February 1, 2011

سائیکل موٹر

Cycle Motor  


تو قصہ کچھ یوں ہے بھائی صاحبان کہ جب میں دسویں جماعت میں پہنچا تو میرے والدین نے فیصلہ کیا کہ مجھے اسکول آنے جانے کی پریشانی سے بچانے کے لیے ایک موٹر سائیکل لے کر دیے دیاجائے۔لیکن اللہ جانتا اس فیصلے سے مجھے کوئی خاص خوشی نہ ہوئی۔بہرحال میں میرے ماموں اور انکا ڈرائیور موٹر سائیکل خریدنے کے مشن پر نکل پڑے اور ہنڈا سی ڈی سیونٹی کا پہلا ماڈل جو چوکور بتی کے ساتھ آیا تھا وہ ہم نے خریدا تو ہلکی سی خوشی ہوئی کیونکہ گول بتی والے موٹر سائیکل مجھے زہر لگتے تھے۔موٹر سائیکل خرید کر میں اور ڈرائیور تو کار پر واپس گھر آگئے اور ماموں موٹر سائیکل پر۔اس مشق کا اصل مقصد موٹر سائیکل کی کارکردگی جانچنا نہ تھا بلکہ اصل بات یہ تھی کہ تب تک مجھے موٹر سائیکل چلانا ہی نہ آتا تھا۔

جس دن میں نے موٹر سائیکل لیا اسی دن ڈبل سواری پر بھی پابندی لگا دی اور جو بات اب کراچی والے کہتے ہیں وہی اس زمنے میں شہباز شریف صاحب فخریہ کہا کرتے تھے کہ ڈبل سواری پر پابندی سے آدھی دہشت گردی پر قابو پا لیا گیا ہے۔میں سوچتا تھا کہ یہ نامراد موٹر سائیکل پر مکمل پابندی لگا کر دہشت گردی کو جڑ سے ہی کیوں نہیں اکھاڑ دیتے۔نہ ان کو عوام کے سامنے شرمندگی ہو نا مجھے خاندان والوں کے سامنے کہ اس کو موٹر سائیکل ہی چلانی نہیں آتی۔


میرے چھوٹے کزن عثمان شاہ نے بہتیری کوششیں کیں کہ میں اس کے موٹر سائیکل پر سیکھ لوں ۔اب ایسی بات بھی نہیں تھی کہ مجھے بالکل ہی چلانا نہیں آتا تھا ۔چلا تو لیتا تھا لیکن وہ کہتے ہیں نہ ہاتھ کچا ہے بس وہ والی بات تھی لیکن ہمیشہ کزن کو یہ کہہ کر ٹالتا رہا کہ یار ادھر ادھر لگ گیا تو اچھی بات نہیں، میں اپنے موٹر سائیکل پر ہی ہاتھ پکا کر لوں گا ۔اصل میں میری انا کو یہ منظور نہ تھا کہ چھوٹے کزن کو استاد بنایا جائے۔

اس مسئلے کا حل یوں نکالا گیاکہ مجھے موٹر سائیکل کا ڈرائیور رکھ کر دے دیا گیا۔شرمندگی تو بڑی ہوئی لیکن یہ سوچ کر دل کو تسلی دی اگر موٹر سائیکل کا ڈرائیور نئی چیز ہے تو موٹر سائیکل بذات خود کونسے بابا آدم کے زمانے سے موجود رہی ہے۔ لیکن کلاس میں میں مشہور ہو گیا صرف اس وجہ سے نہیں کہ میرے پاس موٹر سائیکل ہے اور میں نے اس کا ڈرائیور رکھا ہو ا ہے بلکہ اس وجہ سے بھی کیونکہ تب میں موٹر سائیکل کو سائیکل موٹر بلایا کرتا تھا۔اب اتنی معمولی سی بات سے کیا فرق پڑتا ہے لیکن میرے دوست نجانے کیوں میرا مذاق اڑایا کرتے تھے اور بہانے بہانے سے پوچھتے یار ڈرائیور کہاں ہے میں کہتا باہر ،دوسرا پوچھتا کار کا؟ میں جواب دیتا کہ نہیں سائیکل موٹر کا اور وہ خوب ہنستے۔اللہ جانے کیوں لیکن اب میں سائیکل موٹر نہیں کہتا بلکہ موٹر سائیکل کہتا ہوں۔

 لیکن میری اور میرے ڈرائیور کی زیادہ عرصہ تک نبھ نہ سکی۔مجھے سکھانا بھی اس کے فرائض میں شامل تھااور چونکہ میں گاؤں میں رہتا تھا لہذا واپسی پر ہم مین روڈ کی بجائے اندر کے راستوں سے آتے تاکہ میں موٹر سائیکل بھی سیکھ لوں اور پولیس سے بھی بچے رہیں۔پاکستانی پولیس کو تو آپ جانتے ہی ہیں وہ صرف دو چیزوں میں ماہر ہیں ایک بغیر لائسنس ڈرائیور کو پہچاننے میں اور دوسرا شراب و شباب کی محفل پر چھاپہ مارنے میں۔تو ایک روز جب ہم واپس آرہے تھے تو ایک پگڈنڈی پر چلاتے چلاتے اچانک مجھے احساس ہو ا کہ موٹر سائیکل کی رفتا ر خاصی تیز ہو گئی ہے اور یہی حال رہا تو یہ میرے قابو سے باہر ہو جائے گا ۔یہ خیال آتے ہی میں نے اسپیڈ چھوڑ دی لیکن معاملہ یہاں تک رہتا تو ٹھیک تھا پر میں نے اسپیڈ کے ساتھ ساتھ ہی موٹر سائیکل کا ہینڈل بھی چھوڑ دیا۔زمین و آسمان کے ایک بار یکجا ہو نے کے بعد جب وہ دوبارہ اپنی اپنی جگہ پر واپس چلے گئے تو میری آنکھ کھلی اور میں نے دیکھا کہ میں گنے کے کھیت میں پڑا تھا کچھ گنے ٹوٹ کر میرے اوپر اور کچھ ادھر ادھر گرے پڑے تھے۔میرے نیچے موٹر سائیکل تھا جسکا ایک پہیہ ابھی تک گھومے جارہا تھا اور موٹر سائیکل کے نیچے میرا ڈرائیور بے سدھ پڑا تھا۔لگتا تھا اس کو ابھی تک زمین و آسمان یکجا نظر آرہے تھے۔

یو ں موٹر سائیکل کی تاریخ میں (میرے جاننے کے مطابق) پہلے ڈرائیور کے پیشہ ورانہ سفر کا اختتام ہو گیا کہ اس نے ایسی ڈرائیوری سے بے روزگاری کو ترجیح دے دی۔ گڈے(میرا پہلا ڈرائیور) کے بعد نظر انتخاب چاچا اقبال پر پڑی اور جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ اب بڑی عمر والا ڈرائیور مجھے دیا گیا تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔ 

کوشش تو خیر ہم نے بڑی کی لیکن وہ مولوی مدن والی بات پیدا نہ ہوسکی کہ موٹر سائیکل کے ماہر ہو جاتے ،ون ویلنگ کر پاتے یا شاں کر کے اڑ جاتے لیکن وقت بڑا استاد ہے اور کچھ مہینوں میں ہم نے موٹر سائیکل پر خاصی مہارت حاصل کر لی۔خاصی کی تفصیل یہ ہے کہ اگر رش نہ ہوتا تو ہمارا ہاتھ نہ کانپا کرتا تھا۔ اپنی اس مہارت کے بل بوتے پر اکثر اوقات اکیلے بھی چلا جایا کرتا تھا لیکن کوشش یہی رہتی کہ مین روڈ سے پرہیز ہی کیا جائے۔ایسے ہی ایک روز اپنے دوست سعد طاہر جو یونیورسٹی میں رہتا تھا گیا اور واپسی پر مغرب ہو گئی۔نیم اندھیرے میں نکلااور کچے پکے راستوں سے ہوتا ہوا گاؤں واپس جارہا تھا کہ اچانک موٹر سائیکل بند ہو گیا۔اب نیم اندھیرا نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔کچی سڑک کے آسے پاسے قد آور فصل کہ اچانک دور سے گھنگروؤں کی آوازیں آنے لگی۔میں نے سوچا کے بھی آج تک جتنی خبریں اخبار کے سنڈے میگزین میں چڑیلوں کی جھوٹی کہانیاں سنیں تھیں وہ سچی ہونے لگی ہیں۔گھنگروؤں کی آواز قریب سے قریب ہوتی جا رہی تھی اور میرا دل چاہا کہ موٹر سائیکل وہیں پھینک دوں اور بھاگ کھڑا ہوں لیکن یہ خیال آیا کہ کیا پتہ چڑیل نہ بھی ہو۔اصل میں اس وقت چڑیل کا خوف بابا کے جوتوں سے زیادہ بھلا لگ رہا تھا اور میں تیار ہو گیا کہ دیکھیں چڑیلیں کیسی ہو تی ہیں۔آخرکار طلسم ٹوٹا اور اس میں سے بیل گاڑی نکلی۔گھنگرو بیل کی گردن سے لٹکے ہوئے تھے۔سانس میں سانس آیا۔بیل گاڑی پر بیٹھے لوگوں نے کہا شاہ جی دھکا لگا دیں لیکن میں نے منع کر دیا اب ان کو کیا بتاتا کہ مجھے نہیں پتہ دھکے پر موٹر سائیکل کیسے اسٹارٹ کرتے ہیں۔لیکن ان کمی لوگو ں کو تو آپ جانتے ہیں بڑے واہیات ہوتے ہیں،دھکا لگا کر ہی دم لیا پر مجھے طریقہ آتا ہوتا تو اسٹارٹ ہوتا ناں۔آخر وہ بولے شاہ جی ذرا آپ ایک طرف ہو جائیں اور ایک بندے نے موٹر سائیکل سنبھالا اور دوسرے نے دھکا لگایا اوروہی ہوا جس کا ڈر تھا یعنی موٹر سائیکل اسٹارٹ کر دیا۔شرمندگی تو بہت ہوئی لیکن جی کڑا کر بولا یار اس نے تو تنگ کر کے رکھ دیا کبھی خود بخود ہی اسٹارٹ ہو جاتا ہے کبھی چلتے چلتے بند ہو جاتا ہے۔

بہرحال وہاں سے اگر دم ہوتی تو یہ جملہ لکھنا درست ہوتا کہ دم دبا کر بھاگا۔لیکن تھوڑی دور آگے جاکرموٹر سائیکل پھر بند ہو گیااور اب میں خوشی خوشی تین کلو میٹر موٹر سائیکل کو گھسیٹ کر گھر لا پھینکا۔ جب موٹر سائیکل مستری کے پاس بننے گیا تو میرے ماموں نے مجھے بلایا اور طنزاً پوچھا شاہ جی کبھی موٹر سائیکل میں موبل آئیل بھی چیک کیا تھا؟ میں حیرانگی سے چیختے ہو ئے بولا کیا؟ماموں جی موٹر سائیکل میں بھی موبلائیل فلٹر ڈلتا ہے؟ بس وہ میرا ،موٹر سائیکل اور موٹر سائیکل کے ڈرائیور کی رفاقت کا آخری دن تھا۔میرے والدین کو احساس ہو گیا کہ انکا بیٹا مادی اشیا سے بالاتر ہے۔انہوں نے موٹر سائیکل بیچ کر مجھے سائیکل لے کر دے دیا۔