور اس روز موبائیل سے تصاویر لیں اور اگلے روز سے جہاں بھی گیا کیمرہ ساتھ رہا- 

حمزہ بن موسی کاظم کا مزار







دراصل ایران آمد سے قبل گمان تھا کہ وہاں بھوک ہو گی،ننگ ہو گی، تعصب ہوگا،تنگ نظری ہوگی، گھٹن ہو گی،  کیمرہ والے کو پکڑ کر عوام کٹاس لگاتی ہوگی، کسی لڑکی کے ساتھ بات کر نے پر بھی سر قلم کردیتے ہوں گے وغیرہ وغیرہ- لیکن آنکھوں نے اس کے برعکس نظارہ دیکھا کہ ایران کی شکل صورت بالکل کسی یورپی ملک سی ہے-تہران و تبریز مجھے وارسا کی یاد دلاتے رہے- معاشرہ کھلے بانہوں نئی چیزوں کو قبول کرتا ہے، خواتین کو بہت حد تک خود مختاری ہے، قانون کا بول بالا ہے الغرض عرب ممالک کے برعکس جہاں معاشرہ مصنوعی لگتا ہے ایران ترکی کی طرح ایک مثبت تصویر پیش کرتا ہے شاید یہی وجہ رہی ہو کہ اقبال (شاید) نے فرمایا تھا کہ 
 ؎ تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا 
 شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے 
اب نجانے انہوں نے جنیوا سے ہی کیوں تشبیہ دی شاید معاشرتی تصویر کی بنا پر یا مسلم امہ میں مرکز میں واقع ہونے کی بنا پر لیکن تہران علاقائی سیاست کا مرکز بننے کی بجائے عالم مشرق کا پانامہ ضرور بن گیا- ویسے یہ بھی ہوسکتا ہے کسی نے اس شعر کو زیادہ سیریسلی لیا ہو اور انہوں نے کہا ہو اب ہم بن کر دکھائیں گے چاہے جیسے ہو، چاہے کوئی اور مانے نہ مانے اور نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ اکثر اپنے زعم میں بڑے بننے والے بونے ہی رہ جاتے ہیں- 

 مزار پر حاضری بھر کر ہم پہنچے خانہ امیر نظام یعنی امیر نظام صاحب کے گھر۔ اب امیر نظام سے ہماری کوئی واقفیت نہ تھی بلکہ یہ ایک تاریخی مقام تھا جہاں قاجری خاندان کے بادشاہ جنہوں نے ایران پر 1789 تا 1925 حکومت کی تھی کی رہائش گاہ رہی ہے- یہاں اب ایک عجائب گھر بنا ہوا ہے- عجائب گھر تو بند تھا ہم نے باہر سے ہی خوبصورت عمارت و فواروں کی تصاویر لیں اور آگے چل پڑے- 

خانہ امیر نظام- شاہ قاجری دور







اب ہم پہنچے مقبرۃ الشعراء – یہ مقبرہ ہر زندہ و مردہ تبریزی کا پسندیدہ مقام ہے کہ یہاں پر تبریز کے مشہور شاعر سید محمد حسین بھجت تبریزی جو کہ شھریار کے تخلص سے جانے جاتے ہیں مدفون ہیں- شھریار تبریز میں ہر خاص و عام کے پسندیدہ شاعر ہیں انکی شاعری آزری زبان میں تھی جو کہ ترک بھی سمجھ سکتے ہیں اور فارسی بھی- انکی مشہور زمانہ نظم ہر ملنے والے نوجوان نے آہیں بھر کر سنائی کہ
"ع آمدی جانم به قربانت ولی حالا چرا"-
 جس کا آسان ترجمہ ہمارے مجاز صاحب نے 'اب تم آئی ہو تو کیا آئی ہو' میں کیا ہے- انکی وفات کے بعد ان کے شاعری کے مقام کے پیش نظر ہر شاعر کی یہی خواہش رہی کہ جیتے جی شھریار سی شہرت پا لے اور مر جائے تو شھریار کے مقبرے میں دفن ہو- اس لیے اس کو مقبرہ شعرا یا مزار شاعران کہا جاتا ہے جہاں شھریار صاحب کے علاوہ کئی دیگر مشہور و گمنام شاعر دفن ہیں جن کی مقامی روایات کے مطابق تعداد سو سے زائد ہے-ہمیں اپنے شھریار یاد آئے جن سے زیادہ تو ریکھا صاحبہ مشہور ہو گئی (ہندی شہریار صاحب نے امراؤ جان ادا کے گیت لکھے تھے)- یہاں شھریار صاحب کے دربار پر فاتحہ خوانی پڑھی کہ علم و ادب کے ناطے ہم بھی انکے تعلق دار ہوئے (چاہے وہ مانیں نہ مانیں) اور چلے اپنی راہ کو- 

مقبرہ الشعرا



مقبرہ الشعرا- ہمراہ مجسمہ شھریار صاحب


چند تبریز سے تعلق رکھنے افراد- جن میں سے ایک کو تو ہر ایک بعض افراد دو سے بھی واقف ہوں


اب ہمارے میزبان حامد اور انکی بیگم صاحبہ انزلہ نے ہمیں واپس ہوٹل اتارا جہاں سے ہمیں ایک شادی میں شرکت کرنا تھی- ہماری اگلی منزل ہمارے میزبان ایرج جو تہران ہمیں لینے آئے تھے اور تبریز واپس ساتھ آئے تھے کی شادی تھی- (جی ہاں وہ شادی سے ایک روز قبل ہمیں وصول کرنے تہران آئے تھے اور سارا دن ہمارے ساتھ گزار کر واپس ہمارے ساتھ ہی تبریز آئے تھے)۔اور سب حیران تھے کہ یہ کیسا دولہا ہے جبکہ یہ حالات تو شادی کے بعد ہوتے ہیں- 

 'پہلے آپ'، 'پہلے آپ' اور تکلفات و ظاہرداری ایرانیوں پر ختم ہیں- ایسے ہی سر راہے ایک صاحب سے ملاقات ہو گئی فرمانے لگے چائے پی کر جائیے گا- جب انکار کیا تو اصرار فرمانے لگے اور یہاں تک کہہ بیٹھے کہ بخدا میں مر جاؤں گا اگر آپ نے چا نہ پی تو – ایسے ہی ٹیکسی والےکرایہ لیتے وقت اصرار کرتے ہیں کہ "نہیں، اجی بس رہنے دیجیے، چھوڑیے حضور، آپ تو مہمان ہیں، نہیں ناں، میری طبعیت پر بار گراں گزرے گا"- بس کسی دن کوئی نیا بندہ مل گیا ناں اس نے ایرانیوں کے اخلاق کے قلابے ملاتے ہوئے اپنی راہ لینی ہے اور ٹیکسی والا کہتا پھر رہا ہوگا کہ او بھائی یہ تو تعارف تھا۔ ایرانی آداب تکلف کو تعارف کہتے ہیں- اور اس تعارف میں نے ہمیں بڑا خوار کرایا کہ دروازہ پار کرنا ہے اور دس کے دس بندے نہیں پہلے آپ نہیں پہلے آپ کی گردان ورد کر رہے ہیں- آخر میں ہم صاف کہہ دیا کرتے کہ بھائی بات یوں ہے اور یہ تعارف نہیں- فراز صاحب شاید اسی تکلف کو اخلاص سمجھتے رہے ہوں کہ ہمارے ہاں کا تکلف تو اس کے سامنے پانی بھرتا نظر آئے- 

شادی پر پہنچے تو پہنچتے ساتھ ہمیں کھانے کے سامنے بٹھا دیا گیا- ہم نے کہا واہ جی یہ تو زبردست ہو گیا کہ کھانا کھاؤ اور اپنی راہ لو- لیکن یہ تو آغاز محبت تھا- کھانا کھا کر ہمیں ایک ہال میں پہنچا دیا گیا- اور جوں جوں مہمان آتے گئے ان کو کھانا کھلا کر ادھر درآمد کیا جاتا رہا- جب ہال بھر گیا تو ایک گلوکار تشریف لائے تو بتایا گیا کہ یہ عسکر تتلیسز Asker Tatlises ہیں جو کہ آج کل کے مشہور ترین گلوکاروں میں سے ایک ہیں- انہوں نے گانا شروع کیا اور ہمیں عطااللہ کی یاد ستانے لگی- بس یوں سمجھیں کہ وہ ترک زبان میں 'کنڈیاں تے ٹر کے آئے' گا رہے تھے۔ اب شادی کا موقع ہو اور اور درد بھرے لمحات ہوں تو کچھ جچتا نہیں کہ یہ تو شادی کے بعد کی کہانی ہےاور تمام دنیا کی کہانی ہے لہذا ساتھ میں ایک اور گلوکار بھی جو فاسٹ گانوں میں مہارت رکھتے تھے اور اپنے احمد بٹ کی مشابہت رکھتے تھے کا کام یہ تھا کہ جب ماحول درد سے بھر جاتا تو اسٹیج وہ سنبھالتے اور انکے ساتھ ہی لڑکے بالے اپنا علاقائی (آزری) رقص جس کو اس یوٹیوب کے لنک سے دیکھا جا سکتا ہے پیش کرنے کو آجاتے- اسی دوران ایک بچوں پر مشتمل پروفیشنل گروپ بھی ثقافتی ڈانس پیش کرنے آیا، کچھ نوجوانوں نے گروپ بندی کر کے ڈانس پیش کیا، کچھ نوجوانوں نے چھوٹے چھوٹے گروہ بنا کر رقص پیش کیا اور کچھ بڑے تنہا تنہا فرمائشی ناچ پیش کرنے آئے اور آخری مرحلے میں دلہا صاحب نے رقص پیش کیا- دوران رقص دلہا صاحب پر پیسے بھی وارے گئے جس کو ہم سرائیکی میں ویل کہتے ہیں تاہم یہاں فرق یہ تھا کہ وارے جانے والے پیسے دلہا کے گھر والے ہی جمع کررہے تھے ناکہ آس پاس والے جیسے ہمارے علاقوں میں ہوتا ہے- دلہا کے چھوٹے بھائی پیسے جمع کر کر کے دلہا کے والد صاحب اور چچا کو پکڑاتے آرہے تھے اور سازندوں و گلوکاروں کو کسی نے کچھ دینا ہوتا تو خود ان کو دے دیتا ہمارے والا رواج نہ تھا کہ سارا خندق والا مال سپاہی کا- 

ثقافتی پروگرام یا ناچ گانا کے بعد اسٹیج خالی ہو گیا اور دلہا صاحب اور احمد بٹ نما گلوکار صاحب نے مائیک سنبھالا- سب سے پہلے اعلان ہوا کہ آج شادی میں دو غیر ملکی آئے ہیں ہم انکا شکریہ ادا کرتے ہیں اور انکو اسٹیج پر بلاتے ہیں میں اور ڈاکٹر مجاہد اسٹیج پر پہنچ گئے- وہاں ہم نے انکو مبارک باد دی اور ایک تحفہ پیش کیا- تحفہ ڈاکٹر مجاہد کا تھا اور ہمارا بس نام تھا- (یہ بعد میں احساس ہوا کہ تحفہ کتنا ضروری تھا کہ کچھ لوگ جو پیچھے بیٹھے تھے انہوں نے کہا تف ہے کہ اتنی دور سے آئے اور کچھ نچھاور نہ کیا جس پر انکو بتایا گیا کہ فلاں تحفہ لے کر آئے ہیں مہمان تو انکی تسلی ہوئی)۔ ہم واپس آکربیٹھ گئے تو ادھر ہی اسٹیج پر ایک کرسی لگا کر دلہا صاحب کو بھی بٹھا دیاگیا اور اب لوگ قطار بنا کر آئے اور ان پر پیسے نچھاور کرنے لگے- لوگ آتے پہلا نوٹ نکالتے اور اس سے ان کا ماتھا صاف کرتے، پھر ایک ایک کرکے نوٹ نچھاور کرتے یا ان کے سر و کندھوں پر رکھتے جاتے اور ادھر دلہا صاحب تعارف جھاڑتے رہتے کہ انکل رہنے دیجیے، چچا جان آپ کو کیا ضرورت ہے، بھائی بس کر، تو تو یار نہیں رہنے دے لیکن وہاں فراز صاحب تھوڑی ناں تھے کہ تکلف کو اخلاص سمجھتے- شرکا سمجھتے تھے کہ کل کلاں انکی، انکے بچوں کی شادیاں بھی ہونی تھیں- ادھر پیسوں کی فروانی دیکھ دیکھ میرے سے رہا نہ گیا اور میں ڈاکٹر مجاہد سے کہہ اٹھا کہ 'چھوڑ ڈاکٹر ہم بھی یہاں ایک ایک شادی کرتے ہیں'- شادی کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ شادی کی جائے--- 

دلہا صاحب ٹو پیس میں 

روائیتی ڈانس



پیسہ لٹانے کامرحلہ




اگلے روز حسب معمول ناشتہ گزار کر اٹھے- لیکن آج ناشتہ گزارنے کا مقصد ایک جگہ باہر ناشتہ کرنا تھا- آج انزلہ بی بی نہ آئی تھیں اور حامد صاحب اکیلے ہی ہمیں موصول کرنے ہوٹل کی لابی میں موجود تھے- ہم نے کانفرنس میں اپنی شکل دکھائی اور حامد صاحب کی معیت میں چل پڑے- پہلے ٹیکسی بلائی گئی جس نے ہمیں بمقام ناشتہ پہنچایا- یہ مقام تھا صبحانہ سرائے حسن دائی یعنی حسن دائی کا ناشتہ خانہ- اگر کسی سے تبریز میں سب سے لذیذ ناشتہ کا پوچھیں گے تو جواب ایک ہی ملے گا 'حسن دائی'۔ اب ہم بھی وہاں پہنچ گئے۔ سب سے پہلے قائمک اور شہد آیا، پھر کجھوروں والا آملیٹ آیا پھر ٹماٹر والا آملیٹ آیا جبکہ اسی دوران چائے کے جام چلتے رہے- جب باہر نکلے تو مجھ سے پوچھا گیا کیسا رہا تجربہ تو میں نے کہا "ایران شیراز ہے اور شیراز حسن دائی ہے"- بلا شبہ وہ میرے زندگی کا لذیذ ترین کھانا تھا بس یوں سمجھیں کہ ایک بار دیکھا ہے بار بار کھانے کی خواہش ہے-اگر آپ میرے زندگی کے بہترین تجربات پوچھیں گے تو اس میں حسن دائی کا ناشتہ بھی شامل ہوگا- 

ایران تبریز ہے اور تبریز حسن دائی ہے





حسن دائی سے نکلے تو تبریز میٹرو کی بھی سیر کی اور وہاں رش نہ دکھ کر حیرانی ہوئی- لیکن وجہ یہ بتائی گئی کہ ایک تو میٹرو ابھی نئی بنی ہے اور دوسرا یہاں پبلک ٹرانسپورٹ پر سواری کا رواج نہیں ہے- میں نے سوچا یہ ایک اور ملتان ہے لیکن ملتان میں چلو موٹرا سائیکلیں تو عام ہیں (بلکہ اتنے تو لوگ نہیں ہوں گے جتنی ملتان میں موٹر سائکلیں ہیں) جبکہ ایران میں موٹر سائیکلیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور کاریں بے انتہا مہنگی ہیں- 

 اب کے ہماری منزل مسجد کبود جس کو نیلی مسجد یا بلیو موسک Blue Mosque بھی کہتے ہیں تھی - یہ مسجد 1465 میں تعمیر کی گئی تھی تاہم 1780 کے زلزلے میں یہ بالکل منہدم ہوگئی تھی جس کو 1973 میں دوبارہ تعمیر کیا گیا اور یہ مرمتی کام ابھی بھی جاری ہے تاہم یہ ابھی بھی اپنی اصل حالت میں واپس آنے سے سالوں دور ہے- 
نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا پُل بنا، چاہ بنا ۔۔۔ مسجد و تالاب بنا

















میں پائمال غمزۂ چشم کبود تھا



مسجد ساتھ والے پارک سے




مسجد کبود سے ہم موزہ آزر بائیجان پہنچ گئے- فارسی میں عجائب گھر کو موزہ کہا جاتا ہے اب اللہ جانے انگریزی میوزیم Museum فارسی موزہ سے نکلا ہے یا فارسی موزہ انگریزی میوزیم سے- آزر بائیجان عجائب گھر ایران اور خاص طور پر تبریز کی تاریخ سمیٹے تھا- تبریز بھی ملتان کی طرح قدیم ترین دستاویزات میں پایا جاتا ہے تاہم ملتان کے برعکس یہاں آثار قدیمہ پر خاصی محنت کی گئی ہے اور صرف اس خوشی پر اکتفا کرنا کہ ملتان وادی سندھ کی تہذیب کے وقت سے موجود تھا جو دنیا کی قدیم ترین انسانی باقیات میں سے ایک ہے کی بجائے وہاں زمین کھود کر اس کے باقاعدہ ثبوت بھی تلاش کیے گئے ہیں اور یہ عجائب گھر اس بات کا گواہ ہے کہ یہاں پتھروں کے زمانہ سے انسان بستے چلے آ رہے ہیں- 

جام جم جام سفال سے اچھا رہا کہ انکی محفل میں تھا

موزہ آزر بائیجان کے باہر لاکھوں سال پرانی پتھرکی بھیڑ




فیس بک پر آپ بھی یہ دیکھ چکے ہوں گے کہ دو محوبت کرنے والوں کی قبر- ایسا کچھ ادھر تبریز میں بھی ملا ہے

سنگ بسم اللہ- 


یہاں سے واپس ہوٹل گئے جہاں پر ظہرانہ تناول کیا اور ایک بار پھر تبریز گردی کو نکل کھڑے ہوئے- اب کہ ہماری منزل کاخ شھر داری تبریز یعنی محل بلدیہ تبریز تھا- یہاں ایک موزہ یا عجائب گھر بھی ہے اور سب سے بڑھ کر ساعت ٹاور جس کو ہم پیار سے گھنٹہ گھر کہتے ہیں جو کہ تبریز کی پہچان ہے-پہلی نظر میں تو دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ کوئی باقاعدہ زاویہ ہی نہیں بن رہا تھا لیکن اندر جا کر خاصی تشفی ہوئی کہ وہاں ایک پارک بھی بنا ہوا تھا جس میں فوارہ بھی لگا تھا جہاں اس کے ساتھ ٹھہر کر تصویر بنوانا ایک لازم امر تھا- ادھر حاضری لگوا کر اندر موزہ میں گئے جہاں قالینوں کے نمونے نمائش میں لگے تھے- تبریز اپنے قالینوں کی پیداوار کے حساب سے تمام ایران میں پہچانا جاتا ہے- 

تبرکزگھنٹہ گھر 







قالین

مزید قالین


اگلی منزل خیابان تربیت تھی یعنی تربیت سٹریٹ Tarbiat street تھی- یہاں سے درب نوبر سے داخل ہوئے جو قدیم تبریز شہر کا ایک دروازہ ہے- گلی ایسے تھی جیسے یورپ میں کوئی اندرون شہر۔ وہی ماحول، وہی حالات، وہی گہماگہمی- 
درب نوبر

خیابان تربیت









یہاں سے پیدل گھومتے گھومتے قدیم بازار میں پہنچے- تبریز بازار جس کو بازار تبریز کہتے ہیں دنیا کا سب سے بڑا چھتا ہوا بازار ہے اور مشرق وسطی میں قدیم ترین بازاروں میں سے ایک ہے کہ تبریز شاہرائے ریشم کے اہم ترین مقامات میں سے ایک تھا- بازار ایسا نہ چھتا ہوا تھا جیسے ہمارے ہاں پرانی چادرون، صفوں، مصلوں سے رسیوں سے چھت کا کام چلایا جاتا ہے بلکہ ایرانی و اسلامی طرز تعمیر کا شہکار نمونہ تھا- بازار میں گھنٹہ ایک گھومے اور شاید قرابت کی تعلی سے کام لیتے ہوئے یا شاید حقیقی طور پر یہ بتایا گیا کہ یہ بازار گھومنے کو ایک ہفتہ بھی ناکافی ہے اور اکثر تبریز کے باسی بھی آج تک اس شہر کو مکمل نہیں دیکھ پائے- 
گرینڈ بازار سے زرا باہر

بازار سے پہلے مسجد

بازار اور بازار کی چھت












بازار سے گھوم گھام کر ہم مرکزی جامع مسجد تبریز پہنچے جہاں ساتھ ہی ارگ تبریز تھا- ارگ تبریز کو محراب تبریز Arch of Tabriz یا ارگ علی شاہ یا مسجد علی شاہ بھی پکارا جاتا ہے- یہ دراصل ایک فصیل نما بلند بالا ایک عمارت کی باقیات ہیں- کچھ کے مطابق یہ بنا ہی اتنا تھا کہ بادشاہی جاتی رہی یا زلزلے کے باعث باقی عمارت تباہ ہوگئی لیکن عمارت کا اگلا حصہ بچا رہا- اس پر بھی شکوک ہیں کہ یہ عمارت تھی کیا تاہم زیادہ تر لوگ نقشے کے باعث مسجد پر متفق ہیں لیکن کچھ کے مطابق یہ محل تھا یا قلعہ تھا- 1318 میں بنائی گئی یہ محراب (بقیہ عمارت کا کوئی پتہ نہیں) بعد والوں کے لیے شاید ڈھانی بھی مشکل رہی ہو یا جہاں ہے جیسے ہے کی بنیاد پر کام چلا کر اس کو یہاں تک لایا گیا۔ اس پر پہلی جنگ عظیم میں روسیوں کے گولہ باری کے ناشانات بھی موجود ہیں جو چند کلو میٹر دور باکو پر قبضہ کے بعد تبریز و دیگر ایرانی آزری علاقہ کو بھی اپنے زیر تسلط لانا چاہتے تھے- پہلوی دور میں یہاں پر پب اور بار تعمیر کیے گئے جن کو ایرانی انقلاب کے بعد مسمار کر دیا گیا اور وہ ایسے کہ ایسے ہی عبرت کدہ بنے موجود ہیں لیکن انسان نے کب عبرت پکڑی ہے کہ جس کو خدا کا خوف نہیں ہے وہ ملا سے کیا ڈرے گا- 
جامع مسجد تبریز





ارگ تبریز اندر سے




ارگ تبریز باہر سے


کھنڈر بتا رہے ہیں کہ،،،، شاہ کے دور کے کلب

ہوٹل واپس آئے اور ابھی دم نہ لینے پائے تھے تبریز یونیورسٹی کی ایک پروفیسر ڈاکٹر فاطمہ ابداوی کے بلاوے پر ایل گلی روانہ ہوگئے- ایل گلی El-Gölü قبل ازیں شاہ گلی تھی جو کہ پہلوی دور میں شاہوں کی سیر گاہ کے طور پر پہاڑوں کے بیچ جھیل بنا کر تعمیر کی گئی تھی- تاہم انقلاب کے اس کو ائل گلی یعنی عوامی جھیل (آزری یا ترک گلو جس کو فارسی میں گلی کہا گیا ہے اردو میں جھیل کو کہا جاتا ہے) میں بدل دیا گیا اور اب یہ تبریز کے باسیوں کی پسندیدہ سیر گاہ ہے- کھانے میں پوچھا گیا کیاکھائیں گے تو شرکا جن میں ڈاکٹر ابداوی ان کے شوہر، انکے ایک پی ایچ ڈی طالب علم (جو پارٹ ٹائم آیا کے فرائض بھی بخوبی سرانجام دیتے تھے)، ڈاکٹر ابداوی کے دو بچے اور دو ہم ڈاکٹران شامل تھے کی اکثریت (ڈاکٹر ابداوی کے شوہر، انکے بچے اور انکا شاگرد) نے فاسٹ فوڈ پر اصرار کیا اور زندگی میں پہلی بار مجھے اپنے والد صاحب سے اتفاق ہوا کہ فاسٹ فوڈ بھی کوئی کھانا ہے- لیکن تکلف میں پڑ کر کھایا شاید پہلی و آخری بار پیزا زرا نہ بھایا کہ دماغ میں ایرانی کھانے کی جدائی کسمسا رہی تھی- کھانا زہر مار کر کے ایل گولی گھومے، تصاویر لیں، پیزا ہضم کیا اور واپسی کا راستہ ناپا-


ایل گلی









Ager Tabriz na bashad 2