April 30, 2023

میں نے بلاگ لکھنا کیوں چھوڑدیا


 

سنہ 2016 تک میں باقاعدگی سے بلاگنگ کرتا  رہا۔ اور بلاگنگ بھی ایسی کہ نان فکشن کو تو ہم دل سے بلاگر ہی نہیں مانتے تھے- ایسی دھواں دار بلاگنگ کی کہ ہر ہفتے ایک یا دو بلاگ پوسٹ کردیتے اور دس پندرہ  تحاریر قطار میں پڑی انتظار کرتی رہتیں۔ بیسٹ بلاگر کا ایوارڈ ملا- افسانوں کی کتاب شایع ہوئی- اور پتہ نہیں  کیا کیا اپنی طرف سے کارنامے سرانجام دیے بھلے پڑھنے والے سو دو سو ہی لوگ تھے لیکن ہم زمانے کی پرواہ کرنے والے ہوتے تو آج سدھر نہ چکے ہوتے۔


پاکستان واپسی پر سنہ 2017 میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور بطور اسسٹنٹ پروفیسر جوائن کی تو بلاگنگ پر پہلی بریک لگی۔ سوچ آئی کہ ادھر بچوں کو اخلاقی لیکچر دیتا ہوں ادھر بلاگ فضولیات سے بھرا پڑا ہے- کسی بچے نے پڑھ لیا تو کیا سوچے گا کہ سر دوسروں کو نصحیت اور خود میاں فصحیت ہیں- کہ آج کے زمانے میں کون فکشن و نان فکشن میں پڑتا ہے حالانکہ مجھے یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ کون آج کے زمانے میں فکشن و نان فکشن پڑھتا ہے- بس  خیال آیا کسی دن کسی بچے نے کلاس میں پوچھ لیا کہ "سر وہ پراگا والی سرخ بالوں والی لڑکی کون تھی"،  تو کیا جواب دوں گا-

تابوت میں دوسری کیل وقت کے ہاتھوں گرفتاری سے  لگی- یورپ میں نہ بال نہ بچے ، سوشل سائنسز کی پی ایچ ڈی  کہ جب دل چاہا پڑھ لیا جب دل چاہا لیٹ کر خیال یار میں کھو گئے، سمارٹ فون کی علت ابھی پیدائش کے مراحل میں تھی اور نیٹ فلکس کی بدعت ابھی وجود میں نہ آئی تھی تو بے تحاشہ و بے محابا وقت تھا۔ جب واپسی ہوئی تو پہلی نوکری ہی بہاولپور ہوئی اور ملتان سے روز آنا جانا ہوتا   یعنی دو گھنٹے صبح ڈرائیو دو گھنٹے شام۔ اس ڈرائیو ٹائم کا فائدہ بس موٹی موٹی کتب سننے کا ہوا جو اپنی جسامت کی بنا پر پڑھنا تو دور اٹھا نی بھی محال تھیں البتہ لکھنے  لکھانے دو ری ہو گئی۔

تیسری  کیل سیاست نے لگوا دی کہ اچھی باتیں، روشن اقوال، صحت مندانہ صحبتیں سب سیاست کی نظرہوگئیں – یورپ میں بھی سیاسی باتیں ہو جایا کرتی تھیں لیکن وہ ایسے ہی ہوتی تھیں کہ گھر سب خیر ہے؟ بیوی بچے ٹھیک ہیں؟ فلاں لیڈر کا بیان سنا؟ کل سنا ہے پھر برف باری ہوگی۔ دوسرا وہ اور زمانہ تھا جہاں ایک دوسرے کو غدار سیاسی رو سے کہا جاتا تھا اور پیٹ پھاڑنا و سڑکوں پر گھسیٹنا سیاسی نعرے ہوا کرتے تھے پھر ادھر سے اپنے خان صاحب آگئے اور ادھر سے نئی نسل جوان ہوگئی جو پیدا ہی استحصال کہ وجہ سے ہوئی اور سیاست نے ایک ایسی تقسیم پیدا کردی جو لیفٹوں اور رائیٹوں میں بھی نہ رہی تھی- ننتیجتاً پڑھے لکھوں اور اچھے بھلوں کا یہ کام رہ گیا کہ اپنے پسند کے گوں کو حلوا جبکہ ناپسند کے من  و سلوا کو کچرا قرار دیں – نظریاتی لوگ عنقا ہوگئے اور حق گوئی اور غیر جانبداری تیل لینے روانہ ہوگئیں- اب بھلے بلاگ پر مزاح کے طور پر جتنے جھوٹ بولے ہوں حقیقی زندگی میں یہ ہمارے لیے ایک ناممکن ترین امر ہے تو سیاست جیسے ایک مڈل کلاس و غریب بندے کے لیے شجر ممنوعہ بن چکی ہے ایسے ہی سیاست پر لکھنا بھی ہمارے لیول سے اوپر کی بات بن گئی ہے

آخری کیل حالات نے ایسی لگائی کہ پچھلے کچھ عرصہ سے کیا لکھت کیا پڑھت کیا فوٹو گرافی کیا طائر بینی کیا خوش اخلاقی کیا اصول پسندی ہر شے روانہ ہوتی گئی اور ہم بھی آہستہ آہستہ پکے پاکستانیوں کا لبادہ اوڑھنے لگے کہ مہنگائی  و حالاتِ روزگار نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اب بندہ پیٹ کی سوچ سے نکلے تو کچھ مزید سوچ پائے۔

بہرحال – بات اتنی سی ہے کہ اب کبھی وقت سازگار ہوا تو ضرور لکھیں گے تب تک ایسے ہی سال میں دو سال میں ایک آدھ بلاگ اور مہینے دو مہینے میں ایک آدھ فیس بک اسٹیٹس ہی چلے گا-دیکھئیے کب تک ایسے چلتے ہیں -