February 14, 2011

Ten things I hate about Oslo

اوسلو نا پسند کرنے کی دس وجوہات


 کسی نے مجھے ایک بار کہا تھا پاکستان کی ترقی میں محض ایک چیز مانع ہے اور وہ ہے پاکستانی قوم۔اگر اس مفروضے کو درست مان لیا جائے تو ناروے کے ایک مضبوط ملک جسے ہم عرف عام میں سپر پاور کہتے ہیں نہ ہونے کے باعث اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔پاکستانی نہ صرف وافرمقدار میں ہیں بلکہ بہت اچھے اچھے عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ 

 خلیج سکاگیراک کے کنارے واقع اوسلو جو کہ ناروے کا دارالحکومت بھی ہے کی سستی ٹکٹ دیکھ کر ہمارا دل بھی پھسل گیا اور ہم نے محض پچاس یورو کی وِز ایر کی ٹکٹ لے لی۔اور ناروے جس کی بڑی تعریف سن رکھی تھی کی عظمت ہمارے دل میں مزید نمایاں ہو گئی۔لیکن ایر پورٹ پر پہنچ کر وِز ایر دیکھ کر دل بیٹھ گیا۔ایک تو دستی سامان کے علاوہ اور کوئی سامان ہمراہ نہیں لے جا سکتے تھے۔خیر یہ کوئی اتنا مسئلہ نہیں تھا لیکن مزہ تب آیا جب پتہ چلا کہ کوئی سیٹ نمبر بھی نہیں جس کی جہاں مرضی آئے وہ بیٹھ جائے،
ملتان پبلک کی بس یاد آ گئی جس میں ہم کھڑکیوں سے بستے اندر نشستوں پر پھینکا کرتے تھے کہ یہ میری ہوگئی یا کسی دوست کو کہا کہ جو پہلے گھسے گا وہ دوسرے کی بھی مل لے گایہی ہم نے جہاز میں بھی کیا کہ تین دوست تھے اور طے پایا جو بھی پہلے گھسے گا وہ تین نشستیں اکٹھی مل لے گا۔

 اگر آپ زندگی سے تنگ آگئے ہیں اورکچھ فیصلہ نہیں کر پا رہے تو میرا مشورہ ہے کہ اوسلو چلے جائیں۔یورپ اس مہنگے ترین شہر میں جہاں ایک روز ٹرانسپورٹ کی ٹکٹ وارسا کے ایک ماہ کی ٹکٹ کے برابر ہے جلد ہی آپ سردی اور مہنگائی کے ہاتھوں آپ اس فیصلے پر متفق ہو جائیں گے کہ یہاں رہنے سے بہترتو خود کشی ہے۔

ایک دفعہ جہاز میں سفر کے دوران میرے سے پیچھے بیٹھے پاکستانی نے دو پیگ پینے کے بعد ترنگ میں آکر اپنے ساتھ بیٹھے میرے جیسے جاہل شخص کو بتانے لگاکہ وہ سوئیڈن میں ملازمت کرتا ہے اور ان کو ہر ہفتے شراب کا کوٹہ ملتا ہے جو ان کو لازمی پینا ہوتا ہے اگر وہ نہ پییں تو ان کی جواب طلبی ہو جاتی ہے کہ کیوں نہیں پیا۔کہنے کا مطلب ہے کہ جتنا مرضی جھوٹ بولیں اسکینڈے نیویا ممالک کی سردی کے بارے میں کم ہے باقی مہنگائی کا اوپر پہلے ہی لکھ چکا ہوں۔

مہنگائی کا اندازہ اس بات سے بھی لگا لیں کہ ہم پچاس یورو کی خوشی میں اوسلو تو پہنچ گئے لیکن اوسلو ہوائی اڈے سے اوسلو شہر تک ہمارا ایک سو یورو مزید لگ گیا۔باقی رہی سہی کسر دنوں کی طوالت پوری کر دیتی ہے جو گرمیوں میں غیر معمولی طویل اور سردیوں میں غیر معمولی مختصر۔

اوسلو وائی کنگز (VIKINGS) نے آباد کیا تھا جو آٹھویں اور دسویں صدی عیسوی کے دوران مغربی ساحلوں پر لوٹ مار کیا کرتے تھے لیکن ان کی آنے والی نسلوں نے لڑائی بھڑائی ترک کر کے پیار محبت کو فروغ دیا اور ایسا دیا کہ تین سو بیس ہیکٹر پر ایک ایسا پارک بنا ڈالا جس میں برہنہ مجسموں کے علاوہ کچھ نہیں۔اس پارک میں جنسی آسنوں سے لیکر بچوں تک کی کہانی بیان کر دی گئی ہے۔کہانی یہ ہے کہ انیسویں صدی میں کسی صاحب نے ایک رومانوی پارک بنانے کی کوشش کی تھی جس کا نتیجہ فروگنر پارک اور برہنگی کی صورت میں سامنے ہے۔ویسے آپس کی بات ہے اتنی سردی میں ایسا شوق یونہی پورا کیا جاسکتا ہے بندوں کے بس کی تو بات نہیں ۔یہاں تو جیکٹیں نہیں اترتی کجا سب کپڑے۔لہذا یہاں کے بندے اپنے ایسے ویسے شوق پورے کرنے مغربی ساحلوں پر جاتے ہیں۔

شہر میں امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ کا مجسمہ دیکھ کر بڑی خوشی کہ ہمارا تو حق بنتا ہے کہ امریکیوں کی بے چوں چراں مانیں جب ناروے جیسے ترقی یافتہ ملک نے ان کے آگے سر جھکایا ہوا ہے۔ لیکن اوسلو کی سب سے اچھی بات یہ رہی کہ یہاں میں اپنے پرانے دوست عدیل سجاد سے ملا۔ہم پنڈی میں اکٹھے پڑھا کرتے تھے اور دس سال بعد ہماری ملاقات ہوئی۔آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دس سال بعد ملنے پر کیسا محسوس کیا ہوگا۔ 

اوسلو کو مختصر یوں بیان کیا جا سکتا ہے
 10 وجوہات جنکی بنا پر مجھے اوسلو پسند نہیں
1۔مہنگائی بہت ہے۔
2۔سردی بہت زیادہ ہے
3۔کرنسی کی تبدیلی کا نظام بہت فضول ہے۔آپ کو پیسے تبدیل کروانے پر ان کو کمیشن بھی دینا ہوتا ہے ۔
4۔گوریاں لفٹ ہی نہیں کرواتیں۔
5۔ہوائی اڈا شہر سے اتنی دور واقع ہے کہ ہوائی ٹکٹ سے زیادہ بس پر پیسے لگ گئے۔
6۔شہر اتنا چھوٹا ہے کہ چھ گھنٹے پیدل چلنے کے بعد شہر میں مزید کوئی دیکھنے قابل شے ہی نہیں بچی۔
7۔ہم تینوں کے پاس پیسے بھی کم پڑگئے۔کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنی مہنگائی بھی ہو سکتی ہے۔
8۔پانچ ستاروں والے ہوٹل کا کہہ کر سہولیات تین ستاروں والے ہوٹل کی تھیں۔سچ ہے سستا روئے بار بار۔
9۔سردی کی وجہ سے جسم پر اتنی خشکی ہو گئی تھی کی میں نے کہنا شروع کر دیا کہ میں پہلا شخص ہوں گا جو جسم پر خشکی کی وجہ سے فوت ہو گا۔
10۔اور تو اور مول میں رفع حاجت پر بھی پیسے ہیں۔میرے دوست کو تصور میں لائیے جو شاپنگ کی ابتدا اور اختتام دونوں لیٹرین سے کرتا ہے۔