March 27, 2020

ترکی: استنبول- انطالیہ- سیواس


استنبول

جب میں استنبول ہوائی اڈے پر پہنچا تو مجھے پتہ چلا کہ میرے میزبان جنہوں نے ایک اور شہر سیواس سے آنا تھا پرواز منسوخی کی بنا پر نہیں پہنچ سکے۔ نہ ہی میرے پاس انٹر نیٹ تھا نا موبائیل رومنگ۔ نیا استنبول ہوائی اڈہ تمام تر خوبصورتی اور کشادگی کے باوجود (مقابلتاً سابقہ استبول ہوائی اڈہ) مفت انٹرنیٹ جیسی بنیادی سہولت سے محروم تھا- (ویسے یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں بہت سے یورپی ہوائی اڈے میرے ہوتے اس سہولت سے محروم ہی تھے)۔ 
اب رابطہ ہو تو کیسے اور جائیں تو جائیں کہاں کہ انطالیہ جو اصل منزل تھی وہاں کل جانا تھا اور آج کا دن میزبان کے ساتھ استنبول کی سیر کے لیے مقرر پایا تھا- ہوٹل بکنگ، مقامی ٹرانسپورٹ سب انہوں نے کرنی تھی لہذا ہم منہ اٹھائے بے وقوفوں کی طرح سوچ رہے تھے کہ جائیں تو جائیں کہاں۔ ایک بھولا بھٹکا مصرعہ یاد آیا کہ 
 ؎ محبت کی سزا ترک محبت 
یہاں ترک سے مراد ہم نے ترکی کا رہائشی لیا اور دل کا غبار نکال لیا کہ استنبول جانا اور سب کچھ خیر خیریت سے ہونا کیسے ممکن تھا کہ اس سے قبل میں استنبول ہوائی اڈے پر دہشت گردی، پرواز رہ جانا، واپسی کی ٹکٹ ریکارڈ سے اڑا دیا جانا جیسے واقعات دیکھ چکا تھا۔
تاکا جھانکی

نیا استنبول کا ہوائی اڈا





ہوائی اڈے کے بیرونی لاؤنج میں گھوم کر حالات کا جائزہ لیا تو یہ واضح ہوا کہ انٹر نیٹ خریدنا پڑے گا- ایک دوکان دار صاحب نے پچاس لیرا کے عوض چار گھنٹے کا نیٹ عنایت کر دیا- دنیا سے رابطہ بحال ہوا تو پتہ چلا کہ ہمارے میزبان ہمیں فیس بک، وٹس ایپ،ہاٹ میل، جی میل، انسٹا الغرض ہر ایک جگہ پیغام بھیج چکےتھے کہ سیواس سے موسم کی وجہ سے فلائیٹ منسوخ ہو چکی ہے اور وہ اب ایک نزدیکی شہر کیسری سے پرواز پکڑ کر دو گھنٹے بعد پہنچیں گے- ان کو واپسی پیغام بھیجا کہ کوئی مسئلہ نہیں آپ آرام سے آئیں-

ان دو گھنٹے میں ہم نے نیٹ کھنگالا کہ پچھلے آٹھ دس گھنٹے سے دنیا سے کٹے تھے۔ کرونا کے بادل گہرے ہوتے جارہے تھے۔ پاکستان میں تو اب تک میم بھی شدت سے شروع نہ ہوئے تھے جبکہ ترکی کے ہمسائے ایران میں کرونا پھیل رہا تھا- ہم مشکوک نظروں سے ہر چینی کو دیکھنے لگے جبکہ اپنے ہلکے نزلے کو ہم رتجگے کے اثرات کہہ کر دل بہلاتے رہے-ان دو گھنٹوں میں پرانے دن یاد کرنے لگے کہ یورپ کی پہلی پرواز ہم نے استنبول سے ہی لی تھی – ان دنوں پرانا ہوائی اڈہ تھا اور پرانے ہم تھے- نجانے کیا بات ہے گزرا زمانہ خواہ کتنی خواری سے گزرا ہو ہمیں اچھا لگتا ہے (یہاں ہمیں سے مراد میں ہوں – وہی پرانی خود کو عزت دینے والی عادت)۔ 

سفر کا اصل مقصد انطالیہ میں ایک کانفرنس میں شرکت تھا- روائیتی کھیلوں کے فروغ کے لیے ایتھنو سپورٹس آرگنائزیشن Ethnosports organization نے دنیا کے باون ممالک سے روائیتی کھیلوں کے کھلاڑی، روائیتی کھیلوں کی تنظیموں کے سربراہ، صحافی، کھیلوں کے وزرا اور کھیلوں بارے پروفیسر و ریسرچر کو مدعو کیا گیا تھا- اب کھیلوں اور کھلاڑیوں سے تعلق رکھنے والی علمی دنیا میں ہمارا تھوڑا بہت نام ہے اور کچھ لوگ کسی غلط فہمی کی بنا پر متاثر ہیں تو اسی سلسلے میں ہمیں ترکی کی وازرت کھیل نے دعوت نامہ بھیجا  جس میں تھا کہ اگر آپ آنا چاہتے ہیں تو بتا دیں تاکہ آپ کو ٹکٹ بھیجی جا سکے اور ہوٹل بکنگ کرائی جا سکے- ہم تو ٹکٹ پر بھی راضی ہوجاتے لیکن نوازشات کی یہ فہرست طویل تر تھی اور ہم نے ای میل میں لکھ بھیجا کہ نہیں آکھاں تاں کافر آکھیں۔ 

ہمارے میزبان ڈاکٹر مجاہد فشنے (جن کے بارے آپ ایران یاترا میں پڑھ چکے ہیں) نے کانفرنس منتظمین سے ساز باز کر کے ہمارا پروگرام ایسا رکھوا دیا تھا کہ ایک رات استنبول گزار کر اگلی رات انطالیہ پہنچنا تھا- یہ اس لیے بھی ممکن ہوا کہ ترکی میں بین الملکی پروازیں سب براستہ استنبول چلتی ہیں- یعنی اگر آپ نے انطالیہ سے انقرہ جانا ہے تو پہلے آپ استنبول جائیں گے پھر انقرہ- آٹے میں نمک کے برابر پروازیں براہ راست جاتی ہیں – یعنی اگر آپ نے کراچی سے ملتان جانا ہے تو آپ پہلے کراچی سے اسلام آباد جائیں گے پھر اسلام آباد سے واپس ملتان جائیں گے- 

 چار پانچ گھنٹے ہوائی اڈے پر گزارنے کے بعد ڈاکٹر مجاہد پہنچے اور ہم استنبول شہر کی طرف چل پڑے- پرانا ہوائی اڈہ میٹرو کے زریعے سے شہر سے جڑا ہوا تھا –تاہم نیا ہوائی اڈہ شہر سے بہت دور بنا ہے اور پتہ چلا کہ اب شہر تک پہنچنے کے لیے کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے – بس میں بیٹھ کر ڈیڑھ گھنٹہ کچھ باتیں کیں کچھ نیند کے جھولے لیے اور تقسیم اسکوائر جا اترے- آخری بار جب میں تقسیم اسکوائر گیا تھا تب وہاں پر کچھ دن قبل ہی دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا اور تب وہاں سیر میں خوف حاوی رہا تھا لیکن ترکی بھی پاکستان کی طرح دہشت گردی کے چنگل سے بہت حد تک نکل چکا ہے- 

اسنتبول میں شدید بارش تھی – لیکن شوق کا رستہ بھلا کسی شے نے روکا ہے؟ بھیگتے موسم میں خیابان استقلال پر قدم قدم چاہت کا سفر شروع ہوا- ہر مسافر دل کی چاہت ایک انجان نگر کا سفر ہے – نئی جگہیں ، نئے لوگ، نئی خوشبوئیں، نئے علاقے، نئے موسم، نئی زندگی- یہی زندگی ہر ایک مسافر دل کا خواب ہے- استقلال سے چلے تو غلطہ برج تک جا پہنچے۔ غلطہ کو دن میں دیکھا تھا اور اس سے پیار ہو گیا تھا اور اب رات میں دیکھا تو خیال آیا کہ یہ تو ایسا ہی ہے کہ کسی سے بغیر میک اپ دیکھے پسند آ جائے اور میک کے بعد تو پھر نری قیامت۔ 
تقسیم اسکوئر اور جی ہاں میں 

استنبول کے دل میں چرچ


شب گردی تقسیم و استقلال







کھانا شانا

غلطہ پل پر لوگ مچھلیاں پکڑنے میں مصروف تھے- یہاں کنارے پر روٹی میں بھنی ہوئی مچھلی اور ایک ترش سا مشروب بک رہا تھا- مچھلی والے رول میں پیاز ایسے تھے کہ کسی آرائیں کا چار پانچ دن کا کھانا ہوجاتا- جتنا میں پیاز نکال سکتا اتنے تو نکالے لیکن جلد ہی بس ہو گئی- مشروب اتنا کھٹا تھا کہ بچپن میں کھائے گلگلے (کھٹے) یاد آگئے- بارش رکی تو ہم نے بھی واپسی کا قصد کیا تاہم واپسی پر ترک چا پینا نہیں بھولے- ڈاکٹر مجاہد بھی اب جان چکے ہیں کہ قہوہ و چا پر ہم جان چھڑکتے ہیں- 
رات، باسفورس اور غلطہ مینار


غلطہ مینار




غلطہ پر پانی کی سبیل







اچار کا شربت :)





اگلے روز ناشتہ ہوٹل کے پلے سے کھایا اور نکل پڑے استنبول نوردی کو- اس روز جمعہ تھا اور ڈاکٹر مجاہد کے ایک دوست نے ان کو فون کر کے کہا اگر وہ استنبول ہیں تو جمعہ نماز جامع مسجد حمیدیہ میں پڑھیں – یہاں پر اسمبلی کے سپیکر بھی آئیں گے اور وہ کوشش کریں گے کہ ڈاکٹر مجاہد اور ان کے مہمان یعنی میں اسپیکر صاحب کے ساتھ تصویر کھینچوا سکیں- یلدز حمیدیہ مسجد استنبول کے بشکتاش ضلع میں قائم ہے- مسجد پہنچے تو نماز کو دیر تھی- ہم وہاں سے سیر کو نکل کھڑے ہوئے- مسجد کے ساتھ ہی پارک تھا جو ڈھلوان میں بنا تھا- یہاں سے سمندر نظر آتا تھا- مسجد کے ساتھ ہی عثمانی دور کا محل تھا جو اب کسی سرکاری عمارت کے طور پر استعمال ہوتا ہے- یہ مسجد عثمانی خلیفہ عبد الحمید دوئم کے دور میں تعمیر کی گئی تھی اسی نسبت سے یہ حمیدیہ مسجد کہلائی ہے- یہاں سے ہم ٹہلتے ٹہلتے سمندر کی طرف چل دیے- بالکل سیدھا جا کر ڈاکٹر مجاہد نے بتایا کہ اگر میں بھول نہیں رہا تو یہ خیر الدین بابروسہ کا مزار ہے- آپ بھلا جانتے ہیں ان کو؟ میں جانتا ہوں ان کو؟ ۔۔۔۔۔اس بات کا کیا جواب دیتا- بہت کم لوگ ایسے ہیں جن سے میں کبھی متاثر ہوا، ان سے بھی کم ایسے ہیں جن کو میں ہیرو کا درجہ دیتا ہوں اور ان سے بھی کم ایسے ہیں جن سے ملنے یا ان کی قبر پر جانے کا اشتیاق ہے- خیر الدین باربروسہ ان میں سے ہیں – سید احمد شہید کے مزار پر پچھلے سال بالا کوٹ میں فاتحہ پڑھنے کے بعد یہ ایک اور خواہش تھی جو تکمیل پذیر ہوئی- 
مزار خیر الدین باربروسہ




مزار کے باہر توپیں نصب ہیں جبکہ سامنے سمندر ہے








 یہاں سے چلے تو آگے دولما باغچہ محل آ گیا – ترکی زبان میں محل کو سرائے کہتے ہیں جبکہ باغچہ جسکو وہ باغچے کہتے ہیں باغ سے ہی نکلا ہے- یہ سلطان عمبد المجید اول کے دور میں تعمیر ہوا تھا- تاہم ہم نے اند جانے کی بجائے باہر باہر سے تصاویر کھینچیں اور آگے چل پڑے- 

اسی کے سامنے ترکی کے مشہور ترین فٹ بال کلبوں میں سے ایک بشکتاش فٹ بال کلب کا اسٹیڈیم ہے- یہاں مسجد سے جمعہ کی آزان کی آواز آنے لگی تو ہم نے جلدی جلدی اسٹیڈیم کے سامنے تصاویر بنائیں اور واپس چل پڑے- 
دولما محل






وہ مسجد جہاں اردگان صاحب نے جمعہ ادا کیا

دولما محل سے متصل گھنٹہ گھر

مشہور ترک فٹ بال کلب بشکتاش اور اور غیر مشہور بندہ






یہاں پر پولیس والے بڑی تعداد میں تعنیات تھے جو ہر پیدل فرد جس کے پاس بیگ تھا کی تلاشی لے رہے تھے- میں یہ سمجھا کہ شاید اسٹیڈیم کی وجہ سے سیکورٹی الرٹ ہے لیکن جمعہ نماز کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ تلاشی اس لیے سخت تھی کہ اردگان صاحب نے جمعہ یہاں پڑھنا تھا- بعد میں ڈاکٹر مجاہد کہنے لگے اسی جگہ تھے پتہ ہوتا تو نماز وہاں ہی پڑھ لیتے- ادرگان صاحب کے ایک قریبی ڈاکٹر مجاہد کے دوست ہیں تو ان کو توقع تھی شاید اردگان صاحب کے ہمراہ تصویر ہی ہوجاتی- اس سے قبل وہ مجھے پیشکش کر چکے تھے کہ اردگان صاحب کے پاکستان دورے کے دوران اگر میں چاہوں تو وہ میری اردگان صاحب کے ساتھ تصویر کھینچوا سکتے ہیں کہ میں اسلام آباد جا کر ان کے دوست کو مل لوں- میں نے جواب دیا کہ بھائی ایک تو مجھے ایسی کوئی عاجزی نہیں آئی کہ میں بھاگ پڑوں اسلام آباد کہ اردگان صاحب کے ساتھ تصویر کھینچوانی ہے- دوسرا میں کیوں جاؤں وہ آئیں ملتان تو شاید میں راضی بھی ہو جاؤں (دوسری بات البتہ میں نے دل میں کہی تھی)۔ 

 مسجد واپس پہنچے۔ جمعہ ادا کیا۔ مسجد بہت خوبصورت تھی واقعی کسی بادشاہ کے شایان شان تھی- مسجد میں ایسے کھوئے کہ نہ میں نہ ڈاکٹر مجاہد کو تصویر یاد رہی- 
حمیدیہ مسجد اندر و باہر سے













 یہاں سے ہم برج دوشیزہ دیکھنے جا پہنچے جس کی کل رات سے ڈاکٹر مجاہد تعریف کر رہے تھے- برج دوشیزہ جس کو انگریزی میں میڈن ٹاور Maiden's Tower -فارسی میں برج دختر اور ترکی میں کِز کلیسی بازنطینی دور کا ایک مینارِ روشنی نما عمارت ہے جو آبنائے باسفورس میں ایشیا اور یورپ کے درمیان ایک چھوٹے سے جزیرے پر واقع ہے- یہ دوشیزہ ہمیں بہت پسند آئی اور اسی کے بہانے ہم نے اسٹونیا چھوٹنے کے بعد پہلی بار کروز یعنی بحری سفر بھی کر لیا اور استنبول کے ایشیائی حصے کو قدم بوسی کا شرف بھی بخش دیا- 
بوسفورس کی سیر














دوشیزہ مینار











یہ بھی ایک رواج سمجھ لیں کہ کشتی پر سفر کرتے پرندوں کا روٹی ڈالنی ہے - پرندے ساتھ ساتھ سفر کرتے روٹی کیچ کرتے رہتے ہیں

تھوڑا ساتھ ہی سمندر کنارے ایک چھوٹی سی مسجد تھی- یہاں گئے تو پتہ چلا کہ مسجد اولیا چلبی ہے- اولیا چلبی جن کا اصلی نام درویش محمد ظلی تھا ابن بطوطہ کے بعد دوسرے بڑے مسلم سیاح مانے جاتے ہیں- ان کی کتاب سیاحت نامہ عثمانی دور کی دنیا کی بہترین تصویر پیش کرتی ہے- ان کے بارے بیان کیا جاتا ہے کہ ان کو خواب میں حضور ﷺ کی زیارت ہوئی- یہ گبھراہٹ میں شفاعت مانگنے کی بجائے سیاحت مانگ بیٹھے (شفاعت اور سیاحت ملتے جلتے ہیں یعنی تلفظ میں غلطی ہوگئی) اور بدلے میں ان کو اپنے وقت کا بہترین سیاح ہونا قرار پایا-اس سادہ دلی و گھبراہٹ پر ایسا محسوس ہوا کہ اکیلے ہم ہی نہیں ہم جیسے اور بھی ہیں-کچھ معمولی باتیں آپ کو انجان لوگوں کے پاس لے آتی ہیں جیسے یہ واقعہ پڑھ کر ایسا لگا کہ میں تو ان کا پرانا چاہنے والا ہوں- یہ مسجد استنبول میں اسی جگہ تعمیر کی گئی ہے جہاں ان کو خواب میں حضور ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی- 
اولیا چلبی کی مسجد میں






 یہاں سے فاتح پہنچے جو مسجد سلطان احمد المعروف نیلی مسجد (Blue mosque) اور آیا صوفیا کے لیے مشہور ہے- یہاں جاتے ہوئے راستے میں ایک قبرستان پڑتا ہے جس میں ڈاکٹر مجاہد یہ کہہ کر لے گئے کہ یہاں قبروں کے کتبے منفرد انداز کے ہیں- کتبے تو ایسے تھے جیسے اسٹونیا میں دیکھے تھے تاہم یہ پتہ چلا کہ یہاں سلطان عبدالحمید ثانی بھی مدفون ہیں- شاہی افراد پر مشتمل قبرستان کا یہ حصہ عام طور پر بند رہتا ہے تاہم اس دن یہ کھلا تھا- ہم اندر گئے فاتحہ پڑھی- شاہی قبروں پر چادر ڈلی تھی اور تعویز پر پگڑیاں یا ترکی ٹوپی رکھی تھی- مرنے والے کو کیا کہ مرنے کے بعد اس کو شاہی قبرستان میں جگہ ملے یا غرق دریا ہو- جب ناطہ ہی ٹوٹ گیا تو کیافرق پڑتا ہے دنیا آپ کو کس نام سے یاد رکھتی ہے- اب تو معاملہ بندے اور خدا کا ہے- 
راستے میں مسجد قاسم پاشا کا دیدار

شاہی قبرستان- کل نفس ذائقہ الموت




خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانی-






تھوڑاآگے چلے تو نیلی مسجد پہنچ گئے- نیلی مسجد سے ملحقہ ہی عثمانی سلاطیان کا ایک مزار ہے – یہاں پر سلطان سلیم دوئم، سلطان مراد ثالث، سلطان محمد ثالث، سلطان مصطفیٰ اول، سلطان ابراھیم اول،مشہور عثمانی ملکہ کوسم سلطان اور ان کے شوہر نیلی مسجد کے خالق سلطان احمد اول مدفون ہیں- 
شاہی مقبرہ ملحق نیلی مسجد










یہاں سے نیلی مسجد پہنچے جو مرمت واسطے بند تھی- تاہم اسی وقت اذان ہوئی اور سیکورٹی افسر نے پوچھا کیا نماز پڑھنی ہے- ہم نے ہاں کر دی اور یوں ہمیں اندر جانے کی اجازت مل گئی۔ نیلی مسجد جس کو چھ مناروں والی مسجد بھی کہتے ہیں عیسائیوں کی عبادت گاہ آیا صوفیہ کا اثر ذائل کرنے کو تعمیر کی گئی تھی اور یہ اتنی ہی پرشکوہ تھی جنتی کہ عثمانیوں کا جاہ و جلال-
نیلی مسجد کے باہر ایک سبیل

نیلی مسجد باہر و اندر









 یہاں سے آیا صوفیہ پہنچے تو مقصد فقط باہر سے تصاویر کھینچ کر شہیدوں میں نام لکھوانا تھا- ڈاکٹر مجاہد نے ٹکٹ کی قیمت پوچھی تو ساٹھ لیرا بتائی گئی- مجھ سے رائے لی گئی تو میں نے کہہ دیا چھوڑیں پھر کبھی سہی- لیکن ڈاکٹر مجاہد نے کہا کیا پتہ کل ہو ناں ہو چلتے ہیں- یوں ہم ٹکٹ لیکر اندر چلے گئے- بعد میں خبر ملی کہ ٹکٹ میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے اور ہمیں جو ساٹھ مہنگا لگ رہا تھا وہ اب سستا ہے- 

آیا صوفیہ داخل ہوئے اور سنہ 360 عیسوی میں تعمیر ہونے والے اس گرجا گھر نے مبہوت کر کے رکھ دیا- اگر ہمارا آج یہ حال ہے تو سوچیے اس زمانے کے لوگ تو اس کو پوجتے ہوں گے- اس کا انگریزی نام Hagia Sophia یونانی زبان سے نکلا ہے جہاں اس کا مطلب روضہ صوفیہ ہے- صوفیہ یونانیوں کے نزدیک علم و دانش کی دیوی تھی- اس کو تاریخ کی عظیم ترین عمارتوں میں گنا جاتا ہے اور بلا شبہ درست گنا جاتا ہے- تاہم اصل عمارت دوصد سال بعد جل کر تباہ ہو گئی تھی حالانکہ اس زمانے میں یہ واپڈا اور کے الیکٹرک جیسی عمارتیں جلانے والے آلات معرض وجود میں نہ آئے تھے پھر بھی کئی عمارتیں نذر آتش ہو گئیں- خدا جانے وہ لوگ اس ضمن میں کن آلات کو استعمال میں لاتے ہوں گے- بہرحال موجودہ عمارت سنہ 537 عیسوی میں اس وقت کے بازنطینی بادشاہ قستنطین اول نے تعمیر کرائی تھی- ایک ہزار سال تک یہ دنیا کا سب سے بڑا گرجا رہا تھا تاوقتیکہ 1520 عیسوی میں الشبلہ گرجا تعمیر ہوا- 1453 ء میں قستنطنیہ کی فتح کے ساتھ ہی سلطان محمد فاتح کے حکم سے اس کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا- تاہم اس پر قائم شبہیات و نقش نگار تباہ کرنے کی بجائے چھپا دیا گیا- سہولیویں صدی میں مسجد کا تاثر ابھارنے کے لیے مناروں کی تعمیر کی گئی جس نے عمارت کو مزید جاذب نظر بنا دیا- انیسویں صدی میں مسجد میں قد آور اللہ، محمد، خلفا راشدین اور صحابہ کے نام لگائے گئے جو آج بھی اندر داخل ہونے والوں کو فوراً اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں- اتاترک دور میں اس کو گرجا گھر بنا دیا گیا- تاہم حال ہی میں اردگان نے اس کو دوبارہ مسجد بنانے کی بات کی ہے- دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھے۔
آیا صوفیا اندر- باہر










ایماں مجھے کھینچے ہے تو روکے ہے مجھے کفر



































سبیل






نیلی مسجد و آیا صوفیا کے باہر



 یہاں سے چلے تو دوبارہ بس میں بیٹھے کہ ڈیڑھ گھنٹہ سفر کرکے ہوائی اڈے پہنچنا تھا جہاں انطالیہ جانے کو پرواز ہمیں آوازیں دے رہی تھی-

Turkey-Istanbul, Antalya, Sivas